رات کے پاس کچھ نہیں باقی

Nasif Awan, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

’’ جاوید خیالوی کے مطابق جتنی بھی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں انہیں ملک کو درپیش بحرانوں سے نجات دلانے کیلئے ایک بار متحد ہو جانا ہوگا کیونکہ یہ طے ہے کہ اب کوئی بھی جماعت تنہا کچھ نہیں کر سکتی۔ یہ جو انتخابات اورجوڑ توڑ کے حوالے سے سرگرمیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں ان کا کوئی فائدہ نہیں خراب صورت حال کو ٹھیک کرنا ہے تو قومی حکومت کا قیام عمل میں لانا ہوگا‘‘ بلاشبہ وطن عزیز کے سیاسی سماجی اور معاشی حالات گمبھیر ہو چکے ہیں ہو سکتا ہے آنے والے دنوں میں مزید گمبھیر ہو جائیں لہذا ضروری ہو گیا ہے کہ باہمی رنجشوں کو بھلا کر صورتحال کا مقابلہ کیا جائے کیونکہ عوام کی حالت انتہائی خراب ہے اور روز بروز اس میں اضافہ ہو رہا ہے انہیں  انصاف ملتا ہے نہ  بنیادی حقوق۔ اگرچہ وہ  ابھی تک حکمرانوں سے آس لگائے بیٹھے ہیں مگر انہیں یہ بھی نظر آ رہا ہے کہ ان کے حکمران اور ان کے سیاسی مخالفین اپنی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ روز گار اور انصاف کی فراہمی کیلئے وہ کوئی تحریک نہیں لا رہے انہیں یہ بھی لگ رہا ہے کہ صورت حال بہتر نہیں ہو گی بلکہ اور بگڑے گی مگر حیرت ہیکہ کسی بھی سٹیک ہولڈر کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی موجودہ حکومت نے تو یہ طے کر رکھا ہے شاید‘ کہ اسے عوام کی طرف ایک لمحے کو بھی نہیں دیکھنا ان کے ساتھ کیا بیت رہی ہے اس بارے جاننے کی کوشش نہیں کرنا لہٰذا ان کی زندگی میں بہار کے آنے کا کوئی امکان نہیں مگر حکمران اپنے بیانات میں اچھے دنوں کی نوید دیے جا رہے ہیں جبکہ ان کے پاس ڈیڑھ برس باقی ہے اس میں وہ کیا انقلاب برپا کر لیں گے انہیں تو آئی ایم ایف کا قرض ادا کرنے کی فکر ہے لہٰذا وہ ایک بڑی ٹیکس سرنج سے بے بس کمزور اور پریشان حال عوام کی رگوں سے خون کشید کرنے میں مصروف ہیں۔
جناب وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ اس نظام میں ہم تبدیلی نہیں لا سکے اس کا ادراک و فہم انھیں پہلے ہونا چاہیے تھا یہ بات درست ہے کہ عمران خان کے گرد جمع لوگوں نے انہیں موجودہ نظام کو بدلنے کی جانب بڑھنے نہیں دیا مگر جب انہیں یہ علم ہو گیا ہوگا کہ ان کے ساتھی جو سٹیٹس کو کے حامی ہیں اور اس کا مطلب عوام سے دور لے جانا ہے ان کی نفرت کا نشانہ بنانا ہے تو انہیں چاہیے تھا کہ ان سے جان چھڑا لیتے مگر چونکہ وہ وزارت عظمیٰ کے پنگھوڑے میں پڑے مزے لینے لگے تھے لہٰذا عوام سے کیے گئے وعدے بھول گئے اور اقتدار کی بھول بھلیوں میں کھو گئے نتیجتاً لوگ بدحال ہو چکے ہیں ان کے باورچی خانے اجڑ گئے ہیں مجموعی اخراجات میں خوفناک اضافہ ہوگیا ہے آمدنی میں مگر کوئی اضافہ نہیں ہوا جہاں مزدور محنت کش رْل رہا ہے تو وہاں سرکاری ملازمین بھی تنگدست نظر آتے ہیں۔ ان کے دوسرے کوئی ذرائع آمدن نہیں بس سرکار کی نوکری ہے اور سرکار کی شائد خواہش ہے کہ وہ تنخواہ کے بغیر گزارا کریں تاکہ آئی ایم ایف کی قسطیں ادا کرنے میں آسانی ہو۔
لگتا ہے کہ عمران خان کو آئی ایم ایف کی ادائیگی ہی عزیز ہے۔ لہٰذا وہ مسلسل عوام پر قرضوں کا بوجھ ڈالے جا رہے ہیں جبکہ انہیں ٹیکس اور بجلی چوروں کو قانون کی گرفت میں لانا چاہیے تھا سرکاری و غیر سرکاری زمینوں پر قابض خونی قبضہ گیروں کی ٹانگیں توڑ کر ان سے پیسا اکٹھا کر کے غریب لوگوں پر خرچ کرنا چاہیے تھا مگر افسوس وہ ایسا نہیں کر سکے یا پھر انہیں ایسا نہیں کرنے دیا گیا اس نہ کرنے میں بھی وہ قصور وار ہیں وہ ایسے عناصر سے گلوخلاصی کیوں نہیں کر سکے اس کا جواب حکومتی مفکرین یہ دیتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ان کی حکومت چلی جانی تھی۔
یہ ٹھیک ہے مگر یہ جو تمام خرابیاں ان کے پلڑے میں پڑ رہی ہیں ان سے تو بچ جاتے اب تو وہ سو فیصد صورت حال کے ذمہ دار قرار پا چکے ہیں مگر انہیں اس کی پروا نہیں ہوگی کیونکہ انہوں نے یہاں تھوڑی رہنا ہے  وہ بھی مغربی ممالک میں سے کسی ایک میں جا بسیں گے جہاں وہ اپنی زندگی بھرپور طور سے بسر کریں گے اور عوام بیچارے برسوں ان کو یاد کر کے آنسو بہائیں گے کہ ایک ایسا سیاستدان آیا تھا جو انہیں جنت نظیر وادیوں میں لے جانے کے وعدے کرتا رہا مگر اقتدار میں آنے کے بعد اس نے اچانک پینترا بدلا پھر ہر سمت اندھیرا چھا گیا اور ہر کوئی آزادانہ لوٹ مار کرنے لگا رشوت اور کمیشن خوری کے واقعات عام ہو گئے۔ اب ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے رپورٹ جاری کی ہے کہ پاکستان بدعنوانی میں بہت آگے بڑھ گیا ہے مگر مجال ہے حکمرانوں کو اس کے خاتمے کیلئے ہوش آیا  ہو بلکہ الٹا انہوں نے اسے جھوٹ کا پلندا قرار دے دیا ہے۔
بہر حال عوام حکمرانوں کو اپنے کندھوں پر بٹھا کر اختیار ات کے ایوانوں میں اس لیے پہنچاتے ہیں کہ وہ ان کو مسائل و مشکلات سے چھٹکارا دلائیں گے مگر وہ انہیں دھوکا دیتے ہیں ان کی خواہشوں کا قتل عام کرتے ہیں۔ بدمعاشوں غنڈوں اور قبضہ گیروں کو اہمیت دیتے ہیں جو ان کے دست و بازو بن کر کمزوروں کو دباتے ہیں یہ حکمران اپنی معمولی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں ایسے منصوبوں کو ترجیح دیتے ہیں جو ہر کسی کی نگاہ میں آتے ہوں اس حوالے سے خوب ڈھنڈورہ پیٹتے ہیں  موجودہ سربراہ مملکت نے تو ایک نیا انداز اختیار کیا ہے کہ اپنے وزیروں کو ایوارڈ دے رہے ہیں کہ انہوں نے بہت اچھا کام کیا ہے مگر وہ عام لوگوں کو کیوں نظر نہیں آرہا بس چونکہ وہ انہیں پسند ہیں اس لئے اچھے لگتے ہیں کہ انہوں نے بہتر کارکردگی دکھائی ہے جنہوں نے ایسا نہیں کیا وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ نالائق ہیں 
نااہل ہیں نکمے ہیں تو پھر انہیں کابینہ میں رہنے کا بھی کوئی حق نہیں انہیں تو کھڈے لائن لگا دینا چاہیے اور شوکاز نوٹس جاری کرنا چاہیے کہ وہ کس بات کی تنخواہ لیتے رہے ہیں اور دیگر سہولتیں حاصل کرتے رہے ہیں مگر کون ایسا کرے گا  ویسے اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں کیونکہ حزب اختلاف اس یو ٹرنی حکومت کو چلتا کرنے جا رہی ہے اگرچہ اس میں اس کا اپنا مفاد سرفہرست ہے مگر عوام کو بھی سیاسی منظر نامہ تبدیل ہونے سے کچھ ریلیف مل سکتا ہے بھلے وہ عارضی ہو گا مگر کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہو گا۔ بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ چین عمران خان کو فی الحال اقتدار میں دیکھنا چاہتا ہے کیونکہ اقتدار کی منتقلی سے اس کے منصوبے متاثر ہو سکتے ہیں لہٰذا وہ کسی قسم کی مہم جوئی کی حمایت نہیں کرے گا خیر دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے مگر یہ بات اپنی جگہ بڑی اہم ہے کہ تمام سیاستدان مل کر ملک چلائیں اگر وہ عوام سے مخلص ہیں تو ، وگرنہ وہ لکھ  رکھیں الہ دین کا چراغ ان میں سے کسی کے پاس نہیں جس کو رگڑنے سے ایک بھاری بھرکم جن برآمد ہوگا جو ہمارے تمام مسائل کو پلک جھپکتے میں حل کر دے گا۔ کفایت حسین اعوان نے کیا خوب کہا ہے 
رات کے پاس کچھ نہیں باقی
اک دیاتھا جلا چکی کب کی

مصنف کے بارے میں