دھوکہ دہی کی وارداتیں

دھوکہ دہی کی وارداتیں

روایت ہے کہ رومن ایمپائر کے ٹوٹنے کے بعدیورپ کا معاشرہ فیوڈل ہوگیا۔دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے امیر اور غریب کے درمیان بہت فرق آگیا،جس کا اظہار فقیروں، چوروں، دھوکہ بازوں کی شکل میں سامنے آیا، سماج میں طبقاتی نظام کا یہ اثر ہوا کہ بادشاہ، چرچ اور امراء کے پاس نہ صرف دولت اور مالی ذرائع تھے بلکہ وہ مراعات اور اختیارات کے حامل بھی تھے،اسی طرح چوروں اور دھوکہ بازوں کی بھی کئی قسمیں تھیں، ایک وہ تھے جو کھڑکیوں سے کپڑے کھینچ لیتے تھے، گھوڑوں کو چرانے والوں کا بھی ایک گروہ تھا، وہ لوگ بھی اس میں شامل تھے جو پاگل بن کر بھیگ مانگتے یا چوری کرتے تھے۔ سماجی علوم کے ماہرین کا کہنا کہ جس سوسائٹی میں دولت کی تقسیم غیر منصفانہ ہو ایک بڑا طبقہ وسائل سے مسلسل محروم چلا آرہا ہو تو وہاں چوری،دھوکہ دہی کی وارداتیں عام ہو جاتی ہیں، 16ویں صدی میں یہی صورت حال یورپ کے ارباب اختیار کو درپیش تھی، چرچ کی وساطت سے پندو نصیحت بھی کئی گئی سخت سزائیں بھی نافذ ہوئیں مگر کوئی فائدہ نہ ہوا تاوقتیکہ چرچ،بادشاہ، امراء سے دولت لے کر محروم طبقہ کو اس میں شریک نہ کیا گیا۔ 
سائنٹیفک امریکن جریدہ کے مطابق سماجی سائنس دان اب اس فکر میں مبتلا ہیں کہ اس بات کا کھوج لگایا جائے کہ آخر لوگوں کو دھوکہ کیوں دیا جاتا ہے،معاشرہ سے اس کے اثرات کس طرح کم ہو سکتے ہیں، ماہرین نفسیات نے دھوکہ دہی کی چار وجوہات بیان کی ہیں۔ ایک تو زندہ رہنے کی خواہش، دھوکہ باز یہ سمجھتا ہے کہ دھوکہ دیئے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا، دوسرا وہ روبن ہڈ کے اس فارمولا کا قائل ہے کہ چونکہ اسے اس کا حق نہیں مل رہا لہٰذا دوسروں کو لوٹنے کی توجیہہ تلاش کرلیتا ہے، تیسرا وہ سوچتا ہے کہ جب سب ہی ایک دوسرے کو دھوکہ دے رہے ہیں تو وہ اس دوڑ میں کیوں کسی سے پیچھے رہے، چوتھا لوگ اس قدر بے حس ہیں کہ انھیں غلط اور صحیح کافرق ہی یاد نہیں رہا، ان کا کہنا کہ دھوکہ دہی اب ایک بیماری کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
دھوکہ کی تعریف یہ جاتی ہے کہ اگر وہ حقیقت سے بڑھ کر اچھا لگے تو غالباً وہ دھوکہ ہے، بعض اہل دانش یہ کہتے ہیں کہ ہر دھوکہ دہی کا راستہ لالچ کی طرف جاتا ہے، دھوکہ دینے اور کھانے والا دونوں شریک ہوتے ہیں۔ انفارمشن ٹیکنالوجی کے اس عہد میں دھوکہ بازی نے بھی کئی رخ اپنا لئے ہیں، اب یہ کام جدید خطوط پر انجام دیا جاتا ہے، غیر متوقع  
ای۔ میل، فون کال، یا خطوط کے ذریعہ یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ کی کوئی رقم یا فنڈز ہیں جس سے آپ پہلے آگاہ نہیں۔ اس کار خیر میں مذہبی طبقہ کو بھی استثنا نہیں ہے، چند سال قبل پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ایک بہت بڑے فراڈکی رپورٹ شائع ہوئی، جو مضاربہ کمپنی میں سرمایہ کاری سے متعلق تھی، کئی یتیم،بچے اور بیوائیں اس فراڈ  کے نتیجہ میں اپنی دولت سے محروم کر دیئے گئے،  یہ گروہ چالیس اماموں اور مذہبی علماء پر مشتمل تھا۔یہ اطلاعات بھی ہیں یہ کیس نیب میں بھی زیر سماعت رہا، اس فعل سے یہ رجحان بھی سامنے آیا کہ تقویٰ،پرہیز گاری اور مذہب کی تبلیغ کی آڑ میں بھی کچھ جھوٹ بولتے اور دھوکہ دینے کے مرتکب ہوتے ہیں، شائد اسکی وجہ یہ بھی کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ حج، روزہ،نماز کی ادائیگی سے وہ گناہوں سے بری ہو جاتے ہیں۔
گذشتہ دنوں ایک آڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں نئی طرح کی واردات کا تذکرہ تھا، خا تون ٹیچرز کے ایک گروپ میں واقعہ شیئر ہواجو خاندان کے ساتھ پیش آیا،عوامی مفاد میں اس نے دوسروں کو آگاہی دی۔ امر واقعہ یہ ہے،کہ انکی فیملی لیبارٹری میں ٹیسٹ کرانے کی غرض سے گئی، مرد خون کاسمپل لے کر اندرچلا گیا، خواتین گاڑی میں بیٹھی تھیں، سبز رنگ کا چولا پہنے فقیر نے صدا لگائی، خدا ترسی کرتے ہوئے انھوں نے شیشہ کھول کر کچھ رقم دی، اس نے یہ کلمات کہے سب فنا ہو جائے گا اورکچھ مٹی گاڑی میں پھینک کرچل دیا جب انکے شوہر آئے تو دوبارہ گاڑی کی طرف آیا، اس نے دست دراز کیا انھوں نے بھی پیسے دیئے، اس نے پھر کلمات دہرائے اور مٹی پھینک دی، کچھ دیر کے بعد گاڑی میں موجود سب افراد بے حس و حرکت ہو گئے، اس نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور پرس سے رقم نکالی، ہاتھ سے چوڑیاں اتاریں، موبائل فون لئے اور راہ فرار اختیار کی،چند منٹ کے بعد انھیں ہوش آیا تو ان کے ہوش اُڑ گئے، اس مٹی کو لیبارٹری سے جس کے سامنے موجود تھے ٹیسٹ کرایا گیا تو معلوم ہوا خطرناک کیمیکل اس میں شامل تھا۔وہ سب کچھ دیکھ کر بھی رد عمل دینے سے قاصر تھے۔
اسی طرح کی ایک واردات بنک کے سامنے ہوئی، دیہی علاقہ میں کچھ نو سر باز بنک میں موجود ہوتے ہیں، جب کوئی سادہ لوح بڑی رقم لے کر نکلتا ہے تو وہ بھی ساتھ چل دیتے ہیں، ویرانہ دیکھ کر وہ اپنی جیب سے پیسے نیچے پھینک دیتے ہیں،اور شور کرتے ہیں کہ انکے پیسے کسی نے اٹھا لئے ہیں پھر بنک سے آنے والے اس فرد کو تلاشی کے بہانے کچھ سنگھا دیتے ہیں، وہ اپنی Sense میں نہیں رہتا لہٰذا اسکی رقم ہتھیا کر چلتا بنتے ہیں۔  ہر سرکار نوسر اور دھوکے بازوں کی ہر سازش کو ناکام بنانے کی کاوش کرتی ہے مگر یہ بھی نت نئے طریقے دریافت کرتے رہتے ہیں، اسی طرح کی ایک نئی واردات کا علم ہوا ہے، کہ ایک گروہ نے ایک بزرگ خاتون کے گلے میں کارڈ ڈال کر اس پر لکھا یہ نیم پاگل ہے، اگر کسی کو یہ خاتون ملے تو کارڈسے درج نمبر پر مطلع کریں،خاتون بھی اس ”کار خیر“ میں شریک تھی، وہ بھی انجان بن کر ایسی حرکت کرتی رہتی کہ کسی کو شک نہ ہو، جب کال کی گئی تو نوسر باز متعلقہ ایڈریس پر لینے آئے انھوں نے موقع پا کر اہل خانہ پر اسلحہ تان لیا سب کچھ لوٹ کرفرار ہو گئے،نیکی کا یہ صلہ دیا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اگر دھوکہ اور نو سر بازی سے آہنی ہاتھوں سے نہ نمٹا جائے تو یہ معاشرے میں کینسر کی طرح پھیل جاتی ہے اخلاقی تربیت کے ساتھ وسائل کی مساوی تقسیم اور قانون کے بر وقت اطلاق اور سخت سزا سے اس پر قابو پایا جاسکتا ہے، فی زمانہ سوشل میڈیا بھی نو سر بازوں کو بے نقاب کرنے میں اہم کردار دا کر رہا ہے،تاہم افواہوں پر مبنی واقعات کا جائزہ لینا بھی خفیہ اداروں کی ذمہ داری ہے تاکہ معاشرے میں خوف و ہراس کی فضا قائم نہ ہوجائے۔
 راتوں رات  امیر ہونے کے خبط میں سماج کی ایلیٹ کلاس بھی کاروبار کی دنیا میں دھوکہ دہی کو فروغ دینے کا باعث ہے، جس میں بڑا کردار رئیل اسٹیٹ کاروبار کا ہے، بقول پروفیسر اشفاق احمد مرحوم دھوکہ دینے والے کیوں بھول جاتے ہیں کہ اسکے پاؤں ہوتے ہیں اور واپس گھوم کر دھوکہ دینے والے کی طرف ہی لوٹ جاتا ہے۔ تاہم اسکی روک تھام میں انسانی ضمیر ہی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

مصنف کے بارے میں