'پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی منظوری سے نواز شریف کا سیاسی مستقبل مخدوش'

'پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی منظوری سے نواز شریف کا سیاسی مستقبل مخدوش'
سورس: File

اسلام آباد: ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ فیصلے نے مسلم لیگ ن کے قائد   نوازشریف کا سیاسی مستقبل مخدوش کردیا ہے، نواز شریف کو نظر ثانی اپیل کا حق نہیں ملے گا۔ 

ماہرین کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے سے پارلیمانی بالا دستی اور عدلیہ کی آزادی کا تصور پوری طرح اجاگر ہو گیا،  سپریم کورٹ کے فیصلے سے عدلیہ میں مثبت تبدیلیوں کا آغاز ہو گیا اور فرد واحد کے فیصلوں کی بجائے اجتماعی دانش کے اصول کو اپنایا جائے گا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کوٹ پریکٹس اینڈ پرسیجر ایکٹ کی منظوری  پاکستان کی عدالتی تاریخ کا اہم فیصلہ ہے جس میں 15 ججز نے تفصیلی سماعت کے بعد فیصلہ دیا، اس فیصلے کے تحت سوموٹو کیسز کے فیصلوں پر نظر ثانی اپیل کا حق ماضی کے فیصلوں پر نہیں ہو گا بلکہ مستقبل میں نظر ثانی اپیل کا حق دیا جائے گا۔

سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا تھا کہ عدالت نے پارلیمان کا تحفہ قبول کر لیااور اس کے مثبت اثرات نظر آئیں گے جبکہ دیگروکلا کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے اپیل کےلیے قانون نافذ العمل ہونے سے پہلے کی تاریخوں سے فیصلے پر عملدرآمد روک کر نوازشریف کا سیاسی مستقبل مخدوش کردیا ہے۔

 سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ بڑا فیصلہ 8 اور 7 کی نسبت سے آیا ہے جس میں ماضی سے روبہ عمل ہونے کی شق مسترد کر دی گئی ہے ۔وکیل عبد المعز جعفری کا بھی خیال ہے کہ ماضی سے روبہ عمل ہونے کے معاملےنے نوازشریف کا مستقبل پیچیدہ کردیا ہے اوراس سے پتہ چلے گا کہ وہ آئندہ انتخابات میں کس طرح سے سامنے آئیں گے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ الیکشن ایکٹ کی ترمیم بھی سپریم کورٹ کی شق باسٹھ ون ایف کی تشریح کی خلاف ورزی ہے۔ اس معاملے میں فیصلے میں گہری خامیاں ہیں اور اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے لیکن جب تک اس پر نظرثانی نہیں ہوجاتی اس وقت تک الیکشن ایکٹ کی ترامیم واضح طور پر غیر قانونی ہیں اور نوازشریف کی جانب سے انتخاب لڑنے کو چیلنج کرنے والی کوئی بھی درخواست کے جیتنے کا امکان کم ہے۔

سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ باسل نبی ملک نے ماضی کے فیصلوں پر اپیل کی شق کے خاتمے کے حوالے سے کہا کہ یہ فیصلہ نوازشریف کے فعال سیاست میں حصہ لینے کے امکانات میں سے ایک کو روکتا ہوا نظر  آ رہا ہے۔

ہائیکورٹ کے وکیل اور  لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز  کے سابق فیکلٹی ممبرعبداللہ نیازی نے کہا کہ عدالت نے ماضی سے نافذ العمل اپیل کے معاملے کو درست کردیا ہے۔  ان کا کہنا تھا کہ اپیل کی اجازت دینے کےلیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے چانچہ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ سپریم کورٹ ماضی سے روبہ عمل ہونے کے حوالے سے شق کے حوالے سے فیصلے کی توجیہہ کیسے کرتی ہے۔

بیرسٹر ردا حسین کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ عدالتی اسپیس کے اندر مزید پارلیمنانی مداخلت کا راستہ ہموار کر رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے سپریم کورٹ پارلیمنٹ کا ذیلی ادارہ بن گیا ہو۔  

 واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں فل کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستیں مسترد کرتے ہوئے ایکٹ کو برقرار رکھنے کا فیصلہ سنا یا ہے۔ سپریم کورٹ نے پارلیمان کے حق قانون سازی کو تسلیم کرتے ہوئے اس حقیقت کو آشکار کر دیا کہ پارلیمان کو سپریم کور ٹ سے متعلق قانون سازی کا اختیار حاصل ہے اور اس سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوئی ۔

مصنف کے بارے میں