سرخیاں ان کی۔۔۔؟

سرخیاں ان کی۔۔۔؟

معزز قارئین، یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ ہماری زمین کی طرح دیگر سیارے سورج کے گرد اپنے اپنے انداز میں گردش کر رہے ہیں اور جس طرح ”پلوٹو“ ان سب سیاروں میں چھوٹا بلکہ زمین کے چاند جتنا ہے۔ شاید اسی سبب ماہرین فلکیات اسے نظام شمسی کا حصہ ہی نہیں مانتے۔ لیکن کوئی مانے نہ مانے ”پلوٹو“ کی اپنی ہی اہمیت ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال ہمارے نظام سیاست کی ہے۔ اقتدار کی ہوس میں سیاسی جماعتوں کے کئی چاند ستارے مارے مارے جھوم اور کرسی کے گرد گھوم رہے ہیں۔ بس نہیں چلتا کہ جس طرح ماہرین فلکیات نے طاقتور ٹیلی سکوپ کی مدد سے چھوٹو سے ”پلوٹو“ کا ایک آخرکار چاند دریافت کر لیا ہے۔ ہمارے معصوم سیاستدان بھی کوئی ایسی یادداشت لڑائیں کہ کسی نہ کسی دریافت سے ”قبول“ کر لئے جائیں۔ اور چھوٹی سی سیاسی جماعت ق لیگ کو گھر بھجوا دیں۔ مگر جس طرح بڑے بڑے سیاروں میں ”پلوٹو“ کی اہمیت ہے۔ ایسے ہی ق لیگ کی بھی اپنی ہی حقیقت ہے۔ جس کے نئے نئے کردار آئندہ دیکھنے کو ملیں گے۔۔۔؟ جو کڑوے بھی ہوں گے اور لذیز ترین اوربھی ویسے بھی جناب پرویز الٰہی گھاٹے کا سودانہیں کریں گے۔
زرمبادلہ کے ذخائر کم ترین سطح پر آ گئے۔؟
درحقیقت، پاکستان کے لئے لاکھوں مسلمانوں کا مطالبہ یعنی اس مطالبے کا مطلب حقیقی آزادی اور حقیقی ذاتی حکومت تھی مگر افسوس صد افسوس کہ ہم نے اپنی پہلی ذمہ داری پہلے دن سے 
ہی یعنی سب سے پہلے اپنی آزادی کا تحفظ ہی نہیں کیا بلکہ اپنی آزادی کو صرف غیر ملکی تسلط سے آزادی سمجھ لیا جو نہایت دقیانوسی ہے۔ کاش ہم اپنے عوام پے اقتدار کے بجائے عوام کے وقار کی خاطر کام کرتے اور اپنے اس عمل کو دنیا کو دکھاتے اور عوامی معاملات کو حل کرنے میں دل و جان سے محنت کرتے تو ہمیں یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتے۔ مگر میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ اگر ہم آج سے ایک ہو جائیں ایک قوم بن جائیں ایسی قوم جس میں ہر کوئی اپنے آپ کو دیکھنے لگے تو ہم نہ صرف دیوالیہ ہونے سے بچ سکتے ہیں بلکہ تعمیر و ترقی اور خوشحالی کی راہ پے بھی گامزن ہو سکتے ہیں۔ ورنہ کسی معزز شاعر نے کہا تھا۔ 
پھول سے مشابہت زندگی کی خوب ہے
کھلنے اور بکھرنے میں دیر کتنی لگتی ہے
رک تو جائے گا کبھی آنسوؤں کا ریلہ بھی
وقت کے بدلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
تم اگر جو دیکھو، تو میں بھی مسکرا دوں گا 
برف کے پگھلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
IMF شرائط مشکلات بڑھیں گی۔ رانا ثناء اللہ 
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی کے مصداق حضور والا، یہ مشکلات صرف عوام کے لئے کیوں ہیں تا کہ وہ غریب سے غریب تر ہو جائیں جبکہ امیر یعنی حکمران امیر تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ادھر توجہ کی ضرورت ہے۔ کچھ عوام کی حالت پے بھی رحم فرمائیں اور جو بھی ہو تم پر معترض اس کو بھی جواب دو آپ بہت شریف ہیں آپ نے کیا نہیں کیا۔ جبکہ ن لیگ کو چوکنا رہنا ہو گا۔ بار بار کہہ رہا ہوں بلکہ دھرا رہا ہوں؟
نئے سیاسی گروپ ……؟
نہ جانے مجھے کیوں لگتا ہے کہ ہمارے سیاستدان دنیا کے عظیم سیاستدان اور سیانے ترین سیاستدان ہیں۔ صرف فرق یہ ہے کہ ان کی سیاست کمپرومائزڈ ہے۔ اگر یہ مقبولیت کے بجائے قبولیت کی طرف کم دھیان دیں۔ تو یہ چین اور امریکہ سے بھی آگے نکل سکتے ہیں۔ لیکن فی الحال یہ بنگلہ دیش، مالدیپ، ویت نام، سری لنکا بلکہ افغانستان سے بھی پیچھے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ سیاست کو مادیت سمجھتے ہیں۔ جبکہ نظریہ اور آزادی غیر مادی چیزوں کے نام ہیں۔ شاید اسی لئے نہ نظریہ نہ آزادی زمین میں اگتے ہیں۔ نہ کسی کے خزانوں میں ملتے ہیں بلکہ یہ تو روح اور دماغوں میں پرورش پا کر پروان چڑھتے ہیں۔ لہٰذا کاش ہمارے معزز سیاستدان توبۃ النصوح کو اہمیت دیں۔ اسی لئے کہتا ہوں اور دھمکیاں بھی سنتا ہوں کہ ہماری سیاست کی پہلی ذمہ داری اپنی حقیقی آزادی کی دائمی نگہداشت ہے۔ سیاستدانوں یہ حقیقت سمجھ جاؤ تم ہی اس ملک کے حقیقی وارث ہو۔ تقسیم ہونا اور گروپ بندیاں ترک کردو اپنی وراثت کو پہچان لو۔ لیکن تم نہیں سمجھو گے لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ اب سیاسی پرندے ایک دوسرے کے کھیتوں میں دانہ دنکا چگتے دکھائی دیں گے۔ میرے من پسند شاعر نے کہا تھا
جن پر ہوتا ہے بہت دل کو بھروسہ تابش
وقت پڑنے پر وہی لوگ دغا دیتے ہیں 
اس لئے اب دماغوں کا نہیں دغوں کا موسم ہے؟