’’پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘‘

’’پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘‘

عمران خان کو وزیر اعظم بنے تقریباً تین ماہ ہو چکے تھے۔ ایک بہت بڑے سکالر سے ملنے ان کے گھر گئے۔ ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے سلام دعا کے بعد بغیر کسی تمہید کے کہنے لگے ’’اس ملک کو چلنے نہیں دیا جائے گا‘‘۔ جس شخصیت کا ذکر کر رہا ہوں وہ کسی طرح کی سیاسی وابستگی نہیں رکھتی۔ اپنی رائے دینے کے بعد انہوں نے مختصر سے وقت میں دلائل کا ڈھیر لگا دیا۔ اب ایک دوسرا واقعہ ابھی چند روز پہلے ہی ایک اہم سیاسی شخصیت کے غیر سیاسی قریبی عزیز کسی کام سے سلسلے  میں مجھے ملنے آئے۔ ان کے قریبی رشتہ دار ایک ایسی دینی جماعت کے اہم ترین رہنما ہیں جو بیک وقت پی ٹی آئی، پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کو ایک جیسی ’’برائیاں‘‘ قرار دیتے ہیں۔ بہر حال میرے پاس آنے والے ملاقاتی نے اپنا مقصد بیان کرنے کے بعد سیاسی گفتگو شروع کر دی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کا انداز، الفاظ اور خیالات بالکل مرحومہ عاصمہ جہانگیر جیسے تھے۔ پاکستان میں پی ٹی آئی کی حکومت آنے کے بعد جہاں پورا ملک گرداب میں گھر گیا ہے وہیں یہ اساسی تبدیلی بھی آئی ہے کہ سیاسی شعور کا اس قدر غیر معمولی پھیلاؤ پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ کیا اس کے نتیجے میں کوئی بنیادی تبدیلی رونما ہونے والی ہے ؟ شاید نہیں کیونکہ ثابت ہو چکا کہ ہمارے پاس ایسی سیاسی قیادت ہی موجود نہیں جو چیلنجوں کو مواقع میں تبدیل کرنے کے لیے میدان عمل میں نکل آئے۔ یقیناً ایسی صلاحیت رکھنے والی شخصیات موجود ہیں۔ لیکن لگتا یہی ہے انہوں نے طے کر لیا کہ اسی ماحول کے اندر رہتے ہوئے جب انہیں آسانی سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا تب ہی حرکت میں آئیں گے۔ ان دنوں جو حالات پیدا ہو چکے ہیں شاید اسی کے ممکنہ انجام کو بھانپ کر ہماری سیاسی قیادت ایک بار پھر سے سرگرم ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ فرض کریں تازہ عوامل کے نتیجے میں موجودہ حکومت چلی بھی جائے تو کیا نئے آنے والے مسائل و مشکلات پر قابو پالیں گے ۔ کیا اقتدار کے ڈھانچے پر ایسا کوئی فرق پڑے گا کہ جس سے پارلیمنٹ بالادست ہوجائے اورفیصلے کرنے کا اختیار عوام کے حقیقی نمائندوں کے پاس آ جائے ۔اس امر کی کیا ضمانت ہے اگلے عام انتخابات حقیقی معنوں میں شفاف ہوں گے۔ پری پول دھاندلی ہوگی نہ ووٹنگ والی رات کوئی خفیہ ہاتھ کام دکھائے گا اور نہ ہی انتخابی نتائج مکمل ہونے کے بعد لوٹے ادھر سے ادھر گھسیٹے جائیں گے ۔ بظاہر ابھی عام انتخابات فوری طور ہونے کی کوئی اطلاع ہی نہیں مگر ہمارے ‘‘ حقیقی الیکشن کمیشن ‘‘ نے تحریک لبیک کو مرکزی دھارے کی سیاسی جماعت قرار دیتے ہوئے تیسری پوزیشن سے بھی نواز دیا ہے ۔ اسی ماحول میں یہ خبر بھی سامنے آگئی کہ سکیورٹی فورسز اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان سیز فائر ہوگیا ۔ اسی ماحول میں پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اجلاس بلا کر بریفنگ دی گئی ۔ پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی تمام جماعتوں کے نمائندوں نے اس ان کیمرہ بریفنگ میں شرکت کی ۔ عسکری حکام سے ان کا موقف سنا اور سوال جواب بھی ہوئے ۔ وزیر اعظم عمران خان حسب روایت اس نشست سے دور رہے ۔ اپنی کھری گفتگو  کے لئے مشہور جے یو آئی ف کے مولانا عبد الغفور حیدری نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو مخاطب کر کے کہا ’’آپ جب بھی بیرون ملک جاتے ہیں اپنے دوست عمران خان کو ساتھ لے کر جاتے ہیں ، اچھا ہوتا انہیں یہاں بھی ساتھ لے آتے ۔ آرمی چیف نے برجستہ جواب دیا عمران خان میرے دوست نہیں باس ہیں۔ اس مکالمے سے محفل میں قہقہے بکھرے اور ساتھ ہی یہ بھی ہوا کہ پیغامات کا تبادلہ ہوگیا ۔ اس سیشن میں موجود منتخب نمائندوں کی اکثریت نے جہاں ایک طرف ٹی ایل پی سے طے پانے والے معاہدے کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا وہیں ٹی ٹی پی سے صلح پر اعتراضات کردئیے ۔ 
عسکری قیادت کا مگر یہی موقف رہا کہ آخر کب تک لڑیں گے۔ معاملات بالآخر مذاکرات کی میز پر ہی حل کرنا ہونگے ۔ ویسے پاکستان کے عوام تو آج تک یہ ہی نہیں سمجھ پائے کہ جو معاملات اپنے مرضی سے باہر ہی باہر طے کرنا ہوتے ہیں ان کے لیے ایسے اجلاس بلانے کا تردد ہی کیوں کیا جاتا ہے ۔ بھارت سے سیز فائر ہو ، ٹی ایل پی سے معاہدہ یا پھر ٹی ٹی پی سے مذاکرات سب کچھ مکمل ہوجانے کے بعد منتخب نمائندوں کو طلب کیا جاتا ہے ۔حالیہ اجلاس اپنی نوعیت کی غالباً تیسری بڑی بیٹھک ہے کہ جس میں وزیر اعظم عمران خان نے شرکت نہیں کی ۔اپوزیشن جماعتوں سے اس پر اعتراض تو کیا مگر اجلاس طلب کرنے والوں کی طرح ان کو بھی علم تھا کہ وزیر اعظم کی عدم شرکت سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ بہر حال نتیجہ یہی نکلا کہ اہم ترین مشاورتی عمل میں وزیر اعظم کا عہدہ غیر متعلقہ ہوکر رہ گیا ۔ اس بریفنگ میں ایک واضح فرق نوٹ کیا گیا اپوزیشن کے نمائندوں کی باڈی لینگوئج ان کے برجوش اور پر اعتماد ہونے کا پتہ دے رہی تھی ۔دوسری جانب وزرا اور حکومتی ارکان ماضی کے چونچلوں کے برعکس مرجھائے ہوئے تھے۔ حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی نے گلہ کیا کہ ایک طرف تو کالعدم تنظیموں سے پابندیاں ہٹائی جارہی ہیں اور دوسری جانب حکومت میں ہوتے ہوئے بھی ہمارے دفاتر بند پڑے ہیں ۔ اسی اجلاس میں عسکری قیادت نے ملک کی معاشی صورتحال کو تشویشناک قرار دے دیا ۔ یہ واضح اشارہ ہے کہ اب ایک پیج کا پہلے کی طرح ہر معاملے ایک ساتھ چلنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ۔امریکا کے ساتھ تعلقات  بہتر سے بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ۔ اسی دوران اسی مصدقہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن سے رابطے کیے جارہے ہیں ۔ یہ اب کوئی راز نہیں کہ پیپلز پارٹی پہلے ہی سے رابطے میں ہے۔ جے یو آئی ف تو علانیہ طور پر کسی بھی طرح کی ان ہاؤس تبدیلی کے حق میں نہیں اور حکومت کو ختم کرکے نئے عام انتخابات کرانے کے  مطالبے  پر قائم ہے ، مسلم لیگ ن بشمول مصالحتی گروپ بھی ایسے کسی اقدام کا ہرگز حصہ نہیں بننا چاہتا جس سے عمران خان کو عدم مقبولیت کی موجودہ سطح پر بھی سیاسی شہید بننے کا موقع ملے۔ شہباز شریف اس حوالے سے آج بھی بہت تلخ ہیں کہ جھوٹ ، گالم گلوچ ، سیاسی انتقام کی بنیاد پر ایک مصنوعی نظام کھڑا کرکے نہ صرف ملک اور عوام کو نقصان پہنچایا گیا بلکہ معاشرے میں عدم برداشت کو خوفناک حد تک ہوا دی گئی۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت کو گھر بھیجنا مسئلہ نہیں ، اصل چیلنج ’’تبدیلی کے تجربے ‘‘ کے دوران ہونے والے نقصانات کا ازالہ کرنا ہے۔ تجزیہ کاروں کی اکثریت کا کہنا  ہے کہ حالات کا دھارا اس نہج پر آچکا ہے ممکنہ نتائج کا انحصار کسی کے چاہنے یا نہ چاہنے پر نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان کی کارکردگی سے بھی کہیں زیادہ اعتراض ان کی پیری مریدی پر ہے جو اب باقاعدہ سر درد بن گئی ہے ۔ ضعیف الاعتقادی سے حکومتی معاملات میں دخل اندازی اب بہت مہنگی پڑنے لگی ہے۔ عمران ویسے تو شروع ہی سے نام نہاد روحانیت کے قائل رہے مگر عائشہ گلا لئی کے معاملے نے ان کو مکمل طور ‘‘ درویش ‘‘ بنا دیا ۔ کہا جاتا ہے تحریک انصاف کی خاتون رکن اسمبلی نے موبائل پر ملنے نازیبا پیغامات کا معاملہ اٹھایا تو عمران خان اپنا سیاسی مستقبل دائو پر لگتا دیکھ کر مکمل طور پر ڈھ گئے  تھے- اس وقت انہیں روحانی مشورہ دیا گیا کہ پاکپتن چلے جائیں تو بلا ٹل جائے گی ۔ واقعی ایسا ہوا مگر اس میں کسی پیر خانے کی کوئی کرامت نہیں تھی ۔ کپتان کے اصل سرپرستوں نے وہ کام دکھایا کہ اس الٹا عائشہ گلالئی کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ حقیقت تو یہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی طرح عمران خان بھی حقیقی فیصلہ سازوں کے لیے کوئی  رکاوٹ کھڑی کرنے پر یقین نہیں رکھتے  سعودی عرب سے امداد اور سفارتکاری کے حوالے سے لیفٹیننٹ جنرل( ر) بلال اکبر ناکام ثابت ہوئے تو ان کی جگہ کیرئیر ڈپلومیٹ لگانے کا فیصلہ بھی وہیں سے کیا گیا جہاں سے انہیں بھجوانے کا آرڈر جاری کیا گیا تھا۔ تیزی سے بدلتی ہوئی علاقائی صورتحال کے تناظر میں آزاد کشمیر کے سابق صدر سردار مسعود کو امریکا میں سفیر بھی ’’ادارہ ہذا ‘‘ نے ہی بنایا ہے ۔ پی ٹی آئی حکومت کو منگل کے روز قومی اسمبلی میں دو بلوں کے معاملے پر شکست کی جو ہزیمت اٹھانا پڑی وہ ناگزیر تھی ۔ کیونکہ گرائونڈ اب پہلے کی طرح ہموار نہیں ۔ ایک پیج کے زعم میں ہر معاملے پر مکمل طور ڈھٹائی کا مظاہرہ کرنے والی حکومت نے اس وقت ہاتھ پاؤں ہی چھوڑ دئیے جب وزیر اعظم کے ظہر انے میں اگلا الیکشن چرانے کی قانونی منصوبہ بندی پر اتحادی جماعتوں نے ہاتھ کھڑے کرکے ساتھ دینے سے انکار کردیا ۔ چنانچہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہی ملتوی کرنا پڑ گیا ۔ اب تو ایم کیو ایم نے حکومت سے علیحدگی کی دھمکی دے دی ہے۔ اپوزیشن پر ہاتھ نرم رکھنا اسٹیبلشمنٹ کی مجبوری بن چکی ہے۔ عمران خان کے لیے ایک پیغام واضح کہ اگر ان کے مستقبل کا تمام تر دارمدار ان کے اپنے روئیے پر ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی طرح ‘‘ زائچے ‘‘ کی کوئی ایک آدھ مزید واردات کسی بھی وقت بڑی افتاد کا سبب بن سکتی ہے ۔ اب ٹائم فریم بھی نہیں دیا جاسکتا کیونکہ فیصلہ ساز اداروں کے اندر بھی بے چینی ہے ۔کسی بھی وقت کچھ ہوسکتا ہے۔عام لوگ کیا سوچ رہے ہیں اس کا اندازہ بدھ کو وزیر اعظم کی سانحہ اے پی ایس کیس میں سپریم کورٹ میں پیشی سے لگا یا جاسکتا ہے۔ حکومت نے پورا زور لگا کر اسے اپنے حق میں میگا ایونٹ بنانے کی کوشش کی مگر عوامی اور سیاسی ردعمل نے سارا معاملہ ہی مشکوک بنا دیا۔ وزیراعظم عمران خان کے اپنے سرپرستوں کی جانب سے یہی کہا جا رہا ہے کہ ہماری بھی کچھ حدود ہیں اس لیے آگے کے لیے یہی سمجھا جائے  ’’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ ‘‘۔