سیاستدانوں کی کچھ شائستہ باتیں۔۔۔

سیاستدانوں کی کچھ شائستہ باتیں۔۔۔

آجکل سیاست بہت گرم ہے ایسے میں جب سیاستدان ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے ہوئے کسی اخلاقیات کا خیال نہیں رکھ رہے ۔اس عمل سے ایک طبقہ ان کے اس عمل سے سیاستدانوں کے خلاف ہوتا جا رہا ہے۔ ابھی بھی وقت ہے سیاستدان اپنی گفتگو درست کر لیں اور ناشائستہ زبان کا استعمال چھوڑ دیں ورنہ باقی عوام بھی ان سے جان چھوٹنے کی دعائیں کرے گی ۔ابھی جہاں الفاظ کی گرما گرمی چل رہی ہے وہاں سیاستدانوں کے چند شائستہ قصے حاضر خدمت ہیں۔جنھیں پڑھ کے آپ یقینا لطف اندوز ہونگے ۔
محترمہ بینظیر بھٹو جب 1993ء میں دوسری بار وزیراعظم بنیں تو انہوں نے پی پی پی کے سردار فاروق لغاری کو صدر پاکستان منتخب کروایا۔ جب چاہتی لغاری صاحبْ کو اپنے پاس طلب کر لیتی تھیں۔ پہلے انہیں مسٹرلغاری اور بعد مسٹر پریذیڈنٹ کہہ کر پکارتی تھیں۔ عینی شاہدین کے مطابق جب آخری دور میں دونوں میں اختلافات عروج پر پہنچ گئے تو بینظیر خود چل کر ایوانِ صدر گئیں اور لغاری صاحب سے ملاقات میں انہیں ’’بھائی لغاری‘‘ کہہ کر مخاطب کیا۔
فاروق لغاری نے کہا ’’میڈم! یہ ملاقات وزیراعظم اور صدر مملکت کے درمیان ہے۔ بہن بھائی کے درمیان نہیں۔ اس لیے بھائی بھائی کے بجائے سیاسی حالات پر بات کیجئے‘‘۔تاکید کے باوجود بھی جب بینظیر بھٹو ’’بھائی لغاری‘‘ کہنے سے باز نہ آئیں تو فاروق لغاری اُٹھ کھڑے ہوئے۔ اپنی اہلیہ کو بلا کر کہنے لگے ’’تمہاری نند آئی ہیں۔ ان سے گپ شپ لگائو۔ میں ضروری کام سے آفس جارہا ہوں‘‘ اور گاڑی میں بیٹھ کر باہر چلے گئے۔اس کے تھوڑے دن بعد ہی صدر لغاری نے بینظیر کی حکومت توڑ کر نگران حکومت بناڈالی۔
جنرل فیض علی چشتی  کے بارے میں ایک قصہ بہت مشہور ہے وہ بیان کرتے ہیں جنرل ضیاء الحق کے ہمراہ ہم فرانس کے دورے پر گئے۔ وفد کے ارکان کو ایک اعلیٰ ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔ اسی شام جنرل ضیاء الحق کے دروازے پر دستک ہوئی۔ صدر مملکت نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ دروازے پر سفید وردی میں ملبوس ایک گورا کھڑا ہے جس کے کندھے اور سینے پر کافی تمغے اور پٹیاں لگی ہوئی تھیں۔ صدر مملکت اسے دیکھ کر فوراً تپاک سے ہاتھ ملایا، بغلگیر ہوئے اور اسے اندر آنے کی دعوت دی۔ علیک سلیک اور خیر خیریت دریافت کرنے کے بعد صوفے پر بٹھایا اور فرانس کے قومی حالات اور فرانس پاکستان فوجی تعاون پر بات چیت شروع کی۔چند منٹوں کے بعد گورے شخص نے کہا ’’جناب مجھے آپ کی باتیں سمجھ نہیں آرہیں۔ لیکن پھر بھی میرے لائق جو خدمت ہے وہی بتائیں میں حاضر ہوں‘‘۔
جنرل ضیاء الحق حیران ہو گئے اور اب اس شخص کا تعارف پوچھا، جس پر گورا بولا:
’’جناب میں اس ہوٹل کا بیرا ہوں اور آپ کی سروس کے لیے آیا تھا۔ کوئی خدمت ہو تو بتایئے‘‘
جنرل چشتی بیان کرتے ہیں کہ یہ سن کر صدر ضیاء الحق بڑے شرمندہ ہوئے۔ اس گورے کو رخصت کیا اور بعد میں، میں نے صدر مملکت سے پوچھا:
آپ نے اس بیرے کو کیا سمجھا تھا۔
جنرل صاحب کہنے لگے:
’’میں سمجھا تھا فرانسیسی بحریہ کے ایڈمرل ملاقات کے لیے آئے ہیں‘‘۔
اس کے بعد ہم دونوں جنرل ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوتے رہے۔
1998ء کے شروع میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھل صفائی کے سلسلہ میں قصور گئے تو انہوں نے ایک گورنمنٹ پرائمری سکول کا دورہ کیا۔ اس کی پانچویں جماعت کے سترہ بچوں میں سے کسی کو معلوم نہ تھا کہ پاکستان کا دارالحکومت کہاں واقع ہے حتیٰ کہ کوئی بچہ بانی پاکستان کا نام بھی نہ بتا سکا۔ وزیراعلیٰ نے پوچھا ’’نوازشریف کون ہے؟‘ـ‘ تو ایک بچے نے معصومیت سے جواب دیا ’’بابرہ شریف کا بھائی!‘‘
ملک معراج خالد مرحوم نگران وزیراعلیٰ بنے تو انہوں نے قوم کو سادگی سکھانے کے لیے اپنے لیے ہر قسم کا سرکاری پروٹوکول منع کردیا۔ ایک دن وہ مال سے گزر رہے تھے کہ دیکھا کہ پولیس نے ہر طرف ٹریفک جام کررکھی ہے۔ آدھا گھنٹہ انتظار کے بعد انہوں نے گاڑی کے قریب گزرتے ایک پولیس کانسٹیبل سے پوچھا ’’بھائی، پچھلے آدھے گھنٹے سے ٹریفک کیوں بند ہے؟‘‘
کانسٹیبل نے انہیں پہچانے بغیر کہا ’’جناب گورنر پنجاب خواجہ رحیم گزر رہے ہیں‘‘۔
ملک معراج خالد نے موبائل پر خواجہ رحیم سے رابطہ کیا اور کہا کہ ’’آپ کے پروٹوکول میں میں بھی پھنسا ہوا ہوں‘‘۔
خواجہ رحیم نے قہقہہ لگایا اور کہا ’’ملک صاحب، معذرت لیکن اب تو میرے گزرنے کے بعد ہی ٹریفک کھلے گی اور میرے گزرنے میں ابھی ایک گھنٹہ باقی ہے‘‘۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ خواجہ رحیم کا قافلہ کافی دیر بعد گزرا اور سادگی پسند وزیراعظم کی گاڑی کو 2گھنٹے کے بعد آگے بڑھنا نصیب ہوا۔
ملک غلام ربانی بھٹو دور میں ایک اہم وزیر تھے وہ موجودہ صوبائی صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کے سسر بھی تھے۔نہائت سادہ طبیعت کے انسان تھے ایک روز جب بھٹو صاحب لاہور آئے تو یہ ائیر پورٹ پر ان کا استقبال کرنے گئے ۔بھٹو نے کہا ملک صاحب آپ کی شکایت آئی ہے ۔ملک غلام ربانی نے پوچھا کہ کونسی شکائت آئی ہے توبھٹو نے کہا ملک صاحب آپ کے بارے میں شکائت ہے کہ آپ گالیاں بہت نکالتے ہیں ۔اس پر ملک غلام ربانی صاحب برجستہ پنجابی میں بولے سر کیڑا ۔۔۔۔۔۔۔ کہندا ہیــ یعنی یہاں بھی انھوں نے گالی نکال دی اس پر بھٹو مسکرائے اور کہنے لگے کہ ٹھیک ہے ٹھیک ہے ملک صاحب میں سمجھ گیا کہ گالی آپکا تکیہ کلام ہے۔
اعتزاز احسن نے یہ قصہ مجھے خود سنایا کہنے لگے کہ نواز شریف کا چین کا دورہ آیا تو روایت کے مطابق اس دورہ میں ایک اپوزیشن کا فرد بھی جاتا تھا اس حوالے سے بے نظیر بھٹو نے میرا انتخاب کیا جہاز کا وقت صبح تھا میں رات بھر سویا نہیں تھا جہاز میں بیٹھتے ہی میں نے کمبل منگوایا اور سونے لگا ۔کچھ دیر بعد میاں صاحب نے مجھے جگا دیا اور کہنے لگے کہ ناشتہ کرو میں نے منع کیا تو انہوں نے اصرار کیا کہ دیسی بکرے کے پائے ہیں اور لسی ہے خاص ۔خیر میں نے اصرار کر کے سلائس وغیرہ منگوائے کافی منگوائی اور ناشتہ کر کے پھر سونے لگا ۔میاں صاحب یقینا میری بد ذوقی پر خوش نہ تھے ۔کچھ دیر بعد مجھے کھانے کی آوازیں آنے لگیں میں نے دیکھا کہ میاں صاحب ،بیگم صاحبہ اور باقی وفد کے لوگ ایک خاص رغبت سے پائے کھا رہے تھے بعد میں سب نے خوب لسی پی ۔جب جہاز منزل پر پہنچا تو سارا جہاز لسی کے نشے میں سو رہا تھا سب نیند سے گرتے ہوئے نیچے اترے ۔وہ تو استقبال کا پروگرام کچھ دیر بعد تھا اس لئے بچت ہو گئی ورنہ شرمندگی ہوتی۔

مصنف کے بارے میں