سیاست اورانسانیت

Umer Khan Jozi, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

انسانیت کاروناہم سب روتے ہیں لیکن اگرسچ پوچھیں توہماری سیاست اورانسانیت آج بھی ایک دوسرے سے دوربہت دورہے۔سومیں سے پانچ دس کانہیں کہہ سکتے ویسے ہمارے سیاسیوں کی اکثریت کایہ حال ہے کہ سیاسی جامہ پہننے کے بعد ان بے چاروں کو پھر انسانیت کا کوئی اتا ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی پتا۔ ہمارے ایک ٹیچرتھے مولانامحمدعلی صاحب وہ اکثرکہاکرتے تھے کہ سیاست کی وادی میں نکلنے والے اکثرسیاستدان پھرانسانیت کاراستہ بھی بھول جاتے ہیں۔ہمارے گائوں اورعلاقے میں پہلے یہ ہوتاتھاکہ اڑوس پڑوس میں اگر خدانخواستہ کوئی ماتم اورفوتگی ہوتی تو پھر پورا گائوں اور علاقہ اس طرح سوگ میں ڈوب جاتاکہ تین چاردن تک کوئی اپناہویا بیگانہ اس سوگ سے باہر نکلنے کا راستہ نہ پاتا اور ایسا صرف ہمارے گائوں اورعلاقے میں نہیں بلکہ غالباً ضلع بٹگرام کے تمام گائوں،دیہات اورعلاقوں میں ہوتا تھا لیکن جب سے سیاست کی یہ وبا گھر گھر تک پھیلی ہے تب سے بیگانے توبیگانے اب اپنے بھی کسی کو اپنے دکھائی نہیں دیتے۔ خیبر پختونخوا میں میرے آبائی ضلع بٹگرام سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے سابق امیدوار مولانا رشید احمد سیاسی برادری سے تعلق رکھتے تھے۔اس ملک میں کسی کازوراوردبدبہ ہو یا نہ۔؟ لیکن برادریوں کے زوراوردبدبے کاغلغلہ آج بھی ہر جگہ ضرور ہے۔ صحافی برادری، ٹیچر برادری، ڈاکٹر برادری، تاجر برادری، سیاسی برادری۔ اپنے ایک ایک برادرکے لئے ان برادریوں کا کام اور کردار بھی ہم نے اپنی ان آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ایک ٹیچرکی بے ادبی ہوتوسارے کے سارے سکول بندکردیئے جاتے ہیں۔ایک ڈاکٹرکامسئلہ ہوتوسب ہسپتالوں کو ہڑتال گاہ بنا دیا جاتا ہے۔ کوئی تاجر اگرکسی کے ہتھے چڑھ جائے توسارے شٹرڈائون کردیئے جاتے ہیں ۔صحافی اپنے ایک بھائی کیلئے قلم چھوڑدیتے ہیں اوراگرکسی سیاستدان کی عزت پرکہیں کوئی حرف آئے توسارے سیاستدان واک اورناک آئوٹ شروع کردیتے ہیں۔برادریوں کے اس مثالی اتحاداوراتفاق پرہمیں ہمیشہ ناز رہا لیکن مولانا رشید احمدکی اچانک وفات پراس کی سیاسی برادری نے جوکچھ کیاواللہ اس پرتاقیامت ہرعام وخاص کوافسوس رہے گا۔مولانارشیداحمدنے اپنی زندگی میں نہ صرف بٹگرام بلکہ اس ملک وقوم کے لئے بے پناہ خدمات سرانجام دیں۔جوکام منتخب ایم این ایز اورایم پی ایزنہ کراسکے وہ کام بھی مولانارشیداحمدنے کئے۔ مولانارشیداحمدکی وفات پر چاہئے تو یہ تھا کہ بٹگرام کے تمام سیاستدان اپنے بھائی اورعوام کے حقیقی خادم کی وفات پراپنی تمام ترسیاسی سرگرمیاں منسوخ یاملتوی کرکے عوام کے ساتھ دکھ،درد،غم اورسوگ میں شامل ہوتے مگرافسوس بٹگرام سے تعلق رکھنے والے حکمران جماعت تحریک انصاف کے ممبران قومی وصوبائی اسمبلی نے وہی کچھ کیاجوان کے وزیراعظم اورکپتان پچھلے تین سال سے اس ملک میں کررہے ہیں۔ مولانارشیداحمدکی وفات کے اگلے دن میوزک کے سائے میں بٹگرام کے اندرحکمران جماعت تحریک انصاف کاوزیراعلیٰ کیلئے جلسہ یہ مولاناکی جدائی سے لگنے والے زخموں پرنمک پاشی سے ہرگزکم نہ تھا۔عوام ایک طرف اپنے محبوب قائداورعوامی خادم کی اچانک جدائی پرآنسوبہارہے ہوں،اپنوں اوربیگانوں کی سسکیاں ابھی جاری ہوں ۔دوسری طرف میوزک کی تاپ پرجشن ہو،تالیاں ہوں اورنعرے ہوں۔آپ خوداندازہ لگائیں سوگ میں ڈوبنے والوں پراس دن کیاگزری ہو گی۔؟ مولانارشیداحمدتوچلے گئے تھے کسی کے چاہنے اورنہ چاہنے سے بھی وہ واپس نہیں آسکتے تھے لیکن یہ جلسہ۔؟ یہ توبعدمیں بھی ہو سکتا تھا۔ یہ جشن ہفتہ دس دن بعدبھی تو منایا جا سکتا تھا۔ یہ تالیاں یہ بھی پندرہ بیس دن بعدکارکنوں اورسیاسی کرایہ داروں ودیہاڑی داروںکے ذریعے ماری جاسکتی تھیں۔یہ نعرے بھی تو بعدمیں لگائے جاسکتے تھے۔ لیکن۔ افسوس سیاست کرنے والے اس دن غالباًانسانیت ہی بھول گئے تھے۔جولوگ انسانیت بھول جائیں وہاں پھراپنوں کی میتوں پر آنسونہیں اس طرح جشن منائے جاتے ہیں۔ مولانارشیداحمدہمارے نہیں ان سیاسیوں کی برادری کے بندے تھے لیکن انہوں نے اس کی وفات کے بعدجوکچھ کیا۔ واللہ اس پر ہمارے دل آج بھی دکھ رہے ہیں۔ بٹگرام میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کاجلسہ اگر تین چار روز بعد کرا دیا جاتا تو اس سے کبھی آسمان نے نہیں گرنا تھا لیکن مولانا رشیدکی وفات کے فوری بعداس جلسے کوکرانے سے لوگوں کے جودل پھٹے ہیں وہ اب کبھی نہ بھریں گے اورنہ جڑیں گے۔ مولانا مرحوم نے ساری زندگی جے یوآئی کے پرچم کو تھامے رکھا۔ ملک اور بیرون ملک وہ جمعیت کے پیغام کو پھیلانے میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔ مرحوم کامولانافضل الرحمن کے قریبی ساتھیوں میں شمارہوتاتھا۔وہ نمودونمائش کے قائل نہیں تھے اس لئے دنیاکی نظروں سے ہمیشہ دور یا اوجھل رہے۔ جتنا وقت انہوں نے مولانا اور مولاناکی پارٹی کے ساتھ گزارااتنااگروہ امریکہ میں رہنے والے کسی انسان کے ساتھ گزارتے تووہ بھی مرحوم کے جنازے کو کندھا دینے کے لئے سات سمندرلازمی پارکرتے مگرخوانین بٹگرام کے ساتھ اپنی پارٹی نے بھی غم کی اس گھڑی میں کچھ اچھانہیں کیا۔ مولانافضل الرحمن کواپنے اس جانثارساتھی اور مجاہدکے جنازے میں شرکت کی توفیق تک نصیب نہ ہوسکی۔ہم نعیم الحق کے جنازے میں شرکت نہ کرنے پروزیراعظم عمران خان کی بے حسی اور سنگدلی کارونارورہے تھے لیکن لگتاہے کہ عمران خان کے علاوہ بھی میدان سیاست میں بے حسوں اور سنگدلوں کی کوئی کمی نہیں ۔سیاسی کارکن ایک قائد اور پارٹی کے لئے اپنی زندگی تک دائو پر لگا دیتا ہے۔ پارٹی کی رکنیت سازی اورالیکشن مہم کے لئے ننگے پائوں دوڑدھوپ اور بینرز وسٹکرز لگانے کے لئے راتوں کواٹھنا، بیابان راستوں اور چٹیل میدانوں میں چلنا، بیگانوں کے ساتھ اپنوں کی دشمنیاں اور خفگیاں مول لینا۔نہ جانے اس جیسے اورکتنے عذاب ہیں جوایک سیاسی کارکن نہیں سہتا۔؟لیکن وہی کارکن جب ننگے پائوں اورپھٹے پرانے کپڑوں میں ابدی نیندسوجاتاہے توپھرنہ کپتان کے پاس اس کے دیدارکرنے کے لئے ٹائم ہوتاہے اورنہ ہی مولاناکے پاس اس کے جنازے کوکندھادینے کے لئے وقت۔؟ہائے افسوس۔یہ غریبوں کی قسمت ہے یاہمارے ان سیاسیوں کی انسانیت۔؟ایک سیاسی کارکن اورجانثارساتھی کے آخری دیدارسے بڑھ کر اور مصروفیت اورسیاست کیاہوسکتی ہے۔؟ اس طرح کی بے حسی اورسنگدلی کاجب بھی گلہ اورشکوہ کیاجائے توجواب آتاہے کہ قائدمحترم اوربادشاہ سلامت کی مصروفیات کچھ زیادہ تھیں ویسے بھی جنازہ فرض کفایہ ہے کوئی فرض نہیں۔میں سیاست کے ان دیوتائوں سے سوال کرتاہوں کہ کسی پارٹی اورجماعت کے لئے ایک غریب کااپناسب کچھ دائوپرلگاناکیایہ فرض ہے۔؟اگریہ فرض ہے توپھرتن ،من اوردھن پارٹی کے لئے قربان کرنے والے سیاسی کارکن کاآخری دیدار بھی بادشاہ سلامت اور قائدمحترم پرفرض ہی نہیں ڈبل اورٹرپل فرض ہے۔کارکن قربانیاں دیں ،مار کھائیں، زندگیاں دائو پر لگائیں اور قائدین محترم ساری زندگی عیش وعشرت کرکے پھراس کاآخری دیداربھی نہ کریں یہ سیاست توہے مگرانسانیت نہیں۔