تحریک عدم اعتماد اور بیوروکریسی

تحریک عدم اعتماد اور بیوروکریسی

وزیر اعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد ہماری بیوروکریسی میں بھی کافی ہلچل پائی جا رہی ہے اور اس کے مختلف گروپ درپردہ اس تحریک کے حق اور مخالفت میں کام کر رہے ہیں جبکہ کچھ ابھی تک حالات کا جائزہ لے رہے ہیں،وہ تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو کے مطابق فیصلے کریں گے۔مگر یہ سچ ہے کہ وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی بیوروکریسی اس وقت شدید تذبذب کا شکار ہے۔
تحریک انصاف کی حامی بیوروکریسی اس وقت شدید بے چینی،بے یقینی اور بے اطمینانی سے دوچار پائی جا رہی ہے، ان دنوں ایوان وزیر اعظم اور ایوان وزیر اعلیٰ پنجاب اور انہی حکومتوں میں کلیدی عہدوں پر کام کرنے والے افسروں کے چہرے دیکھنے سے بھی انکے اندرونی احساسات اور خوف کو دیکھا جا سکتا ہے ، ایک ایسے وقت میں جبکہ حکومت کسی بھی حوالے سے ڈیلیور کر پائی نہ عوام کو ریلیف دیا جا سکا،کوئی انتخابی وعدہ ایفاء نہ ہوا ،اس پر عوام کی اکثریت مہنگائی، بیروزگاری،پولیس مظالم،قبضہ گروپوں، منافع  خوروںکے رحم و کرم پر رہی ،اور عوام کا کوئی پرسان حال نہیں انصاف بھی ان کی دسترس سے باہر ہے صرف بیوروکریسی ہی حکمران طبقہ کی لاج رکھ سکتی تھی مگر جو مرض کی دوا کر سکتے ہیں ان ہی کو مریض بنا دیا گیا ہو تو حکومت اگر باقی بھی رہی تو باقی ماندہ مدت میں کیا عوامی خدمت کر سکے گی،یہ لمحہ فکریہ ہے، حکمران طبقہ کو اس حوالے سے سوچ بچار کرنا ہو گی ورنہ ایسی صورتحال روزانہ پیدا ہو گی۔
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے ساتھ کلیدی عہدوں پر کام کرنے والے ایک ریٹائرڈ اعلیٰ افسر ان دنوں سیاسی اور انتظامی حلقوں میں بہت ان ہیں،ان سے مختلف سیاسی اور بیوروکریٹک حلقے رابطہ رکھنے کے لئے بے چین پائے جا رہے ہیں اور تو اور موجودہ پنجاب حکومت میں وزیر اعلیٰ بزدار کے قریبی سمجھے والے اہم عہدوں پر تعینات کچھ افسران ،اس ریٹائرڈ افسر سے بالواسطہ اور بلا واسطہ رابطے کر کے انہیں اپنی وفاداری کا یقین دلا رہے ہیں اور بہت سارے وہ افسران جو وزیر اعلیٰ بزدار سے قربت کے قصے سناتے نہ تھکتے تھے ان دنوں اپنی غیر جانبداری کی باتیں کر رہے ہیں۔
موجودہ حکومت کے وفاق اور پنجاب میں تعینات اکثر بیوروکریٹس ،عمران خان کے خلاف موجودہ تحریک عدم اعتماد کو بھی ایک بیوروکریٹ اور اس کے ساتھیوں کے رویے کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں ،کہا جا رہا ہے کہ ایوان وزیر اعظم میں تعینات بیوروکریسی میں پٹھانوکریسی کا ایک گروپ ہی تمام فیصلے کرتا رہا جسکی وجہ سے اکثر سیاستدان اور افسران ناراض ہیں اور اسی گروپ نے عمران خان کو لوگوں سے دور کر رکھا تھا۔
اسی طرح جنوبی پنجاب میں تعینات اکثر بیوروکریٹ ،لاہور سول سیکرٹریٹ اور ایوان وزیر اعلیٰ پنجاب میں تعینات اعلیٰ افسران کے رویے سے شاکی اور موجودہ صورتحال سے خوش نظر آرہے ہیں۔جنوبی پنجاب میں تعینات سیکرٹری تونسہ میں دو دن سول سیکرٹریٹ کے دفتر لگانے کے فیصلے سے سخت ناراض ہیں۔ ان دنوں اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے والے اکثر سینئر سرکاری حکام تحریک انصاف حکومت کے بارے میں بعض سنگین نوعیت کے تحفظات کے باعث اپنی سست رفتاری یا ’گو سلو‘ کی فخریہ باتیں کرتے بھی نظرآ رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے بہت واضح الفاظ میں کچھ عرصہ پہلے انہی کے بارے کہا تھا کہ بیوروکریسی ان کی حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کر رہی،حکومت میں شامل بعض وزرا، کھلے عام نہیں البتہ نجی محفلوں میں بیوروکریسی کے اس روئیے کو اپنے 100 روزہ ایجنڈے پر پوری طرح عمل نہ ہونے کا ذمہ دار بھی قرار دے رہے تھے ، بعض سینئر افسرعدم تعاون کے شکوے سے اس حد تک اتفاق کرتے ہیں کہ موجودہ دور میں سرکاری فائلوں کی رفتار سست ہو چکی ہے،گو سلوکی اس پالیسی کا سب سے بڑا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ جہاں ہر کابینہ اجلاس میں بیس سے پچیس ایجنڈا آئٹم ہوا کرتے تھے، گذشتہ دو ماہ کے دوران ہونے والے کابینہ اجلاس میں چار پانچ موضوعات ہی زیر بحث آ تے ہیں،بیوروکریسی یا افسر شاہی کی حکومت کے درمیان اس خلیج کی بنیادی وجہ سرکاری افسروں میں پایا جانے والا عدم تحفظ کا احساس ہے جس کی بعض بہت ٹھوس وجوہات بھی موجود ہیں۔
وفاق میں حکومت سنبھالنے سے پہلے عمران خان بار بار کہتے رہے کہ وہ پولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک کر دیں گے اور اس موقعے پر وہ ہر بار صوبہ خیبر پختونخوا کی مثال دیتے رہے جہاں ان کے بقول پولیس سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد ہو کر خالصتاً میرٹ پر کام کر رہی ہے،لیکن اسلام آباد اور پنجاب میں حکومت سنبھالنے کے بعد پنجاب اور اسلام آباد کے پولیس سربراہان کی اچانک تبدیلیوں کا سپریم کورٹ کو نوٹس لیناپڑا اور انہیں سیاسی مداخلت کی بدترین مثالیں قرار دیا،اسلام آباد پولیس کے سربراہ کو ایک وزیر کا فون نہ سننے پر برطرف کر دیا گیا،جس کے بعد عدم اعتماد اور بے یقینی کی یہ دھند مزید دبیز ہو گئی،وزراء اس حوالے سے کہتے ہیں کہ اگربیوروکریسی نے وزراء کے کام نہیں کرنے تو الیکشن کا فائدہ کیا؟ وزیراعظم آئی جی نہیں ہٹا سکتا تو الیکشن کیوں کرائے جاتے ہیں؟ اگر ملک بیوروکریسی نے ہی چلانا ہے تو چار افسر اوپر لگاتے ہیں چار نیچے اور ہم گھر چلے جاتے ہیں،یہ وہ معاملات تھے جو میڈیا کی زینت بنے لیکن تحریک انصاف دور میں ملک بھر میں سرکاری افسروں کی تقرریوں اور تبادلوں کے بیسیوں ایسے واقعات ہوئے ہیں جو قابل تشویش ہیں۔
دوسری طرف وفاقی اور صوبائی سطح پر کام کرنے والے بہت سے افسر وزیراعظم سے شاکی رہے کہ نیب اور اینٹی کرپشن اہلکار انہیں بدعنوانی کی تحقیقات اور تفتیش کے نام پر ہراساں کرتے رہے ، اس معاملے کا ایک اور بہت اہم پہلو نیب کا گرفتار افسروں فواد حسن فواد اور احد چیمہ کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک بھی ہے۔تجربہ کار سیاستدان جب حکومت میں نہیں ہوتے تب بھی سرکاری افسروں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں،کہ انہیں نہ صرف ’اندر‘ کی خبریں مل رہی ہوتی ہیں بلکہ حکومت میں آتے ہی یہی افسر سیاسی حکومت کے قریبی افسروں میں شامل ہو جاتے ہیں،ذرائع بتاتے ہیں کہ اس بار نہ صرف یہ کہ ایسا نہیں ہو سکا بلکہ موجودہ حکومت نے اس کام کے لیے جن افسروں کو اہم عہدوں پر لگایا وہ سیاسی حکومت اوربیورکریسی میں قربت یا غیررسمی تعلقات پیدا کرنے میں ابھی تک ناکام رہے ہیں،جس کی بڑی وجہ وزراء اور مشیروں کی ناتجربہ کاری ہے جن کی اکثریت پہلی مرتبہ اہم ریاستی مناصب پر فائز ہوئی ہے۔
اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک آنے کے بعد وہ سرکاری افسر بے اعتمادی اور بے یقینی کی صورتحال سے دوچار ہیں،جو خلوص نیت کیساتھ حکومت کیساتھ تعاون کر رہے تھے وہ پریشان بھی ہیں اور جو موجودہ حکومت میں نظر انداز کئے گئے وہ خوش ہیں کہ اب انہیں مرضی کی پر کشش پوسٹیں ملیں گی،عدم اعتماد تحریک سیاسی معاملہ ہے مگر بد قسمتی سے سرکاری افسر اور بیوروکریسی بھی اب اس کا حصہ بن چکی ہے۔

مصنف کے بارے میں