لتا چلی گئی، لتا زندہ رہے گی !!

Dr Lubna Zaheer, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

برصغیر کی عظیم مغنیہ لتا منگیشکر بھی رخصت ہو گئیں۔ یہ ایک فرد کی نہیں ، فن موسیقی کے ایک عہد کی رخصتی ہے۔لتا نے نصف دہائی سے زائد عر صہ اپنی آواز کا جادو جگایا۔ کم و بیش ساٹھ ہزار گیت گائے۔نا صرف  اردو/ہندی میں، بلکہ میراٹھی، بنگالی، گجراتی اور دیگر زبانوں میں بھی۔ کہا جاتا ہے کہ فن اور فنکار کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ لتا کا فن موسیقی بھی بھارت کی سرحدسے نکل کر کئی ملکوں تک پھیلا ہوا تھا۔ کئی خطوں میں لتا کی آواز کے مداح موجود ہیں۔ بھارت کی میوزک انڈسٹری میں کئی بڑے گلوکار موجود ہیں۔ لیکن لتا کو منفرد مقام حاصل تھا۔لتا منگیشکر کو بھارت کے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ بھارت رتنا ایوارڈ،سمیت کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ لیکن ان کا سب سے بڑا ایوارڈ عوامی پسندیدگی اور پذیرائی تھا۔ ان کی آواز بڑے بڑوں کے دل پگھلاتی رہی۔ سنتے ہیں کہ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نہایت مضبوط اعصاب کے مالک تھے۔ کسی کے سامنے آنسو بہانا انہیں سخت نا پسند تھا۔ 1962 میں بھارت کی چین کے ساتھ جنگ جاری تھی۔اس دوران لتا منگیشکر نے ایک ترانہ " اے میرے وطن کے لوگ" ریکارڈ کروایا۔ اس ترانے کو سن کر وزیر اعظم جواہر لعل نہرو اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور سب کے سامنے رو پڑے۔ پھر لتا کو بلا کر گلے لگایا اور خراج تحسین پیش کیا۔ 
 پاکستان میں بھی لتا منگیشکر کو خاص مقام حاصل تھا۔ ہر عمر اور طبقے کے افراد لتا منگیشکر کی آواز کے شیدائی تھے۔ لاکھوںنہیں، کروڑوں پاکستانی اپنی جوانی سے بڑھاپے تک لتا منگیشکر کے گانے سنتے رہے۔لتا منگیشکر نے ہزاروں بھارتی فلموں کے لئے گانے گائے۔یہ گیت بیسیوں فلمی اداکاراوں پر فلمائے گئے۔ مدھو بالا اور مینا کماری کا زمانہ ہو، مادھوری اور کاجل کا، یا اس کے بعد کا فلمی عہد، لتا کی گائیکی کا انداز ایسا تھا کہ ہر ایک اداکارہ 
پر ان کی آواز جچتی تھی۔ ان کے ہزاروں گیت لوگوں کے دلوں پر نقش ہیں۔ امید کی جا سکتی ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت، آنے والی کئی نسلوں اور کئی زمانوں تک لتا کی آواز گونجتی رہے گی۔ 
لتا منگیشکر کے کروڑوں مداح اور پرستار سہی، لیکن لتا منگیشکر بننا ہرگز آسان نہ تھا۔ لتا نے ایک انتہائی کٹھن زندگی بسر کی۔ اتنی مشکل زندگی ، جس کا ذکر کرنے سے بھی وہ گریزاں رہا کرتیں۔ ایک انٹرویو میں ان سے پوچھا گیا کہ اگر انہیں اگلا جنم ملے تو وہ کیا بننا پسند کریں گی؟ لتا نے جواب دیا کہ وہ کچھ بھی بن جائیں گی ، مگر لتا منگیشکر ہرگز نہیں بننا چاہیں گی۔ 
 اوائل عمری میں لتا کو انڈسٹری میں قدم جمانے کے لئے سخت محنت اور کاوش کرنا پڑی۔ آغاز میں انہوں نے فلموں میں معمولی کردار بھی ادا کئے۔ وہ خود بتاتی ہیں کہ برسوں کی خواری کے بعد، جب پہلی مرتبہ انہوں نے پلے بیک گانا ریکارڈ کروایا تو دل میں دعا کی کہ اب زندگی بھر انہیں فلمی اداکاری کی طرف واپس نہ لوٹنا پڑ۔ے۔ میک اپ کرنے اور تیز روشنیوں میں رہنا انہیں ناپسند تھا۔ ڈائیلاگ بولنے کے لئے ڈائریکٹر کی ہدایات (اور ڈانٹ ڈپٹ) سننے سے بھی وہ بے آرامی محسوس کیا کرتیں۔ کہتی ہیں کہ خدا نے میری دعا سن لی اور پھر میںاداکاری کے بجائے گلو کاری کرنے لگی۔ 
 ابتدائی جدوجہد کے زمانے کا ایک اور واقعہ لتا منگیشکر مختلف انٹرویوز کے دوران سنایا کرتیں۔ لتا بھارتی فلم انڈسٹری میں قدم جمانے کے لئے کوشاں تھیںجب موسیقار انل بشواس نے اداکار دلیپ کمار سے لتا منگیشکر کا تعارف کروایا۔ اس زمانے میں دلیپ کمار زیادہ مشہور نہیں ہوئے تھے۔ انل بشواس نے دلیپ کمار سے کہا کہ یہ مراٹھی لڑکی ہے اور بہت اچھا گاتی ہے۔جواب میں دلیپ کمار کہنے لگے کہ " ان (مراٹھی) لوگوں کا اردو تلفظ بہت خراب ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ان کے لہجے سے دال بھات کی بو آتی ہے" ۔(باقی صفحہ 3بقیہ نمبر1)
 دلیپ کمار کی یہ بات لتا کے دل میں پیوست ہو گئی۔ اس دن کے بعد لتا منگیشکر نے اردو تلفظ اور لب و لہجہ کی درستگی کیلئے باقاعدہ ایک استاد کی شاگردی اختیار کی ۔ کئی برس کی پتہ ماری اور ریاضت سے اپنے اردو تلفظ کو بے عیب بنا ڈالا۔ 
لتا منگیشکر ساری عمر موسیقار غلام حیدر کو اپنا استاد اور محسن کہتی رہیں۔ 1947 میں غلام حیدر نے ایک فلم " شہید" کے لئے ان کا آڈیشن لیا اور انہیں بطور گلوکارہ منتخب کر لیا۔ تاہم فلمستان سٹوڈیو کے مالک اور معروف پروڈیوسر شیشدھر مکھرجی نے جب لتا کو فلم کے گانے کی ریہرسل کرتے سنا تو انہیں لتا کی آواز پسند نہیں آئی۔ مکھرجی نے یہ کہہ کر لتا منگیشکر کو بطور گلوکارہ مسترد کر دیا کہ " اس لڑکی کی آواز بہت باریک اور چبھتی ہوئی ہے" ۔ موسیقار غلام حیدر نے پروڈیوسر کے رویے کے خلاف سٹوڈیو سے احتجاجا استعفٰی دیااور لتا کو لے کر دوسرے اسٹوڈیو چل پڑے۔ جاتے جاتے شیشدھر مکھر جی کو پیغام دیا کہ ایک وقت آئے گا جب بڑے بڑے پروڈیوسر، لتا کے دروازے کے باہر قطار باندھے کھڑے ہونگے۔ لتا کی جہد مسلسل اور ماسٹر غلام حیدر کی تربیت سے واقعتا وہ وقت آیاجب شیشدھر مکھر جی سمیت بڑے بڑے پروڈیوسر لتا کے گھر پر حاضری دیا کرتے تھے۔ 
بہت سے فلمساز لتا منگیشکر کی زندگی پر فلم بنانا چاہتے تھے۔  نامور فلمسازوں نے ان سے رابطے کئے۔ بھاری بھرکم رقوم کی آفرز کیں۔ لیکن لتا نے ہامی نہ بھری۔ وہ اپنی نجی زندگی کے بارے میں بات کرنے سے گریزاں رہا کرتیں۔
لتا منگیشکر کے استاد اور محسن ،موسیقار غلام حیدر کا تعلق لاہور سے تھا۔ اس نسبت سے لتا کو پاکستان سے نہایت انسیت تھی۔ میڈم نور جہاں اور عابدہ پروین کا بھی لتا منگیشکر بہت احترام کرتی تھیں۔ میڈم نور جہاں سے انہیں اسقدر محبت تھی کہ ایک مرتبہ پاک بھارت بارڈر پر آکر میڈم نور جہاں سے ملیں۔ انہیں گلے لگایا۔ ان سے باتیں کیں اور رخصت ہو گئیں۔ مہدی حسن کے بارے میں لتا منگیشکر نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ مہدی حسن کے گلے میں بھگوان بولتا ہے۔ ان کی گائی غزلیں سن کر وہ سوتی اور جاگتی ہیں۔ لتا منگیشکر پاکستان کا دورہ کرنے کی آرزو مند تھیں۔ اپنے کئی انٹرویوز میں اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ وہ پاکستان کی طرف سے دعوت کی منتظر ہیں۔ سنتے ہیں کہ ضیا الحق کے زمانے میں لتا منگیشکر کیلئے ایک پروگرام طے بھی ہوا۔سب انتظامات مکمل تھے، مگر حکومت کی ہدایت پر اسے کینسل کرنا پڑا۔ نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمیٰ کے ادوار میں بھی اعلانات ہوئے۔ لیکن غالبا پاک بھارت تعلقات اور خارجہ پالیسی آڑے آگئی۔ لہذا لتا منگیشکر کی پاکستان آنے کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔
بھارت میں لتا منگیشکر کو سرکاری اعزاز کیساتھ رخصت کیا گیا۔ سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں رہا۔ ان کی ارتھی فوجی ٹرک میں لائی گئی۔ توپ سے سلامی دی گئی ۔لتا کی نعش قومی پرچم میں لپٹی ہوئی تھی۔ لتا کے آخری دیدار کیلئے فلم انڈسٹری اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات شیوا جی پارک میں امڈ پڑیں۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی خاص طور پر ممبئی پہنچے اور آخری رسومات میں شرکت کی۔ مودی کو لتا کی نعش کے سامنے نہایت ادب سے، دونوں ہاتھ جوڑ کر، جھک کر خراج تحسین پیش کرنے کے مناظر سوشل میڈیا پر زیر گردش رہے۔ ان مناظر کو دیکھ کر خیال آتا رہا کہ کس طرح ایک گلوکارہ کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے اعلیٰ شخصیات موجود ہیں۔ زندہ قومیں اپنے ہیروز کو اسی طرح رخصت کرتی ہیں۔ پھر میری نگاہ میں پاکستا ن کو ایٹمی قوت بنانے والے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدلقدیر خان کی نماز جنازہ کے مناظر گھوم گئے۔اسلام آباد کی فیصل مسجد میں ڈاکٹر قدیر کی نماز جنازہ ادا ہوئی تھی۔ ایوان صد ر اور ایوان وزیر اعظم ، فیصل مسجد سے چند منٹ کے فاصلے پر موجود ہیں۔ مگر صدر پاکستان اور وزیر اعظم پاکستان، ڈاکٹر قدیر خان کو آخری وقت پر رخصت کرنے کے لئے تشریف نہ لا سکے۔

مصنف کے بارے میں