مصنوعی ذہانت انسانی بقا کے لیے تباہ کن

مصنوعی ذہانت انسانی بقا کے لیے تباہ کن
سورس: File

کیمبرج: مائیکروسافٹ، گوگل ایگزیکٹوز، سائنسدانوں اور ٹیک انڈسٹری کے رہنماؤں نے مصنوعی ذہانت سے بنی نوع انسان کو لاحق خطرات کے بارے میں وارننگ جاری کر دی۔ مصنوعی ذہانت سے انسانی بقا، وبائی امراض اور جوہری جنگ جیسے سماجی سطح کے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں جنہیں کم کرنا عالمی ترجیح ہونی چاہیے۔

کیمبرج یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈیوڈ کروگر کا کہنا ہے آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے کئی طرح کے خطرات ہو سکتے ہیں لیکن سب سے زیادہ تباہ کن خطرہ یہ ہے کہ مصنوعی جنرل انٹیلی جنس کی ترقی جو انسانی ذہانت کو پیچھے چھوڑتی ہے انسانیت کی بقا کے لیے طویل مدتی خدشات جنم دیتی ہے۔ اے آئی انسانیت کے لیے غیر ارادی طور پر تباہ کن نتائج کا باعث ہو سکتی ہے کیونکہ جدید ترین اے آئی نظام انسانی اقدار اور ترجیحات سے ہم آہنگ نہیں ہو سکتے۔

امریکن جریدے فوربز میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل کے مطابق مصنوعی ذہانت کے سسٹم میں شفافیت کا فقدان ایک اہم مسئلہ ہو سکتا ہے جو نادانستگی میں معاشرے میں موجود تعصب کو بڑھا سکتا ہے۔ اے آئی ٹیکنالوجیز اکثر ذاتی ڈیٹا جمع کرتی ہیں اور اس کا تجزیہ کرتی ہیں جس سے ڈیٹا کی رازداری اور سیکیورٹی سے متعلق مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

فوربز میں کہا گیا کہ جیسے جیسےاے آئی ٹیکنالوجیز ترقی کرتی جا رہی ہیں ان کے استعمال سے وابستہ سیکیورٹی کے خطرات اور غلط استعمال کے امکانات بھی بڑھ رہے ہیں۔ اے آئی سے چلنے والے خودکار ہتھیاروں کے استعمال میں اضافہ بھی اس ٹیکنالوجی کے خطرات میں شامل ہے اور تشویش پیدا کر رہا ہے۔

 انہوں نے مزید کہا کہ اے آئی کے سسٹم پر حد سے زیادہ انحصار انسان کی تخلیقی صلاحیتوں،اورتنقیدی سوچ کو منفی طور پر متاثر کر سکتا ہے اور اس سسٹم سے چلنے والی مختلف صنعتوں میں اور خاص طور پر کم ہنر مند کارکنوں کی ملازمت کے نقصان کا باعث ہو سکتا ہے جبکہ ہیکرز اس سسٹم میں موجود کمزوریوں کا فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔

آرٹیکل میں لکھا گیا کہ مصنوعی ذہانت دولت مند افراد اور کارپوریشنز کو غیر متناسب فائدہ پہنچا کر معاشی عدم مساوات پیدا کر نے کے ساتھ ساتھ ہمدردی، سوشل اسکلز اور انسانی روابط میں کمی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ اس سے غلط معلومات کے پھیلنے کا اندیشہ بھی بڑھ جاتا ہے اور اے آئی کے سسٹم اپنی پیچیدگی اور انسانی نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے غیر متوقع طرز عمل کا مظاہرہ کر سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ایسے نتائج برآمد ہو سکتے ہیں جو مجموعی طور پر افراد، کاروبار یا معاشرے پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔

حال ہی میں اوپن آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے سی ای او سیم آلٹ مین نے کہا  کہ عالمی رہنماؤں کی طرف سے مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کے ممکنہ خطرات پر قابو پانے کی خواہش حوصلہ افزا کن ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی سے درپیش خطرات کو کم کرنے کے لیے ہمیں غوروفکر، بھر پور توجہ اور جلد ٹھوس اقدامات اٹھانے ہوں گے تاکہ اس سے بھر پور فائدہ اٹھایا جا سکے۔

مصنف کے بارے میں