کیسے ہوائیں آئیں گی قابو میں سوچئے

کیسے ہوائیں آئیں گی قابو میں سوچئے

آزادیِ کو 75 برس کا عرصہ گذر چکا ہے۔ خطہ زمین آزاد ہوا لیکن کیا اس پربسنے والے انسان بھی آزاد ہیں ؟۔ کیا جمہوریت، معاشی و سماجی انصاف، فرد اور اس کی رائے کی آزادی جنھیں ریاست کے بانی نے ریاست کے لازمی اجزاء قرار دیا تھا آج تک مکمل شکل میں نافذ ہوسکے ہیں ؟۔ مسکینی، محکومی اور نومیدی ِکے منحوس سائے ابھی تک وطن عزیز پر چھائے ہوئے ہیں۔ قیام سے لے کر آج تک ارباب اختیار و اقتدار نے جہاں بانی کے بہت سے تجربات کیے ۔ لیکن ا ن کے پیچھے گروہی مفادات اور اختیارات کا حصول بنیادی مقصد تھا اور عوام کوحصے میں آئے تو صرف خواب اور نعرے۔جیسے ساحرؔ نے کہا تھا کہ :
یہ جشن یہ ہنگامے دلچسپ کھلونے ہیں
کچھ لوگوں کی کوشش ہے کچھ لوگ بہل جائیں
جو وعدہِ فردا پر اب ٹل نہیں سکتے  ہیں
ممکن ہے کچھ عرصہ اس جشن پہ ٹل جائیں
وطن عزیز کی تاریخ میں ملک اور عوام کی خوشحالی کے کیسے کیسے اچھوتے منصوبے اور شاہکار منشور سامنے نہیں آئے لیکن معاملہ وہی ڈھاک کے تین پات ہی رہا اور بقول غالب ؔ:
ہر قدم دوری منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری رفتار سے بھاگے ہیں بیاباں مجھ سے
برطانیہ نے ہندوستان پرقبضہ فتوحات کے ان اصولوں پر ہی کیا جن پر صدیوں سے جنگجو عمل پیرا رہے ہیں۔ ہر قابض کی طرح انہوں نے بھی مقامی لوگوں پر ہی ایک فوج تشکیل دی جس کے لیے یہاں کے سردار، جاگیردار اور وڈیرے انگریز کے دست و بازو بنے۔ابتدا میں انگریز نے طبقاتی درجہ بندی کو ملحوظ رکھا جس کے مطابق  1930ء تک مقامی لوگ فوج میں کمیشن نہیں پاسکتے تھے ۔ لیکن دوسری جنگِ عظیم کے بعد  افسری اور کمیشن ریوڑیوں کی طرح تقسیم ہوئے جس کے طفیل ایوب خان اور ضیاء الحق جیسے لوگ بھی فوجی افسر بنے اور بعدمیں دونوں نے ملک کے بنیادی نظریاتی ڈھانچوں کے ساتھ افسوسناک کھیل کھیلا۔  انگریز جب ہندوستان سے رخصت ہوا تو بظاہر ملکہ وکٹوریہ رخصت ہوئی لیکن اس رخصتی کے باوجود اختیارات کا مرکز وہی بیورو کریسی ، فوج اور جاگیردار وڈیرے رہے جن کی مدد سے  انگریز نے حکمرانی کی تھی۔ عوام پہلے انگریز کے براہ راست غلام تھے اور تقسیم کے بعد اس کے نمائندوں کے محکوم بنے۔ آج بھی غالبؔکے خطوط اور شاعری اس طرح تازہ ہے اقبالؔ کے انقلابی اشعار مثلاً:
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امرا کے در و دیوار ہلا دو
گرمائو غلاموں کا لہو سوز یقین سے 
کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو
کی عملی تعبیر کے لیے آج بھی ماحول دستیاب ہے۔ تقسیم کے بعد مولانا ابوالکلام آزادؔ کا دلی کی جامع مسجد میں دیا جانے والا خطبہ آج بھی عین حالات کے مطابق محسوس ہوتا ہے۔ کیونکہ وجہ یہی ہے کہ محکومی کا عہد ختم نہیں ہوا ہے ۔ہم آج بھی غلام کی حیثیت میں جی رہے ہیں ، آج بھی غلامی کے خوگر ہیں۔  اقبال کی روحانی جمہوریت اور قائد کے منشور کے نفاذ کے لیے سب سے بڑی ضرورت ایک منظم سیاسی اور عوامی جماعت کی تھی جو بدقسمتی سے وجود نہ پاسکی۔ دوسری بدقسمتی یہ ہوئی کہ قائد کو زندگی نے مہلت ہی نہ دی کہ وہ اپنے سیاسی تصورات کی روشنی میں ایک منظم جماعت اور ایک آئین تشکیل دے پاتے اور نافذ کرسکتے یا ان کے چند نظریاتی جانشین ہی یہ فریضہ انجام دے پاتے۔ سیاست اور جمہوریت کے نام پر ابتدائی ماہ و سال میں جو کچھ سیاست اور اقتدار کے ایوانوں میں ہوا اس سے اور کچھ تو نہ ہوا مگر سول و ملٹری بیوروکریسی جسے مقتدرہ کہا جاتا ہے، کا ملاپ ہوگیا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس قدر طاقتور ہوگیا کہ سیاست دان ان کے محتاج ہوگئے اور اقتدار کا یہ بنیادی اصول طے کردیاگیا کہ مقتدرہ ہر صورت میں اختیارات اور فیصلوں کا حصہ ہوگی بالواسطہ یا حسب ضرورت بلا واسطہ بھی۔ جہاں جہاں بادشاہت رہی وہاں یہ ہی صورتحال ہے کہ مقتدرہ جسے بادشاہت نے تشکیل دیا تھا وہ اس بات پر تیار ہی نہیں کہ وہ لوگوں کی حکومت بننے دے اس کااصرار ہے اقتدار اس کی مرضی سے دیا جائے گا اور اسی کی مرضی ہی سے لیا جائے گا۔ سیاست دانوں اور مقتدرہ میں یہ کشمکش آج بھی جاری ہے، جس کا ایندھن عوام اور ملک کے وسائل بن رہے ہیں۔ 
دوسرا چیلنج جو مملکت خداداد کو درپیش ہے وہ مذہبی ریاست اور قومی ریاست کا ہے۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان کا وجود ایک قومی جمہوری اور فلاحی ریاست کے طور پر وجود میں آیا تھا۔ لیکن ہمارے مذہبی طبقوں کا اصرار ہے کہ یہ ایک مذہبی ریاست ہے۔  تضادات ملاحظہ فرمایئے کہ جب مذہبی ریاست کی بات آتی ہے تو ’’روشن خیال‘‘  طبقہ اس کے خلاف سینہ سپر ہوجاتا ہے لیکن جب ملک میں حقیقی جمہوریت کی بات ہو تو یہ سرمایہ داری جمہوریت کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں کہ اقبال کی روحانی جمہوریت کے نفاذ کے لئے جو جدوجہد درکار ہے  وہ ان کے بس کی بات نہیں۔دوسرا تضاد یہ ہے کہ مذہبی طبقہ جس فکر کو اسلام کے نام پر نافذ کرنا چاہتا ہے اس فکر کے حوالے سے خود مذہبی حلقوں میں شدید فکری اختلافات موجود ہیں۔ 
تیسرا بڑا چیلنج ہمارا فکری اور ادبی انحطاط ہے ۔  ادب جس نے تاریخِ انسانی کے ہر انقلاب میں اہم کردار ادا کیاہے ، ادب کی یہ قسم ہمارے یہاں اب مفتود ہوچکی ہے۔ ادیب جنھیں نظریات کی ترقی اور زوال کی اس کشمکش میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے وہ آج غیر جانبدار ہیں۔ آج کے ادب میں رومانس اور محبت تو ہے لیکن سیاست اور نظریات نہیں ہیں۔
لیکن خدا نے چاہا تو مسکینی ، محکومی اور نومیدی کے سائے چھٹیں گے، خدا کے حکم سے ایسے لوگ سامنے آئیں گے جن کے دل و دماغ تعلیمات اسلامی کے حقیقی مفہوم سے آشنا ہوں گے۔ اس قوم کے وہ نوجوان اٹھیں گے جو حق اور باطل میں تمیز کرسکیں ،ایسے ہی نوجوان اُٹھیں گے بقول شاعر کہ’’ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگیــ‘‘۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے ادیب، دانشور، اساتذہ ہر کس قسم کے تعصب سے بالا تر ہو کر ان کی فکری آبیاری کریں۔ سیاست ، معیشت اور اختیارات پر قابض طبقات کا گٹھ جوڑ اتنا طاقتور ہے کہ اس کے تسلط کو توڑنا آسان نہیں ہے۔جیسا ظفر صہبائی نے کہا کہ :
 یہ مسئلہ نہیں کہ جلیں گے کہاں چراغ
کیسے ہوائیں آئیں گی قابو میں سوچئے