پاکستانی سائنسدانوں کا ایک اور کارنامہ ، بھنڈی سے کپڑا تیار کرلیا 

پاکستانی سائنسدانوں کا ایک اور کارنامہ ، بھنڈی سے کپڑا تیار کرلیا 
سورس: File

فیصل آباد: پاکستانی تعلیمی اداروں  میں اگرچہ سائنسی تحقیق کے لیے سہولیات اور وسائل انتہائی کم ہیں تاہم اس کے با وجود آئے روز ملکی جامعات سے بین الاقوامی سطح کی تحقیقات سامنے آتی رہتی ہیں۔ ایسا ہی ایک کارنامہ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی فیصل آباد کے ٹیکسٹائل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر محسن نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر سر انجام دیا۔ انہوں نے بھنڈی کے ضائع شدہ مواد سے فیبرک تیار کیا ہے۔ 

ڈاکٹر محسن نے  وائس آف جرمنی سے گفتگو میں بتایا کہ اوکرا سے فیبرک کی تیاری کا آئیڈیا نیا نہیں ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں اس پر 2018ء سے کام ہو رہا ہے۔ پاکستان دنیا بھر بھنڈی کی پیداوار میں تیسرے نمبر پر ہے۔ ملک میں تقریبا 45 ہزار ایکڑ رقبے پر بھنڈی کاشت کی جاتی ہے، جس سے سالانہ 180 ملین کلوگرام بھنڈی پیدا ہوتی ہے۔ مگر اس کے تنوں سے پیدا ہونے والا 335 ملین کلوگرام فاضل مواد جلا دیا جاتا ہے جس سے پاکستان  میں فضائی اور زمینی آلودگی میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔

ڈاکٹر محسن بتاتے ہیں کہ ان کی ٹیم کا آئیڈیا  یہ تھا کہ اتنی بڑی مقدار میں ضائع ہو جانے والے مواد کو استعمال میں لایا جائے تا کہ بڑھتی ہوئی آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو پایا جا سکے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اوکرا سٹیم کے فاضل مواد میں تقریباﹰ 67.5 فیصد سیلولوز ہوتا ہے، جس سے بہت سی کارآمد اشیاء تیار کی جا سکتی ہیں۔  

 ایک اندازے کے مطابق اوکرا سٹیم  کا جو فاضل مواد سالانہ جلایا جا رہا ہے، اس سے فیبرک تیار کر کے پاکستان تقریبا 55 کروڑ روپے کا زرمبادلہ حاصل کر سکتا ہے۔

ڈاکٹر محسن نے بتایا کہ اوکرا سے فائبر کی تیاری کا عمل کاٹن کی تیاری سے نسبتا سستا ہے،'مگر ابتدا میں ہمیں بہت سی  تکنیکی دشواریوں  کا سامنا تھا جن میں سوت کی تیاری، اس سے کپڑا بنانا اور پھر رنگنے کا عمل شامل تھے۔ ان پیچیدگیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں اوکرا سے فیبرک کی تیاری ابھی تک محدود ہے۔

مگر یو ای ٹی فیصل آباد کی ٹیم اس عمل میں جدت لائی اور تکنیکی دشواریوں  کو کامیابی سے دور کیا۔ یہ امر یقینا قابل فخر ہے کہ اوکرا سے فیبرک کی تیاری کا یہ نیا طریقۂ کار کیمیائی پیچیدگیوں سے پاک ہے۔

ڈاکٹر محسن کے مطابق، ہم نے ایک چھوٹے سائز کی جدید گھومنے والی لیبارٹری بھی تیار کی ہے، جس میں اوکرا فائبر کو کاٹن اور سوت کے ساتھ بلینڈ کر کے اعلی معیاری کپڑا تیار کیا جاتا ہے۔ یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی لیبارٹری ہے۔ نئے تیار شدہ کپڑے کی رنگائی کا عمل بھی یو ای ٹی ٹیکسٹائل ڈیپارٹمنٹ میں کیا جاتا ہے جس سے یہ پورا عمل انتہائی سہل ہو گیا ہے۔

ڈاکٹر محسن نے بتایا کہ اوکرا سے تیار کردہ فائبر کاٹن کی نسبت سستا ہے اور اس کی تیاری کے لیے خام مال بھی پاکستان میں وافر مقدار میں با آسانی دستیاب ہے۔ تیاری کے عمل میں جن تکنیکی پیچیدگیوں کا سامنا تھا وہ ان کی ٹیم نے دور کر دی ہیں اور پراجیکٹ کمرشل بنیادوں پر لانچ کے لیے بالکل تیار ہے۔

ڈاکٹر محسن کے مطابق کچھ ٹیکسٹائل برانڈز کی طرف سے انہیں اچھا رسپانس ملا ہے مگر وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے لوکل برانڈز کی توجہ دور رس پائیدار پالیسیوں کے بجائے منافع پر زیادہ ہے۔ مگر بین الاقوامی برانڈز  اوکرا فائبر  کی کمرشل پروڈکشن میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اور ان کی ٹیم اس حوالے سے بہت پر جوش ہیں۔

ڈاکٹر محسن کے مطابق اس پوری تحقیق کا سہرا یو ای ٹی لاہور کے وائس چانسلر ڈاکٹر منصور سرور کے سر ہے، جو پاکستانی پراڈکٹس کو پروموٹ کرنے اور مقامی افراد کے مسائل کو حل کرنے میں انتہائی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر سرور دیگر ٹیم اراکین ڈاکٹر امر اور فائنل ایئر کے طلباء مقدس اقبال، علی اسداللہ اور طلحہ امین کی بھی مسلسل حوصلہ افزائی کرتے رہے۔

ڈاکٹر محسن کا کہنا ہے کہ ملک میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور ایسے میں مقامی ٹیکسٹائل اور فیشن برانڈز کو اوکرا فائبر کو فوقیت دینا چاہیے۔ ان کے خیال میں پہلے مرحلے میں اس سے جینز، ٹراؤزرز، بیڈ شیٹ وغیرہ تیار کی جائیں تو نا صرف ٹیکسٹائل سیکٹر میں ملازمتیں بڑھیں گی بلکہ ملکی معیشت کو سنبھلنے کا موقع بھی ملے گا اور  کچھ ہی عرصے میں پاکستان اوکرا فائبر سے تیار کردہ ملبوسات درآمد کرنے کے قابل ہو جائے گا۔

مصنف کے بارے میں