چلو،چلو

Ali Imran Junior, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

دوستو، امریکا میں ہونے والی نئی طبی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ روزانہ چلنے اور اپنے جسم کو حرکت میں رکھنے سے انسان دل کی شریانوں کے امراض، ذیابیطس اور کینسر کی اقسام سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتا ہے،میساچوسٹس یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ فار اپلائیڈ سائنسز کے ماہرین نے اس نئی تحقیق پر کام کیا ہے۔ماہرین نے روزمرہ کی سرگرمیوں اور قدموں کی تعداد کو مدنظر رکھا اور روزانہ قدموں کی تعداد اور مختلف امراض سے موت کے خطرے میں کمی کے درمیان واضح تعلق کو دریافت کیا۔تحقیق میں بتایا گیا کہ روزانہ کم از کم 7 ہزار قدم چلنا مختلف امراض سے موت کا خطرہ 50 سے 70 فیصد تک کم کرسکتا ہے۔ تحقیق کے دوران درمیانی عمر کے افراد کا جائزہ اوسطاً 9 سال تک لینے کے بعد دریافت کیا گیا جو لوگ زیادہ چہل قدمی کرتے ہیں ان میں ذیابیطس کا خطرہ 43 فیصد اور ہائی بلڈ پریشر کا امکان 31 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔
تاریخ پڑھیں توپتہ چلتا ہے کہ ایک مغل بادشاہ نے پیدل چلنے کی منت مانگی تھی۔واقعہ کچھ یوں تھا کہ۔۔مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے ہاں 27 سال کی عمر تک سب سے بڑا المیہ یہ تھا کہ ان کے کوئی اولاد نہیں تھی۔ 1564ء میں ان کے ہاں ضرور دو جڑواں بیٹے حسن اور حسین پیدا ہوئے لیکن وہ صرف ایک ماہ ہی زندہ رہ سکے۔اکبر نے اپنے سب سے زیادہ عقیدت رکھنے والے بزرگ خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر منت مانی کہ اگر ان کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو وہ آگرہ سے اجمیر تک پیدل چل کر ان کی درگاہ پر حاضری دینے پہنچیں گے۔بالآخر خدا نے ان کی بات سن لی اور ان کے درباریوں نے انھیں آگاہ کیا کہ آگرے کے قریب ایک پہاڑی پر معین الدین چشتی کے شاگرد اور پیر سلیم چشتی رہتے ہیں، جو تمہاری خواہشات کو پورا کر سکتے ہیں۔پاروتی شرما نے جہانگیر پراپنی کتاب۔۔این انٹیمیٹ پورٹریٹ آف اے گریٹ مغل جہانگیر۔۔میں تحریر کیا ہے کہ۔۔دنیا میں ایسی کوئی چیز نہیں تھی جو اکبر کے پاس نہیں تھی۔ صرف اولاد نہیں تھی۔ وہ اس امید پر سلیم چشتی کے پاس حاضر ہونے لگے۔ ایک دن اکبر نے ان سے براہ راست پوچھا، میرے کتنے بیٹے ہوں گے؟ انھوں نے جواب دیا، خدا تمہیں تین بیٹے دے گا۔ اور ایسا ہی ہوا۔ لیکن چشتی کی دعا سے پیدا ہونے والے سلیم بعد میں ان کی موت کی وجہ بھی بنے۔
بات شروع ہوئی ہے چلنے سے، ہمارے معاشرے میں ”چلو،چلو“ کا نعرہ بہت مقبول ہے۔۔ کسی سیاسی جماعت کا جلسہ کسی جگہ ہورہا ہوتو پارٹی کارکنان نعرے لگاتے اور وال چاکنگ کرتے ہیں کہ۔۔چلوچلو، فلاں جگہ چلو۔۔ ابن انشا نے بھی کئی عشرے پہلے دعوت دی تھی کہ۔۔چلتے ہوتو چین کو چلئے، ہماری قوم کو تو ان کی بات سمجھ نہیں آئی لیکن چین والوں کو سمجھ لگ گئی، اس لئے وہ خود پاکستان چلا آیا۔۔ ہم کراچی میں جس علاقے میں رہتے ہیں وہ علاقے کی مین مارکیٹ ہے،یقین کریں کہ ہم بیچ سڑک پر گاڑیوں سے بچتے بچاتے چلتے ہیں،کیوں کہ فٹ پاتھوں پر دکانداروں نے اپنے سامان کا ڈھیر لگایاہوتا ہے، اور یہ ایک دن کی بات نہیں،علاوہ جمعہ،جمعہ کے سوا پورا سال سڑک کے بیچوں بیچ چلنا پڑتا ہے۔۔ ایک دفعہ نہیں دو دفعہ نہیں کئی ایک مرتبہ سٹی ٹریفک پولیس نے سڑک پر پیدل چلنے والے افراد کے لئے ایڈوائزری (مشورہ) جاری کی کہ سڑک پر پیدل چلنے والے افراد ہمیشہ فٹ پاتھ کا استعمال کریں۔اوور ہیڈ بریج یا انڈر پاس کا استعمال کریں۔چلتی ٹریفک کے درمیان کبھی سڑک عبور کرنے کی کوشش نہ کریں۔ اسی طرح شاہراؤں پر ڈرائیونگ کے اصولوں سے واقفیت اور سیفٹی قوانین کی آ گاہی مہمات بھی بارہا چلائی گئیں۔۔لیکن پاکستانی قوم کسی کی سنتی کہاں ہے؟ 
راہ گیر، یعنی پیدل چلنے والوں کے کئی دلچسپ واقعات ہمیں یاد آرہے ہیں۔۔ ایک راہگیر ناکے پر کھڑے پولیس اہلکار کے سامنے سے گزرا،کچھ آگے جا کر وہ واپس پلٹا اور پولیس والے سے کہنے لگا۔۔آپ نے مجھے پہچانا، میں کون ہوں۔۔وہ بے چارہ سوچ میں پڑ گیا، کوئی جواب نہ دے سکا۔ اس پر راہگیر بڑی معصومیت سے کہنے لگا۔۔آپ کا حافظہ بہت کمزور ہے، میں وہی تو ہوں جو ابھی کچھ ہی دیر پہلے آپ کے سامنے سے گزرا تھا۔۔۔اسی طرح ایک صاحب اپنے خیالات میں مگن پیدل کہیں جارہے تھے، راستے میں گدھا بندھا ہوا تھا،جیسے ہی وہ قریب پہنچے،گدھے نے اچانک اسے دولتی رسید کردی۔۔ اس نے گدھے کو دو تین لاتیں رسید کیں اور بولا۔۔کیا میں تجھ سے کم ہوں؟۔۔دوپینڈو پہلی بار شہر گئے۔۔ پیدل گھوم رہے تھے اور بلند عمارتوں کے ساتھ ساتھ بتیاں دیکھ دیکھ کر خوش ہورہے تھے،اچانک ان کی نظر ایک بڑی سی بس پر پڑی تو ایک نے دوسرے سے کہا۔۔وہ دیکھو، کتنا بڑا جانور بھاگا جا رہا ہے۔۔۔دوسرے کی نظر ایک کار پر پڑی جو بس کے پیچھے جارہی تھی تو وہ بولا۔۔اور اس کے پیچھے اس کا بچہ بھی بھاگا جارہا ہے۔۔۔دوبچے آپس میں لڑرہے تھے، ایک نے کہا، تم مجھے نہیں جانتے۔۔ دوسرے نے برجستہ کہا۔۔جانتا ہوں، تم وہی ہو جو مار کھا کر بھاگ جاتے ہو۔۔۔ڈاکٹر نے مریض کے لیے نسخہ تجویز کیا کہ وہ ہر روز دس میل پیدل چلے، سات دن کے بعد بتائے کہ کیا فرق پڑا ہے۔ ساتویں دن مریض نے فون کیا تو ڈاکٹر نے پوچھا، کچھ فرق محسوس ہوا، جواب میں مریض نے کہا۔۔پتہ نہیں،لیکن میں اس وقت اپنے گھر سے ستر میل دور پہنچ چکا ہوں؟ یہ بتائیں، اب کیا کرنا ہے، دس میل پیدل چلنے والی روٹین جاری رکھنی ہے یا گھر واپس آنا ہے؟؟بھارتی پنجاب کے شہر لدھیانہ کی ایک سڑک پر ایک سردار اچانک دوڑنے لگے، ٹریفک سارجنٹ بھی سکھ تھا، وہ اس کی طرف لپکا اور پکڑ کر پوچھا۔۔سردار جی! کیا بات ہے، تم اچانک دوڑنے کیوں لگے۔؟؟ سردار نے ایک بورڈ کی طرف اشارہ کیا۔ اس پر لکھا تھا، کم از کم رفتار 20 کلو میٹر فی گھنٹہ۔ یہ پڑھتے ہی سارجنٹ نے بھی دوڑ لگادی۔۔باباجی فرماتے ہیں کہ۔۔لڑکیوں کے پاس بائیک ہونی چاہیے،پیدل تو وہ عقل سے بھی ہوتی ہیں۔۔سڑک کنارے ایک پسو نے دوسرے پسو سے پوچھا۔۔ کیا ہم پیدل جا رہے ہیں یا ہم کتے کا انتظار کر رہے ہیں؟۔۔ہمارے پیارے دوست بچپن میں بہت ہی معصوم تھے، ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ انہوں نے اپنی ماں سے بڑے بھولپن سے سوال کیا۔۔ ماں، ماں کیا چاکلیٹ کینڈی دیوار پر چلتی ہے؟؟ماں نے کہا، نہیں بیٹا، بالکل نہیں چلتی۔۔ ہمارے پیارے دوست نے بڑے اداس لہجے میں کہا۔۔ آہ، اس کا مطلب میں نے کاکروچ کھالیا ہے؟؟
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔محبت اور وقت دینے کے باوجود اگر کوئی آپ کی زندگی سے جانا چاہتا ہے تو اسے روکیں مت، جانے دیں بلکہ پیچھے سے زوردار لات بھی رسید کردیں۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔