ضمنی بجٹ اور اس کے اثرا ت

Dr Ibrahim Mughal, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

یہ تو ہو نا تھا، اور ہو گیا۔ وہ یہ کہ قومی اسمبلی میں ضمنی بجٹ پر حزب اختلاف کی ترامیم کو مسترد کرتے ہوئے مسودہ قانون کی منظوری دے دی گئی ۔ آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر قرض کے لیے پاکستان کو پہلے سے طے شدہ ٹیکسوں او رڈیوٹیز بڑھانے کا جو ہدف دیا گیا، ضمنی بجٹ اس مقصد کو پورا کرے گا۔ 343 ارب روپے کے مزید ٹیکس وصول کرنے کے لیے حکومت نے قریب ڈیڑھ سو اشیاء کی قیمتوں پر یکساں 17 فیصد کی شرح سے جنرل سیلز ٹیکس نافذ کردیا ہے۔ ان میں سے بیشتر اشیاء عام آدمی اور روزمرہ استعمال کی ہیں۔ سیدھی بات ہے کہ اشیاء کی قیمت پر واجب الادا ٹیکس کی شرح میں اضافہ قیمتوں میں شامل ہوگا جس سے قیمتیں بڑھ جائیںگی۔ مگر وزیر خزانہ شوکت ترین تسلی دے رہے ہیں کہ اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا؛ تاہم عام آدمی کی سمجھ میں ریاضی کا وہ کلیہ نہیں آرہا جو ہمارے معیشت دان وزیر خزانہ کی عقل رسا کی دسترس میں ہے۔ وہ اشیائے ضروریہ جو آج تک جی ایس ٹی سے مبرا تھیں یا ہر فرد کی ضرورت کے جن اشیا پر اس ٹیکس کی شرح کم رکھی گئی تھی، اب اگر ان سبھی اشیا پر بلا تخصیص 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس عائد ہوگا تو اس سے قیمتوں میں اضافہ کیونکر نہ ہوگاـ؟ اگر قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوتا تو حکومت کا یہ طے کردہ محصولاتی ہدف کیونکر حاصل ہوگا؟ یہ سوال معیشت کی سوجھ بوجھ رکھنے والوں کے لیے ہوسکتا ہے زیادہ الجھائو کا باعث نہ ہو مگر عام آدمی کے لیے یہ ایک الجھا ہوا مسئلہ ہے۔ حکومت عوام کو مسلسل مہنگائی کی چکی میں پیستی چلی جارہی ہے مگر یہ ماننے کو تیار نہیں۔ بجلی، پٹرول، ڈیزل، گیس، خوراک اور ادویات کی قیمتوں سے لے کر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی شرح مبادلہ تک ہر شے کی قیمت حالیہ چند برس کے دوران حیران کن حد تک بڑھ گئی ہے۔ اس سب کچھ کا بوجھ ظاہر ہے فرد کی معیشت پر پڑتا ہے، مگر حکومت کا رویہ اس معاملے میں بدستور ’میں نہ مانوں‘ والا ہے۔ مہنگائی کی ذمہ داری کبھی کورونا کی عالمگیر وبا اور کبھی عالمی سطح کے بحران پر عائد کرکے حکومت مہنگائی کی اس یورش سے سرخرو نکل جانا چاہتی ہے،۔ مگر کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ شاید ہی کوئی مہینہ ہو جب عوام کو بجلی اور تیل کے نرخوں میں اضافے کے کڑوے گھونٹ نہ بھرنا پڑتے ہوں۔ ڈالر کی قدر پچھلے تین سال میں 121 روپے سے بڑھ کر اب 176 سے تجاوز کرچکی ہے اور توانائی کی قیمتوں کی طرح ڈالر کی قدر بھی مسلسل تغیر پذیر ہے۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اشیا کی قیمتوں پر ڈالر کی مہنگائی کے کس طرح اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ملکی پیداوار مسلسل گراوٹ کا شکار ہے اور درآمدی اشیا سے طلب پوری کی جاتی ہے۔ درآمدی اشیا میں اضافہ، خاص طور پر خوراک اور عام ضرورت کی اشیا کی تجارت میں اضافہ ملکی وسائل سے طلب پوری کرنے میں ناکامی کا واضح اشارہ ہے، مگر ہمارے معاشی ذمہ داران بڑھتے ہوئے تجارتی 
خسارے میں سے بھی حسنِ کارکردگی کے جواز نکال لیتے ہیں۔ گزشتہ مالی سال کے دوران فوڈ گروپ کی درآمدات میں 54 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا او روطنِ عز یز  نے آٹھ ارب 34 کروڑ ڈالر کی اشیائے خوراک درآمد کیں۔ یہ ایک زرعی معیشت کے دعویدار ملک کی حالت ہے۔ حکومت ڈالر کی قدر کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے محاسن گنواتی ہے مگر یہ احساس نہیں کرتی کہ جو ملک اپنی خوراک کی ضروریات بھی پوری نہیں کر پارہا اور تجارتی خسارے میں مسلسل اضافے کا سامنا ہے، ڈالر کے فری فال سے اس کی معیشت اور عوام کی حالت کیا ہوگی۔ عوام کی معاشی حالتِ زار سے خیر اس کا اندازہ کیا ہی جاسکتا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی تاریخی گراوٹ کا بنیادی سبب تجارتی خسارہ ہے اور ڈالر کی سمگلنگ، مگر حکومت دونوں پر قابو پانے میں ناکام ہے۔ نہ برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ کرکے تجارتی خسارے کو کم کیا جاسکا اور نہ ہی سمگلنگ کی روک تھام یقینی بنائی جاسکی۔ اُلٹا حکومت نے ڈالر کی مہنگائی کو معیشت کے لیے سودمند عامل کے طور پر پیش کیا اور کبھی سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات کی آڑ میں مہنگے ڈالر کی وکالت کی۔ ملکی کرنسی کی گراوٹ نے اگرچہ ہر شعبہ زندگی کو متاثر کیا ہے مگر خوراک اور توانائی کی مہنگائی خاص طور پر قابلِ ذکر ہے جو اب ایک بحر بے کنارکی صورت اختیار کرچکی ہے جس میں پاکستانی عوام بے یارومددگار ڈوب رہے ہیں۔ اب ’مرے کو مارے شاہ مدار‘ کی صداقت ضمنی بجٹ سے ثابت ہوجائے گی، جس کی صفائی دیتے ہوئے وزیرخزانہ کہتے ہیں کہ مہنگائی نہیں ہوگی، مگر 343 ارب کے اضافی ٹیکس کیونکر وصول ہوں گے، اگر یہ عوام کی جیب سے نہیں نکلیں گے تو کہاں سے ٹپک پڑیں گے؟ ہمارے سرکاری معیشت دانوں کو ایسے سوالات سے سروکار نہیں۔ سپلیمنٹری بجٹ پر حزبِ اختلاف کی جملہ ترامیم کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اپنی مرضی کے مسودئہ قانون کی منظوری کو حکومت پارلیمانی فتح سے تعبیر کرسکتی ہے مگر حقیقت میں مہنگائی کے اس نسخے کی منظوری نے حکومت کو مزید کمزور اور عوامی نظر میں مزید غیرمقبول بنادیا ہے۔ سپلیمنٹری بجٹ پر حکومت کے اندر کی کیا کیفیت ہے، وزیراعظم کی سربراہی میں گزشتہ روز پارلیمانی پارٹی اجلاس میں حکومت کے بعض اہم وزرا کی جانب سے تحفظات کے اظہار سے یہ واضح ہوجانا چاہیے۔ حکومت کے بعض اتحادیوں کی جانب سے بھی ایسے حکومتی فیصلوں پر عدم اعتماد اب ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ حکومت اپنی تالیف قلب کے لیے جواز پیش کرسکتی ہے کہ اس کا وضع کردہ مسودہ قانون اکثریت رائے سے منظور ہوگیا یہی حکومت پر اعتماد کا اظہار ہے، لیکن دراصل ایسا نہیں ہے۔ ہمارے جیسے کمزور جمہوری اقدا کے حامل معاشروں میں اختلافِ رائے کے اظہار کی آزادی کا چلن نہیں؛ چنانچہ اپنے نکتہ اعتراض کو چھپا کر رکھا جاتا ہے یہاں تک کہ اظہار کا موقع بن جائے۔ سپلیمنٹری بجٹ کے حق میں یا مخالف ووٹ دینے سے قطع نظر یہ حقیقت ظاہر و باہر ہے کہ حکمران جماعت کے اپنے بعض اہم رہنما بھی اب حکومت کے فیصلوں کی ذمہ داری سے گھبراہٹ کا شکار ہیں۔ پارلیمانی سیاست اور عوام کا مزاج سمجھنے والے رہنمائوں کا تذبذب بے وجہ نہیں۔ کہتے ہیں آخری تنکا اونٹ کی کمر توڑتا ہے اور حکومتی فیصلے مسلسل عوام کی کمر توڑ رہے ہیں۔ ضمنی بجٹ کی منظوری کے روز بجلی کے ٹیرف میں چار روپے تیس پیسے فی یونٹ اضافے کا اعلامیہ بھی آچکا تھا جبکہ تیل کی قیمتوں میں اضا فہ بھی سب کے سا منے ہے۔ بجلی اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ بذاتِ خود مہنگائی کا بڑا مضبوط محرک ثابت ہوتا ہے۔ اب اس میں منی بجٹ کے اثرات بھی شامل ہوں گے تو مہنگائی دو آتشہ ہوجائے گی۔ تعجب کی بات ہے کہ حکومت یہ سب اپنے چوتھے سال میں کر رہی ہے جب زیرک سیاسی جماعتیں انتخابات کی تیاری کے لیے ذہن سازی شروع کردیتی ہیں، مگر تحریک انصاف کی حکومت بجلی، تیل، خوراک اور دیگر اشیائے ضروریہ کی مہنگائی کے ذریعے عوام کی جو ذہن سازی کررہی ہے اس کی سیاسی قیمت خارج از امکان نہیں۔ شاید بعض سیاسی رہنما اس کا احساس کرنے لگے ہیں۔

مصنف کے بارے میں