ایک بار پھربھارت کا خواب چکنا چور

ایک بار پھربھارت کا خواب چکنا چور

بھارت جو ہمیشہ سے سلامتی کونسل کا رکن بننے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا تا رہا ہے ،بھارت کی حالیہ کوشش ایک بار پھر ناکام ہو گئی ۔پاک اٹلی گروپ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا توسیعی منصوبہ ناکام بنا دیا۔ پاکستان، اٹلی، ارجنٹائن، اور دیگر ہم خیال ممالک نے ایک بار پھرنام نہاد گروپ آف 4بھارت ،برازیل،جرمنی،اور جاپان کی جانب سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اصلاحات سے متعلق بین الحکومتی مذاکرات کو اگلے اجلاس میں جاری رکھنے کا فیصلہ کیا،اس پیش رفت کو یونائٹنگ فار کنگ (یو ایف سی)کے ممالک کی کامیابی کے طور پہ دیکھا جا رہا ہے ،جو سلامتی کونسل کی مستقل توسیع کے منصوبے کو ناکام بنا دیا ہے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منگل کے روز سلامتی کونسل میں اصلاحات سے متعلق بین الحکومتی مذاکرات کو اگلے اجلاس تک جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے ،مگر سلامتی کونسل مستقل  توسیع کے خلاف ہیں،یو ایف سی ممالک سلامتی کونسل کی غیر مستقل نشستوں میں اضافے کی حامی ہیں ،جن کی مدت طویل ہو اور اور دوبارہ منتخب ہونے کا امکان بھی ہو ،دوسری طرف برازیل،بھارت،جرمنی اور جاپان سلامتی کونسل کے موجود 5مستقل ارکان کی تعداد ،11تک بڑھانے پہ زور دے رہے ہیں،ان سب چیزوں کے پیچھے ایک حقیقت یہی ہے کہ بھارت کسی نہ کسی طرح سلامتی کونسل کا حصہ بن جائے یہ لابنگ گو باہر بیٹھ کے کر رہا ہے اس کے پیچھے صرف یہی ایک مقصد ہے۔
اس سے پہلے انڈیا دو برس کے لیے سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن رہا ،یہ بھی خیال رہے کہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں صرف پانچ مستقل رکن ہیں ،امریکہ،چین،برطانیہ،روس اور فرانس،اور مستقل ارکان کے پاس ہی ویٹو کی طاقت ہوتی ہے یعنی وہ کسی بھی فیصلے کو روک سکتے ہیں ان 5میں سے کوئی ایک بھی رکن کسی فیصلے کو ویٹو کر دے تو وہ قرار داد منظور نہیں کی جاتی اور سلامتی کونسل کے 10عارضی ممبران کے پاس یہ طاقت نہیں ہوتی۔غیر مستقل رکنیت دنیا کے مختلف خطوں کو دی جاتی ہے ،اور اس مخصوص فارمولے کے تحت براعظم ایشیا اور افریقہ سے پانچ،پانچ ممالک کونسل کے غیر مستقل اراکین بنتے ہیں۔
 بھارت اس سے قبل 2011،2012میں بھی کونسل کا بھی غیر مستقل رکن رہ چُکا ہے اور پھربھارت یکم جنوری 2021کو سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن بنا تھا اس کی رکنیت 31 دسمبر 2022 تک جاری رہنی تھی ۔بھا رت کا سلامتی کونسل میں غیر مستقل رکن بن کر اس کا سب سے زیادہ منفی تاثر اُس وقت سے پاکستان پہ پڑا ہے کہ پاکستان ابھی تک بھارت کے دبائو کیوجہ سے پہلے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کیا گیا اور پھر انڈیا کے ہی دبائو پر پاکستان کو گرے لسٹ میں بر قرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا، بھارت جب سلامتی کونسل کا رکن بنا تو اُن کا کہنا تھا کہ اُن کی توجہ تین چیزوں پہ خصوصی ہو گی، سکیورٹی، امن، عمل، اور دہشتگردی کے خلاف جنگ، بھارت کو سلامتی کونسل کی صدارت ایک ایسے وقت میں ملی جب افغانستان میں  طالبان کی پیش قدمی عروج پہ تھی جس کا بھارت نے افغانستان کی سرزمین میں بھر پور مداخلت کرکے اور پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرکے پاکستان کو دہشت گرد قرار دینے میں سر توڑ کوشش کی جس میں کافی حد تک وہ کامیاب بھی ہوا جبکہ پاکستان کو اُس وقت مختلف چیلنجوں کا سامنا تھا ایک یہ کہ پناہ گزیں پاکستان کا رخ نہ کر لیں کیونکہ یہ ایک اضافی بوجھ پاکستان پہ پڑنا تھا جس کی کوئی پلاننگ نہ تھی،دوسرا پاکستان کی سر زمین کو منفی یعنی دہشت گردی کے لیے نہ استعما ل کیا جا سکے، پاکستان ان چیزوں کو قابو کرنے کی طرف مگن تھا کہ انڈیا پھر بھی اپنے منفی پروپیگنڈے میں کامیاب ہو گیا،اب جبکہ پاکستان نے فیٹف کے تمام قوانین کو مکمل بھی کر دیا مگر اب بھی اُن کو گرے لسٹ میں برقرار رکھا جا رہا ہے۔ 
اتنا سب ہو جانے کے بعد بھی پاکستان آج بھی اپنے بھولپن میں رہتا ہے جبکہ بھارت پاکستان پہ وار کرنے کے لیے کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ،جب بھارت سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن بنا تو دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری کی طرف سے یہ بیان جاری ہوا کہ ہمیں امید ہے کہ انڈیا سلامتی کونسل کی صدارت کے دوران غیر جانبدار رہے گااور ہمیں یہ توقع ہے کہ انڈیا اصولوں کے مطابق اپنا کردار ادا کرے گا۔
مگر ان سب کی امیدیں اور بیانات ایک طرف بھارت نے کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہ جانے دئیے،ایل اوسی پہ حملے،سرجیکل سٹرائیک جیسے حربے بھی استعمال کیے پاکستان کے پاس خود کو منوانے کے لیے دو مواقع ملے کہ وہ انڈیا کو دھول چٹا سکے، ایک ابھی نندن جب پکڑا تب، دوسرا انڈین جاسوس کلبھوشن یادیو،مگر میں یہ کہوں گی کہ ہمارے ایل او سی پہ آئے روز پاک آرمی کے جوان شہید کرتے ہیں،بھارت کا چلن دیکھتے ہوئے ہمارے حساس اداروں،اور سکیورٹی اداروں،کو بھی چاہیے کہ ان معاملات پہ زور دے کر اپنا آپ منوائے اور بھارت کو مکروہ ارادوں کو بھی اقوام متحدہ کے سامنے رکھیں۔
اب میں دو اہم باتیں کہنا چاہوں گی جو کہ بھارت کافی عرصے سے سر توڑ کوششوں میں لگا ہے کہ وہ سلامتی کونسل کا رکن بن جائے مگر ہر بار اُس کو منہ کی کھانا پڑی، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُس کو منہ کی کیوں کھانا پڑتی ہے، کیونکہ اس سے پہلے تو وہ دو سے تین بار سلامتی کونسل کا رکن رہ چُکا ہے،سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر دوبارہ وہ سلامتی کونسل کا رکن اگر بن جاتا ہے تو اُس کا پاکستان پہ کیا تاثر پڑے گا یہ بات سب سے اہم ہے۔
سب سے پہلے میں یہ بات کروں گی کہ بھارت کی سلامتی کونسل میں رکنیت کیوں ختم کی اور دوبارہ کیوں  نہیں ملی ،اُس کی سب سے بڑی وجہ بھارت میں بی جے پی نے اور اُس کے اہم رکن بال ٹھاکرے نے جو سر عام بھارتی مسلمانوں پہ مظالم ڈھائے جس کا تاثر پوری دُنیا میں گیا ۔اس کے بعد حالیہ نوپور شرما کا بیان اور پھر مسلمانوں کے احتجاج پہ بھارت میں جو اُن پہ سر عام مظالم ڈھائے جو کسی سے ڈھکے چھپے نہیں،ان اہم وجوہات کی بنا پہ  بھارت کو دوبارہ رکنیت نہ مل سکی۔
اب سب سے اہم پوائنٹ کہ اگر مثال کے طور پہ بھارت سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن اگر بن بھی جاتا ہے تو اُس کا پاکستان کی پوزیشن پہ کیا اثر پڑے گا؟
بھارت کا سلامتی کونسل کا رکن بن جانے سے نہ صرف پاکستان کی پوزیشن پہ گہرا اثر پڑے گا بلکہ پاکستان کے لیے بہت بڑا خطرہ بھی بن سکتا ہے ،بھارت سلامتی کونسل کا رکن بن کے اپنی لابنگ کرے گا ،بھارت کے تو پہلے ہی بہت سے اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں،چند ایک ممالک جن میں ایران، دبئی، سعودی عرب، وغیرہ سرفہرست ہیں اور اگر بھارت سلامتی کونسل کا رکن بنتا ہے تو وہ اپنے تعلقات مزید ممالک سے بہتر کرکے پاکستان کے لیے خطرہ بن سکتا ہے کیونکہ اس سے پہلے بھارت سلامتی کونسل کا رکن بن کے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کر چُکا ہے اور اگر وہ ایک بار پھر سے سلامتی کونسل کا رکن بن گیا تو وہ پاکستان پہ اپنا اگلا وار کرنے سے کبھی گریز نہ کرے گا ،بھارت نے ہمیشہ سے سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی ہے یو این چارٹر میں بھارت کو دو تہائی اکثریت چاہیے۔ بھارت کو مستقل رکن بننے کے لیے 129 ارکان کی حمایت درکار ہے جبکہ بھارت کو نصف ارکان کی بھی حمایت حاصل نہیں۔بھارت کی اس سر توڑ کوشش کے بعد پاکستان کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہئیں پاکستانی سیاست کی کھینچا تانی سے نکل کر خود کو عالمی سطح پہ مضبوط کرنے کے لیے  اپنے تعلقات مسلم ممالک بہتر کرنے چاہئیں تاکہ ملک و قوم کے مستقبل کے بہتر فیصلے ہو سکیں۔

مصنف کے بارے میں