’’کون سی رُت ہے زمانے میں ہمیں کیا معلوم‘‘

Nawaz Khan Mirani, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

قارئین کرام، اس میں تو کوئی شک اور ابہام نہیں کہ فیصلہ تقابلی کرنے کے لئے سابقہ اور موجودہ اقتدار شاندار کا موزانہ بے لاگ کیا جائے ، جس کے بعد ہی کلمہ حق لکھنے کی گنجائش پیدا ہوتی ہے ۔ 
عام طور پر چہرہ شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے ، اسی لئے پنجاب کے عثمان بزدار اور آج کے ہر لمحے بدلتے سی پی او سے لیکر پنجاب کے نامی گرامی سابقہ پرویز راٹھور کی حب الوطنی اور شرافت پہ شک کرنے کی کوئی گنجائش سمجھ نہیںآتی تھی۔
مناواں پولیس ہیڈ کوارٹر پر حملے پر انہوں نے کہا تھا ، کہ اس میں براہ راست (را) یعنی بھارت ملوث ہے ، مگر رحمن ملک یہ سن کر پہلے تو سیخ پا اور پھر آگ بگولہ ہو کر ان کی جواب طلبی کی بات کرنے لگے تھے ، مگر اس وقت کے پولیس چیف کی بات سن کر اس وقت کے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ ، جنرل خالد لطیف مغل ، جنرل عبدالقیوم وغیرہ دیگر سپہ سالاران وطن بھی تو یہ رائے سر عام کہہ دیتے تھے ، تو پھر کیا وجہ ہے کہ ان فوجی حضرات کے خلاف رحمن ملک کورٹ مارشل کی دھمکی نہیں دیتے؟بات نہیں کرتے ، واضح رہے کہ رحمن ملک اس وقت کے شیخ رشید یعنی وزیر داخلہ تھے ، مزید وضاحت کے لئے میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں، میں نے امجد اسلام امجد صاحب کو ایک دن کہا کہ میری بیگم نے آپ کی بیگم کو فون کیا ، تو آپ کی ملازمہ نے فون اٹھایا اور بتایا کہ بیگم صاحبہ گھر پر نہیں ہیں ، کوئی پیغام دینا ہے تو مجھے دے دیں مگر بیوی خاموش رہی پیغام چونکہ ذاتی نوعیت کا تھا ، امجد صاحب بولے ، اوہو ، چاہے جو بھی پیغام تھا ، بھابی ملازمہ کو دے دیتیں ، وہ بڑے اعتماد کی نوکرانی ہے بس یوں سمجھ لیں میری بیگم کی رحمن ملک ہے ۔ 
اور اس وقت کے جماعت اسلامی کے بے لوث قاضی حسین احمد ، منور حسن ، لیاقت بلوچ اور ماضی قریب و بعید کے عمران خان اور احسن اقبال کو نیب کے شکنجے میں کیوں نہیں جکڑا گیا تھا ، اس لئے پاکستان کے جبکہ پاکستانیوں کی تعداد موجودہ وقت کے مطابق بائیس کروڑ نہیں سولہ کروڑ تھی ، وہ بھی یہی کہتے تھے کہ پاکستان میں دہشت گردیوں میں بھارت ملوث ہے ۔
قارئین محترم … کسی بھی بڑی شخصیت بطور ملزم مطلوب ہو یا مجرم ہو ، تو اس کے گھر کو سب جیل قرار دے دیا جاتا ہے ۔ جیسے سندھ کے سپیکر آغاسراج درانی کو اربوں روپے کی کرپشن کے الزام میں گھر میں بند کر دیا گیا ہے ۔ مگر واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کے دور زرداری میں حکومت نے عملاً پورے ملک کو سب جیل قرار دیکر سوات سے کراچی تک سب کو بند کر دیا تھا ، جیسے آج کل موجودہ حکومت نے پورے ملک کو سب جیل بنا کر حقہ پانی حتیٰ کہ نان و نفقہ کی سہولیات بھی بند کر دی ہیں اور عوام کو لوڈشیڈنگ جو عین اوقات وضو و نماز یا اوقات اہتمام طعام کے وقت ہوتی ہے ، حقائق لوڈشیڈنگ سے پردہ پوشی کرتے ہوئے مکمل اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے اور معمے کو حل کرنے کی کوفت میں مبتلا کر دیا ہے۔ بقول شاہد خاقان عباسی صاحب سابق وزیر اعظم یہ موجودہ حکمرانوں کی وجہ سے گیس کی سپلائی بروقت معاہدہ برآمد نہ کر کے ہم وطنوں کو حل کرنے کی کوفت و کرب میں مبتلا کر دیا ہے۔
سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے والا تو امریکہ کا عملی ایجنٹ تھا مگر اس وقت کس امریکی شخصیت کو ہلال قائداعظم عطاء کرنے کی باتیں کرتے تھے ، اور کن کن کو ایوارڈ دیئے گئے تھے؟ امریکہ نے پٹھانوں اور پختونوں کے خلاف تو تمام تر عسکری صلاحیتیں جھونک دینے کے باوجود جنگ جیتنے کے بجائے بھاگ جانے میں اپنی عافیت جانی جبکہ ہم نے اپنے ہی ملک میں اپنے ہی عوام کو اس مہنگی جنگ میں مہاجر بنا دیا ہے ۔ 
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے ، پاکستان کے دو سیاستدانوں کی تقدیر اور احتجاج تمام تر پاکستانیوں کے چینلرز پہ براہ راست دکھایا جاتا تھا  مگر سوچنا یہ چاہئے کہ اپنے ہی ملک میں عوام کو مہاجر بنا کر اس مہنگی جنگ سے حاصل کیا ہو گا ، پہلے بھی تو پٹھانوں کو مہاجرین بنا کر پورے ملک میں پھیل دیا گیا ہے۔ ادھر متحدہ موومنٹ کی تکرار بیگار ، ایم کیو ایم ، حقیقی ایم کیو ایم لندن وغیرہ وغیرہ ابھی تک بے وطن کیوں ہیں نجانے ان کی بیقراری کو قرار کیسے آئیگا ؟ پاکستان میں تو امریکی ایجنٹ پشتو اور فارسی سیکھ کر اور بھیس بدل کر داڑھی رکھ کر شورش شدہ علاقوں اوروانامیں موجود ہیں جبکہ ازبک اور چیچن باشندے تو ناک نقشے اور حلیے سے دورسے پہنچانے جاتے ہیں ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان  میں ان کا داخلہ کیسے ممکن ہوا؟ جبکہ علاقے کے مکینوں سے ان نووادروں کا پتہ آسانی سے چلایا جاسکتا ہے ، پہلے بھی تو قبائل نے ذمہ داری خوش آئند کا مظاہرہ کر کے تین سو غیر ملکیوں کا گھیرائو کر لیا تھا ۔ مگر اب امریکی صدر کے لئے بے چین ہونے کی کیا ضرورت ہے ، پہلے ہی ہم 33 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان کرا چکے ہیں۔ 
جب حکمران دو عالم دوبارہ نیست کا نعرہ مستانہ بلند کر کے اس اسلامی مصلحت وقت کا سہارا لیتے نظر آتے ہیں، کہ مصلحت پسندی اور جان بچانے کے لئے جھوٹ بولنا جائز ، اور بوقت ضرورت حرام بھی حلال یعنی جائز ہو جاتا ہے۔ 
اس بات کا جواب کون دیگا ، کہ نظام مصطفیٰ ؐ کے بارے میں میری راہ نمائی کریں ، میں فوراً نافذ کر دیتا ہوں تو انہیں یعنی ذوالفقار علی بھٹو کو جواب دیا گیا تھا کہ اس وقت صرف آپ کو ہٹانا مقصود ہے…۔
قارئین محترم ۔ اس کا مطلب ہے ، ہم سب محض اسلام پسند ہیں اسلم بیگ بھی ریٹائر ہو گئے ، جنرل کیانی ، جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ بھی آخر کار ریٹائر ہو ہی جائیں گے… مگر مقاصد فلاح و بہبود وطن کی یہ جنگ مستقبل بعید میں لفظی کامیابی کے باوجود بھی مہنگی پڑیگی۔ تاوقتیکہ عدل و انصاف ، بصورت انقلاب ہمارے گھروں کی دہلیز پہ دستک نہ دے دے ، تو پھر ممکن ہے ، کہ آئے روز تیل کی قیمتیں کیسے بڑھیں ، گیس کی بندش کیوں ہوئی ، روز مرہ اشیاء کی قیمتیں کیسے بڑھیں ، انسانی حتیٰ کہ حیوانی زندگی بچانے والی دوائیں ، مہنگی بلکہ ناپائیدکیوں ہو گئیں ، لوگ گھروں سے بے گھر کیوں ہو گئے ، وزارت خارجہ والوں کو تنخواہ کیوں نہیں مل رہیں، روپیہ ، دھیلے میں کیسے تبدیل ہو گیا ، بدعنوانی ، بے ایمانی میں کیوں بدل گئی ۔ بندہ پروری اقرابا پروری میں تبدیل ہو گئی… طمع طلال وجاہ و جلال و جمال طفل تسلیوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے ، عکاسی امید ویاس نامراد بقول عکاس ہم وطن امجد اسلام امجد ۔ 
کون سی رُت ہے زمانے میں کیا معلوم 
اپنے دامن میں لئے پھرتی ہے حسرت ہم کو