کتے اور ٹامی کی داستان…

کتے اور ٹامی کی داستان…

پاکستان میں گزشتہ کئی برسوں سے ’’تمہارا کتا ٹامی اور میرا کتا کتا‘‘ کی ضرب المثل کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا جرم قابل دست اندازی اور میرا وہی جرم بس ایویں ہی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ’’ٹامی‘‘ نسل کی وفاداری مستقل نہیں ہوتی اور وقت و حالات کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے کیونکہ ان کی ’’ٹریٹ‘‘ محض اقتدار ہوتا ہے چاہے جس کے پاس بھی ہو جبکہ ’’کتا‘‘ نسل مستقل مزاج ہوتی ہے۔اکثر سنا ہے کہ وقت ایک سا نہیں رہتا لیکن ’’ٹامی‘‘ نسل کا وقت ایک جیسا ہی رہتا ہے کیونکہ ان کی منزل اقتدار ہوتا ہے بلا سے حکمران کوئی بھی ہو۔ اس تحریر میں ’’ٹامی‘‘ اور ’’کتے‘‘ کا استعمال بطور استعارہ استعمال کیا جاے گا اور اسے اس کی معنوی حیثیت میں نہ لیا جاے۔ قارئین اور ان کے لیے جن کا لفظ حکم ہوتا ہے میں خودکو ’’کتوں‘‘ کی طرف گنتا ہوں۔ کیونکہ میں ادارہ نئی بات اور اس عمر میں نہ ہی زاہد رفیق صاحب یا خود کو کسی ایسے امتحان میں ڈال سکتا ہوں۔
دیکھا گیا ہے کہ ’’ٹامی‘‘ اور ’’کتوں‘‘ کی اس جنگ میں ٹامی ہمیشہ اقتدار کے ایوانوں میں پائے جاتے ہیں اور کتے محل سے باہر اپنا راگ الاپ رہے ہوتے ہیں۔ اپنے چار دہائیوں پر مشتمل صحافتی کیرئیر میں سیاسی و سماجی محاذ پر اکثر ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جب کتے اور ٹامی کا تقابلی جائزہ لیتے ہوے ایک ہی نوعیت کے سنگین جرائم اگر خود سے سرزد ہوں تو سب اچھا ہے اور اگر دوسرے کریں تو ان کے لیے کم ازکم سزا تختہ دار ہے۔ اور یہ فارمولا ہمارے معاشرے کے ہر شعبے چاہے سیاسی ہو، سماجی ،ہو تعلیمی ہو، کاروباری ہو یا عام زندگی میں ہو بے دردی سے استعمال ہوتا ہے۔ آجکل ہمارے سیاستدان فوج کی محبت میں مرے جا رہے اور ٹارگٹ ہے پی ٹی آئی لیکن اگر متحدہ حکومت کی فوج کے بارے میں موشگافیاں سن لیں تو کانوں کوہاتھ لگانا پڑتا ہے۔ 
تاریخ کی گھڑی کی سوئیاں اگر الٹی گھمائوں تو قیام پاکستان کے بعد سے ہی ’’ٹامی اور کتے‘‘ والے فارمولے پر عمل شروع ہو چکا تھا. قائداعظم رحمتاللہ کی رحلت کے بعد ہی مسلم لیگی کلیموں کی چھینا جھپٹی اور اقتدار کی دوڑ میں ایک دوسرے کو اس طرح چیرنے پھاڑنے لگے کہ الاماں والحفیظ او اس کھیل میں اپنا ہر جرم نیک نیتی اور مخالفین کا ہر جرم ملک دشمنی سے موسوم کیا جانے لگا۔ اسی نفسا نفسی میں لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد مسلم لیگ کی قیادت اور پاکستان کی وزارت عظمیٰ کی جس طرح بندر بانٹ کی جانے لگی اس پر سرحد پار سے آواز آئی کہ میں سال میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنی پاکستان میں وزیراعظم تبدیل ہوتے ہیں۔ اقتدار کی اس چومکھی لڑائی میں بھی اپنا ہر جرم ٹامی اور دوسرے کا کتا ٹھہرا۔ کتے اور ٹامی کی اس لڑائی کے سنہری موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوے ایوب خان نے دھاوا بولا اور ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔ اس وقت کے تمام مفاد پرست ’’ٹامی‘‘ راتوں رات 
اپنا سیاسی قبلہ تبدیل کر کے ایوب خان کی طرف ہو گئے اور ’’کتے‘‘ تو ہوتے ہی کتے ہیں ان کا کیا ذکر کرنا۔ یاد رہے ٹامی نسل کا کام تمام اخلاقیات کو ایک طرف رکھتے ہوے محض اقتدار وقت کے کرداروں کی ہاں میں ہاں ملانا اور انہیں خوش کرنا ہوتا ہے۔ اسی خصلت کے باعث جب وقت آیا تو ٹامی اس ملک کے خالق قائداعظم محمد علی جناح کی بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے پیچھے پڑ گئے اور بھونک بھونک کر آسمان سر پر اٹھا لیا۔ اور ان کے مقابلے میں وقت کے فرعون ایوب خان کی گود میں جا بیٹھے اور چھوٹے سے چھوٹا الزام جو مادر ملت پر لگا غداری کا تھا۔ بلامبالغہ فاطمہ جناح کے حامی ’’کتے‘‘ ٹھہرے۔ وقت گزرتا گیا اور ٹامی طاقتور ہوتے گئے۔ لیکن ہر عروج کو زوال ملتا ہے ایوب خان بھی اس کا شکار ہو گئے اور یحییٰ خان کو اقتدار ملا لیکن وہ سب ٹامی بھی جہیز میں ان کے ساتھ آگئے جو ایوب خان کے پاس تھے۔ اقتدار کی کتاب کا اگلا ورقہ پلٹتا ہے اور ہما ذولفقار علی بھٹو کے سر پر آن بیٹھتا ہے لیکن اس بار ’’ٹامی‘‘ نسل بیروزگار ہو گئی کیونکہ بھٹو اس نسل کے خلاف تھا اور’’کتا‘‘ نسل کی اکثریت اس کے ساتھ ہو گئی۔ لیکن رفتہ رفتہ بھٹو بھی اقتدار کے نشے میں بہکتا گیا اور وہ ٹامی نسل کے قریب ہوتا چلاگیا اور ’’کتوں‘‘ پر اس نے زندگی تنگ کر دی۔ نتیجتاً اس کا انجام بھی اپنے پیش روئوں کی طرح ہوتا چلا گیا اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹرز ضیاالحق نے اسے بھی چلتا کا۔ بھٹو کا خیال تھا کہ اس نے 90 ہزار جنگی قیدی بھارت سے چھڑواے اور سینکڑوں میل زمین بھی پاکستان کو واپس دلوائی اس لیے اس کے خلاف فوجی ایکشن نہیں ہو سکتا۔ لیکن ٹامی النسل کو اس کا ایٹمی پروگرام اور امت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا رکھنا پسند نہ آیا اور وہ بھی فوجی ڈکٹیٹر ضیالحق کے ہاتھوں پھانسی پرجھول گیا۔ حیرت کی بات تھی کہ بھٹو کے ساتھ کے تمام ٹامی ضیاء الحق سے آن ملے۔ وقت گزرتا گیا اور محمد خان جونیجو کا دور آگیا اس نے بھی ’’ٹامی‘‘ کا پٹہ اتارنے کی کوشش کی لیکن ضیاء الحق نے اسے بھی چلتا کیا۔ اور پھر یہ پٹہ نواز شریف نے پہن لیا۔ اسی اثنا ء میں ضیاء الحق اور اس کے ٹامیوں نے بے نظیر کی سیاست کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔
ضیاالحق کی موت کے بعد اقتدار اس کے ایک ٹامی غلام اسحاق خاں کو نوازا گیا۔ غلام اسحاق خان نے ساری توجہ نواز شریف کو اقتدار میں لانے پر رکھی اور سارے ٹامی جو ضیاالحق کے گن گاتے تھے نواز شریف کی جھولی میں ڈال دیے گئے۔ اسی جنگ میں تمام تر ریاستی مخالفت کے باوجود ذولفقار علی بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو میدان میں آئی تو باپ کی وراثت اور اپنی جدوجہد سے ادھورے اقتدار میں آئی لیکن اس وقت کے ٹامی نسل کے غلام اسحاق خان نے اسے بھی چلتا کیا اور اقتدار ایک بار پھر نواز شریف کے حصے میں آیا اور اس نے وقت کی ’’کتا‘‘ نسل کے ساتھ بہت بری کی۔ وقت گزرتا گیا ٹامی اسحاق خان کی نواز شریف سے نہ بن سکی اور اسے بھی چلتا کیا۔ بے نظیر ایک بار پھر عارضی اقتدار میں آئی لیکن اسے اس کے اپنے ٹامی فاروق لغاری نے چلتا کیا پھر نواز شریف کو ایک بار پھر اقتدار ملا لیکن ایک دور ایسا بھی آیا کہ طاقت کے نشے میں اس نے اس وقت کی چیف آف آرمی سٹاف جنرل مشرف کے ساتھ جنگ میں بم کو لات مار دی ملک پر ایک بار پھر ٹامی حاوی ہو گئے۔ مختصراً نواز شریف اور بے نظیر کو بھی جلاوطن ہونا پڑا انہوں نے لندن میں میثاق جمہوریت کے تحت عہد کیا کہ آئندہ اقتدار کی لڑائی میں حدود کراس نہ کریں گے اور ’’ٹامی اور کتے‘‘ کی تفریق کے بغیر حکومت کریں گے۔ لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو اور اقتدار میں آکر وہ پھر سے ایک دوسرے کے ساتھ بر سرکار ہوگئے۔ بعد ازاں جلاوطنی کے بعد بے نظیر اور نواز شریف وقفے سے دوبارہ ملک میں آ گئے۔ انتخابی مہم کے دوران بے نظیر شہید ہو گئیں جس کے بدلے میں ان کی جماعت کو اقتدار ملا۔ اس بار مسٹر ٹین پرسنٹ کے نام سے مشہور ان کے خاوند آصف علی زرداری کرتا دھرتا تھے جنہیں صدر پاکستان بننے کا موقع ملا۔ ایک بار سیاسی محاذ آرائی کا بدترین دور شروع ہوا۔ پیپلز پارٹی نے پانچ سال پورے کیے اور انتخابات کے بعد نواز شریف اقتدار میں آگئے۔ لیکن ہمیشہ کی طرح وقت کے ٹامیوں کی نواز شریف سے نہ بن سکی اور وہ اقتدار سے الگ ہو کر پہلے جیل اور پھر جلاوطن ہوئے۔ کہتے ہیں نا جیسے کو تیسا ملتا ہے شاید مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ عمران خان کی شکل میں ان کا غرور توڑنے کوئی آرہا ہے۔ عمران خان اقتدار میں آگئے ار ان کا ہدف یہی دو جماعتیں تھیں۔ لیکن اقتدار کے سارے رموز واسرار سے آشنا ان دوبڑی اور مولانا فضل الرحمان کی صورت میں ایک موثر مذہبی جماعت کے ٹرائیکا کو توڑنا شاید عمران خان اکیلے کے بس میں نہ تھا۔ نتیجتاًوقت کے ٹامیوں سے مل کر عمران خان کے کچھ ممبران توڑ کر اور کچھ خرید کر عمران حکومت کے خلاف عدم اعتماد پاس کروا کر اسے چلتا کیا۔ وفاق کی حکومت تو پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کے ہاتھ آگئی لیکن پنجاب ان کے ہاتھ سے نکل کر عمران خان کی گود میں جا گرا۔ جس سے طاقت کا توازن بگڑ گیا اور عملا شہباز شریف حکومت اسلام آباد تک محودد ہو کر رہ گئی۔ اب یہ پھر ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہیں اور فارمولا وہی ہے ’’تیرا کتا کتا میرا کتا ٹامی‘‘ جب تک وہ اس گردان سے باہر نہ آئیں گے ملک کا کچھ بنے گا نہ ان کا البتہ بھگتنا ہمیشہ کی طرح عوام کو پڑے گا اور اس سب کے ذمہ دار نواز شریف، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمان اور عمران خان ہوں گے۔ اب بھی وقت ہے سنبھل جائیں اور مل کر قوم کو اس بھنور سے نکالنے کے لیے یکجا ہو جائیں ورنہ ’’تمہاری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں‘‘۔
کالم کے بارے میں اپنی رائے اس وٹس ایپ 03004741474 پر بھیجیں۔

مصنف کے بارے میں