آزادی کا جشن منانے کی آزادی ؟

آزادی کا جشن منانے کی آزادی ؟

14 اگست ہر سال آتا ہے اور گزر جاتا ہے۔ تقریبات ہوتی ہیں، تقاریر کی جاتی ہیں، ملی نغمے گائے جاتے ہیں اور دن کا اختتام ہوتا ہے اور قوم سب کچھ بھول بھال کر سو جاتی ہے۔ مردہ ضمیر لوگوں کے لیے یہ دن محض ہلے گلے کا ہے۔ سارا دن پاں پاں کر کے لوگوں کا جینا دوبھر کیا اور آزادی کا جشن منا کر اپنی حب الوطنی کے جذبے کو جلا بخشی۔ 75 برس بیت گئے۔ یہ کل کی بات نہیں یہاں تک پہنچنے میں صدیاں گذر گئی ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جیسی مدہوشی پہلے تھے اس سے زیادہ گہری نیند میں جاتے جا رہے ہیں۔ وفاقی حکومت نے خوشخبری دی ہے کہ قومی ترانے کی نئی دھنیں تیار کی گئی ہیں، نئے ملی نغمے ریکارڈ کیے گئے ہیں جو اس دن کی مناسبت سے ریلیز کیے جائیں گے۔ کسی نے یہ نہیں بتایا کہ 75 برس گزرنے کے باوجود ہم نے کھویا کیا ہے اور پایا کیا ہے۔ سچ پوچھیں تو صرف آزادی پائی ہے باقی سب کچھ کھویا ہی کھویا ہے۔ ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہاں کرپشن کی آزادی ہے، جہالت کو پھیلانے کی آزادی ہے، لوگوں کو گمراہ کرنے کی آزادی ہے۔ لوٹ مار کرنے کی آزادی ہے اور جس کے پاس جو اختیار ہے اسے اپنے دائرہ کار سے نکل کر بھی سب کچھ کرنے کی آزادی ہے بس اس کی لاٹھی مضبوط ہونی چاہیے۔
جب آپ اپنی مصروفیات سے فارغ ہو جائیں تو اپنے آپ سے یہ سوال ضرور کریں کہ کیا ہم نے ان مقاصد اور اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش کی جو ملک آزاد کراتے وقت طے گئے تھے۔ جواب ملے گا نہیں۔ ہم تو ایک انچ آگے نہیں بڑھے۔ بہت سے کاموں میں ہم نے ترقی کی ہے اور دنیا اس کی 
مثال دیتی ہے۔ بھٹو نے کہا تھا کہ ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے اب تک قوم گھاس کی کھا رہی ہے۔ ایٹمی ٹیکنالوجی کیا صرف بم بنانے کے لیے ہوتی ہے، ہم نے تو یہ پروگرام پرامن مقاصد کے لیے شروع کیا تھا۔ آج قومی گرڈ میں ایٹمی پلانٹس سے ملنے والی بجلی کا تناسب بہت ہی کم ہے۔ ہم ہر چھ مہینے بعد ایک میزائیل کا تجربہ کرتے ہیں لیکن ہماری میزائیل ایکسپورٹ کتنی ہے کیا ہم دوسرے ممالک کو یہ ہتھیار فراہم کر سکتے ہیں۔ میزائیل حملے سے بچنے کے لیے چین سے حاصل کردہ شیلڈ تو بے کار ثابت ہوئی اور بھارت سے غلطی سے فائر ہونے والا میزائیل بغیر کسی رکاوٹ کے میاں چنوں میں آ کر گرا۔ اسلحہ کے انبار لگانے پر توجہ رہی اور جب اس کے آڈٹ کی بات ہو تو پھر سانحہ اوجڑی کیمپ جیسے سانحات رونما ہوتے ہیں۔
ملک آئین، قانون اور قاعدے کے مطابق چلتے ہیں مگر ہمارے پاس یہی سب سے کمزور شعبہ ہے کہ یہاں آئین کی عملداری نہ ہونے کے برابر ہے اور قانون کا حال یہ ہے کہ ہر ادارے اور ہر طبقے کے لیے الگ الفاظ قانون دستیاب ہیں۔ ایکسپورٹ کوالٹی سے لے کر حکمران طبقے اور پسے ہوئے طبقات کے لیے قانون الگ الگ ہیں۔ پاکستان ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں قانون کی نظروں میں سب برابر نہیں۔ ایک معمولی جرم میں کسی غریب کو ضمانت کروانی ہو تو مہینوں لگ جاتے ہیں اور طاقتور طبقات کے لیے راتوں کو عدالتیں کھل جاتی ہیں۔ طاقتور طبقے کے مقدمات کے فیصلے دنوں میں ہو جاتے ہیں اور بیس روپے کے تنازعہ کا مقدمہ کئی دہائیوں تک چلتا ہے۔ کوئی اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے ساری عمر جیل میں گذار دیتا ہے اور کوئی چند دن گزار کر ضمانت پر رہا ہوتا ہے اور باہر آ کر پھر سے پرانے دھندے پر لگ جاتا ہے۔
سچ پوچھیں تو آئین اور قانون کی عملداری ہی اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ہم نے آئین کو موم کی ناک بنا کر استعمال کیا تو پھر اس کا نتیجہ بھی ایسا ہی نکلنا تھا۔ ووٹ کی طاقت سے معرض وجود میں آنے والے ملک میں فیصلے ووٹ کی طاقت سے نہیں بلکہ نوٹ کی طاقت، بندوق کی نوک یا عدلیہ کی من چاہی تشریحات کے تابع ہوتے ہیں۔  بندوق کی نوک پر تو پوری قوم کو یرغمال بنایا گیا اور عدلیہ نے اپنی مرضی اور منشا سے فیصلے کر کے ملک کی ترقی کے راستے میں روڑے اٹکا دیے۔ آپ خود ہی طے کریں کہ وہ ملک کیا ترقی کرے گا جہاں پر اعلیٰ عدلیہ میں تقرریوں کا کوئی صاف اور شفاف طرقہ کار نہیں بلکہ پسند نا پسند کے تحت بھرتیاں ہوتی ہیں۔ جب ہمارے معزز جج صاحبان اس طرح بھرتی ہوں گے تو فیصلے بھی پسند اور نا پسند کے تحت کریں گے۔ حالیہ جوڈیشل کمیشن میں نئے ججوں کی تقرری نے اس بات کو ثابت نہیں کر دیا کہ اعلیٰ عدلیہ میں تقرریوں کا کوئی میرٹ نہیں بلکہ چیف جسٹس جس سے راضی ہو جائے وہی جج۔ 
چیف آف آرمی سٹاف کی تقرری کے حوالے سے ریسرچ رپورٹ تیار کی جائے تو علم ہو گا کہ جس برس چیف کی تقرری یا توسیع کا معاملہ درپیش ہوتا ہے وہ برس پاکستان کی سیاست میں ہنگامہ خیز بن جاتا ہے۔ پاکستان کے سیاسی حالات کا نئے چیف کی تقرری سے کیا واسطہ ہے۔ کیا بھارت میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ شرم کا مقام کیا ہو گا کہ آرمی چیف آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لیے امریکہ کو فون کرے اور پھر عرب ممالک کے سربراہان سے مزید قرض لینے کی درخواست کرے۔ آپ کی سول حکومتیں اس قدر ڈس کریڈٹ ہو چکی ہیں کہ کوئی آپ پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ باہر کی ایجنسیوں اور حکومتوں کو بھی علم ہے کہ پاکستان کے ساتھ کام کرنا ہے تو کس کی بات کو وزن دینا ہے۔
اپنے سیاستدانوں کا بھی کچھ نہ پوچھیں ایک نمبر کاریگر ہیں۔ انہوں نے ماضی سے سبق سیکھا نہ مستقبل کے لیے کوئی منصوبہ بندی کی۔ ایسے سیاست دان دیہاڑی دار ہوتے ہیں کہ روزنامہ اڈے پر گئے اور مزدوری کر کے واپس آ گئے۔ کسی ایک میں بھی آپ کو قائد اعظم کی جھلک نظر آتی ہے؟ یہ قوم کو جوڑنے کے بجائے تقسیم کے فارمولے پر عمل پیرا ہیں۔ انہوں نے صرف لینا سیکھا ہے دینا نہیں سو آج کوئی ان پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں۔ قائد اعظم انگریزی میں تقریر کرتے تھے لیکن قوم یہ بات جانتی تھی کہ وہ جو بھی کہہ رہا ہے سچ کہہ رہا ہے۔ اس رہنما نے اپنے قول و فعل سے ثابت کیا۔ یہ صرف تقریروں سے ثابت کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔
پاکستان اور بھارت نے ایک ہی دن آزادی حاصل کی تھی۔ ذرا اپنا اور بھارت کا موازنہ کریں کہ دونوں ملک کہاں کھڑے ہیں۔ وہاں جمہوریت اور جمہوری ادارے مضبوط ہیں اور آج تک مارشل لا لگانے کی جرات کسی کو نہیں ہوئی اور ہماری قوم کی زندگی مارشل لاؤں کے سائے میں بسر ہوئی ہے۔ ان کی معیشت زمین سے آسمان پر پہنچ گئی ہے اور ہم آج بھی کشکول اٹھائے کبھی اس کے در کسی اس کے در۔ دنیا بھر میں ہمارا امیج ایک بھیک مانگنے والی قوم کا بن گیا ہے۔ کردار کے غازی تو ہم بن نہیں سکے لیکن گفتار کے غازی ہم سے بہتر کوئی نہیں۔ ابھی کسی سے دونوں ملکوں کا موازنہ کرنے کی بات کریں تو اگلے لمحے وہ لال قلعے پر جھنڈا لہرانے کی بات کرے گا۔ ہم اس دور سے ابھی تک نہیں نکلے جب جنگوں کے ذریعے ملکوں کی معیشت مضبوط ہوتی تھی۔ آج معیشت کو مضبوط کرنا ہے تو جنگ سے دور رہنا ہو گا لیکن ہم جنگ سے باہر ہی نہیں نکل پا رہے۔ کبھی مشرقی سرحد پر برسرپیکار اور کبھی مغربی سرحد پر۔ 
اس یوم آزادی کی سب سے بڑی خوشی یہی ہے کہ آئی ایم ایف ایک ارب اور چند کروڑ کی قسط دینے پر راضی ہو گیا ہے۔ عرب ممالک نے بھی ادھار پر تیل دینے کی بات کی ہے اور آنے والے دنوں میں تیل کی قیمتوں میں کمی ہونے کا اعلان متوقع ہے۔ بجلی کی قیمت اس لیے کم نہیں ہو پا رہی کہ ہماری اشرافیہ نے بجلی پیدا کرنے کے کارخانہ لگا رکھے ہیں اور انہیں ادائیگی کرنا ہے۔ اس ملک پر آگ برساتے سورج سے ہم بجلی اس لیے نہیں لے رہے کہ پھر ہم ٹیکس کیسے وصول کریں گے۔ ٹی وی ٹیکس ریڈیو ٹیکس نیلم جہلم سرچارج اور پتہ نہیں کیا کیا۔ 
چلیں ان سب کو بھول جائیں اور جشن آزادی مناتے ہیں۔ اپنے موٹر سائیکل کے سلنسر کو اتار کر اتنا شور مچائیں کہ کوئی اور آواز سنائی نہ دے۔ آزادی اتنی کہ کوئی شریف گھرانہ باہر نہ نکل سکے۔ اس سے زیادہ آزادی کیا ہو سکتی ہے؟