وہ جو چاہتے تھے، ہو گیا

Nasif Awan, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

ایوان زیریں (پارلیمنٹ) جس میں بائیس کروڑ عوام کے نمائندے پائے جاتے ہیں نے ایک ایسا بجٹ منظور کیا ہے جو عام آدمی کی نیند اڑا دے گا کیونکہ اس کے ماہانہ بجٹ میں ہوشربا اضافہ ہو جائے گا بلکہ ہو چکا ہے لہٰذا وہ کہاں سو سکے گا اور جب اس کی آنکھ لگے گی بھی تو بھی اسے مہنگائی کا اژدھا پھنکارتا ہوا دکھائی دے گا۔
اگرچہ ہم اپنے پچھلے دو کالموں میں عرض کر چکے ہیں کہ منی بجٹ ہر غریب کے قہقہے چھین لے گا اور سٹیٹ بینک خود مختار ہو جائے گا جسے عوام نہیں پیسے عزیز ہوں گے مگر اب جبکہ باقاعدہ و باضابطہ ضمنی بجٹ بل ہمارے نمائندوں جنہیں ہر لمحہ عام کا خیال رہتا ہے نے پاس کر دیا ہے تو ایک بار پھر اسے موضوع بنا رہے ہیں۔اس بجٹ کے پاس کرنے میں یہ مصلحت بتائی گئی ہے کہ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو آئی ایم ایف نے قرضہ نہیں دینا تھا جب قرضہ نہیں ملنا تھا تو نظام زندگی کیسے چل سکتا تھا لہٰذا ضروری ہو گیا ہے کہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط کو تسلیم کرتے ہوئے معیشت کی گاڑی کو رواں رکھا جائے۔حزب اختلاف نے بھی اس منطق کو مان لیا مگر اس نے چند ترامیم پر اصرار کیا جنہیں حکومت نے رد کر دیا یعنی من و عن آئی ایم ایف کے احکامات پر عمل درآمد کر ڈالا۔
حزب اختلاف کو چاہیے تھا کہ وہ بجٹ بل پیش کیے جانے کے بعد عوام میں جاتی انہیں ساتھ لے کر آگے بڑھتی ان کے اندر کی بے چینی اور خدشات کو باقاعدہ ریکارڈ پر لاتی مگر وہ خاموش رہی اس نے بس گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے پر ہی اکتفا کیا لہٰذا عام تاثر یہی ہے کہ یہ سب ’’نمائندے‘‘ ایک ہی ہیں ان کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں انہیں لوگوں کی رتی بھر فکر نہیں یہ جو رگیں پھیلا کر تقریریں کرتے ہیں سب دکھاوا ہوتا ہے تا کہ انہیں یہ یقین ہو سکے کہ ایک دھڑا ان کے حق میں ہے جسے آئندہ ’’منتخب‘‘ کیا جائے۔ یہی ان کی حکمت عملی طویل عرصے سے جاری ہے اور عوام بار بار ان سے امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں جو چوہتر برس کے بعد بھی پورا ہونے میں نہیں آ رہیں اور یہ لوگ کھربوں کے مالک بن گئے ہیں۔ انہیں کسی سے کوئی سروکار نہیں کوئی غرض نہیں۔
بہرحال اب اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں خوفناک اضافے کی بات ہو رہی ہے کیونکہ پٹرول گیس اور بجلی کے دام بھی بڑھائے جا رہے ہیں (پٹرول کے بڑھ گئے ہیں ) ظاہر ہے اس سے ہر چیز مہنگی ہو گی یہ جو حکومتی ترجمانوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ نمک مرچ ہلدی وغیرہ پر سیلز ٹیکس نہیں لگایا گیا لہٰذا عام آدمی متاثر نہیں ہو گا ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ یہ چیزیں معمولی استعمال ہوتی ہیں ان پر ٹیکس لگ بھی جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا مگر ان پر ٹیکس لگے گا یا پھر یوں کہہ لیں ان کی قیمتیں بھی بڑھیں گی کہ جب پٹرول و بجلی اور گیس مہنگے ہوں گے تو خودبخود ہر شے مہنگائی کی لپیٹ میں آجائے گی۔ کس قدر یہ حکمران عوام کو دھوکا دے رہے ہیں انہیں بیوقوف بنا رہے ہیں؟
انہیں سوچنا چاہیے کہ لوگوں نے جب کھانے پینے کی اشیا خریدنا ہیں تو انہیں کسی چیز کے مہنگا ہونے کا علم نہیں ہو گا انہیں ضرور ہو گا۔ ( وہ پہلے بھی باخبر ہیں) مگر ان حکومتی نمائندوں کو اس کا ادراک ہی نہیں وہ رٹی رٹائی باتیں کیے جا رہے ہیں ان میں سے بعض اگرچہ یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں وزیراعظم عمران خان کی پالیسیوں سے اختلاف ہے کیونکہ انہیں عوام کے سامنے جانا ہے اور وہ ان سے پوچھیں گے کہ انہوں نے ان کو سہولتیں دینے کے بجائے اذیتیں کیوں دیں مگر یہ محض ایک سیاسی بیان ہے اور کچھ نہیں وگرنہ وہ بل کی منظوری نہ دیتے معیشت کو بحال کرنے کے لیے کوئی دوسرا راستہ اپنانے پر زور دیتے مگر انہوں نے خاموشی سے ہاتھ کھڑے کر دیے۔
اس حوالے سے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ انہوں نے ایسا ہی کرنا تھا کیونکہ فوری طور سے وہ اور کچھ نہیں کر سکتے تھے مگر سوال یہ ہے کہ اس امر کا انہیں پہلے کیوں پتا نہیں تھا کہ قرضے لے کر امور مملکت چلانے میں بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا ہو گا لہٰذا اس کے پیش نظر سنجیدگی سے سوچ بچار کی جائے۔ مکرر عرض ہے کہ یہ لوگ اندر سے ایک ہیں آپس میں بغلگیر ہوتے ہیں ہنستے کھیلتے ہیں اور مل کر عوام عوام کی گردان کرتے ہیں مقصد یہی ہوتا ہے کہ انہیں یہ محسوس ہی نہ ہونے دیا جائے کہ وہ تنہا ہیں مگر یہ سیاسی بہروپیے ہیں انہیں صرف اپنے بینک بیلنسوں میں اضافہ کرنا ہے لہٰذا اس کے لیے روپ بدلتے رہتے ہیں۔
اسی لیے آج تک ہم عوام خود کفیل نہیں ہو سکے انہیں قرضوں کے جال سے چھٹکارا نہیں مل سکا اور اب معاشی طور سے صورت حال انتہائی دگر گوں ہے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک پر مکمل انحصار کیا جا رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ذمہ داران ملک کے درد مند ماہرین معاشیات و اقتصادیات کو ایک جگہ جمع کرتے اور ان کی رائے معلوم کرتے کہ ملک کو اپنے پاؤں پر کیسے کھڑا کیا جائے کیونکہ قرضوں سے معیشت سنبھل نہیں پا رہی مستقبل میں اسے خطرناک حد تک مسائل سے دو چار ہونا پڑ سکتا ہے۔ مگر مجال ہے کسی نے اس پہلو پر غور کیا ہو اگر غور کیا تو یہی کہ کہاں سے کتنا مال کمایا جا سکتا ہے کون سے ایسے منصوبے ہیں اور سکیمیں ہیں جن سے ان کی تجوریاں بھر سکتی ہیں وگرنہ کوئی ایسی بات نہیں تھی کہ ہم ان مالیاتی اداروں کے چنگل سے آزاد نہ ہو جاتے بہت سے ممالک نے ان سے اپنی جان چھڑا لی ہے مگر ہمارے سیاستدان و حکمران ایسی پوزیشن میں نہیں کہ وہ آئی ایم ایف سے کہیں کہ ان کے عوام پر وہ جو کڑی شرائط عائد کر کے انہیں ذہنی و جسمانی اذیت دے رہے ہیں انہیں کسی طور منظور نہیں لہٰذا وہ نعرہ مستانہ بلند کرتے ہیں۔
موجودہ وزیراعظم نے اگرچہ بڑے جوش و جذبے کے ساتھ کہا تھا کہ وہ آئی ایم ایف سے رجوع نہیں کریں گے مگر اقتدار میں آنے کے بعد وہ بھی نمک کی کان میں نمک ہو گئے۔ انہیں بھی سٹیٹس کو کی حمایتی قوتوں نے اپنے راستے کا مسافر بنا لیا لہٰذا اب وہ قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں سے حساب کتاب کے بجائے عوام کا احتساب کر رہے ہیں اور ان کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑنے کا ارادہ ظاہر کر رہے ہیں۔ ان کے اس طرز عمل و فکر پر عوام کی غالب اکثریت ان سے کہہ رہی ہے کہ وہ بس کر دیں اور اقتدار سے الگ ہو جائیں کیونکہ انہیں سوچنے والے دماغ نہیں میسر آ سکے جنہوں نے عوام کے لیے آسائشوں اور سہولتوں سے متعلق غور کرنا تھا اور راستے تلاش کرنا تھے۔
حرف آخر یہ کہ ہم وہ لوگ ہیں جو خواب ضرور دیکھتے ہیں مگر ان کی تکمیل کے لیے جدوجہد نہیں کرتے لہٰذا ہم پر ایسے حکمران مسلط ہو جاتے ہیں جو عوام کی نہیں آئی ایم ایف ایسے مالیاتی اداروں کی سنتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں جس سے عوام کی زندگیاں بے کیف ہو جاتی ہیں۔

مصنف کے بارے میں