میڈیکل کالجز کو نیشنلائز نہ کیا جائے، حکومت سرپرستی کرے 1 ارب ڈالر بچا سکتے ہیں: صدر پامی پروفیسر ڈاکٹر چوہدری عبدالرحمن

میڈیکل کالجز کو نیشنلائز نہ کیا جائے، حکومت سرپرستی کرے 1 ارب ڈالر بچا سکتے ہیں: صدر پامی پروفیسر ڈاکٹر چوہدری عبدالرحمن

لاہور : پامی کے صدر پروفیسر ڈاکٹر چوہدری عبدالرحمن  نے کہا ہے کہ  نجی میڈیکل کالجز کو نیشنلائز نہ کیا جائے  سنٹرل انڈکشن پالیسی جیسے اقدامات کی روک تھام  ضروری ہے۔ حکومت ہمیں ڈرانے کے بجائے کام کرنے دے اگر میڈیکل کالج کی سرپرستی کی جائے توہم سالانہ   ایک بلین ڈالر سے زیادہ  بچا سکتے ہیں۔

پاکستان ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ میڈیکل اینڈ ڈینٹل انسٹی ٹیوشنز کے صدر پروفیسر ڈاکٹرچوہدری عبدالرحمن   نے پامی کی  ہنگامی میٹنگ کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کر تے کہا کہ ستر ملین ڈالر ہر سال میڈیکل ایجوکیشن کیلئے ملک سے باہر چلا جاتا ہے۔ہمیں دوسرے ممالک سے آنے والے طلباء کو بھی داخل کرنے کی اجازت دی جائے ۔

انہوں نے کہا کہ اربوں روپے کے میڈیکل کالجز بنائے ہیںکروڑوں روپے ماہانہ اخراجات ہیں اگر حکومت سرکاری ہسپتالوں کی طرح ہمیں بجٹ دے  تو بچوں کو مفت پڑھانے کیلئے بھی تیار ہیں۔وزیراعلیٰ پنجاب جیسے سرکاری ہسپتال ٹھیک کر رہے ہیں۔ویسے ہماری بھی سرپرستی کریں ۔ہم اپنا حق استعمال کریں گے اپنے داخلہ خود کریں گے اگر کسی طالبعلم نے کسی اور ادارے کے ذریعے پیسہ جمع کروا کے داخلہ لینے کی کوشش کی تو وہ خود ذمہ دار ہوں گے جو طالبعلم کالجز کو فیس دے گا صرف اسی کا داخلہ کیا جائے گا۔

پروفیسرڈاکٹر چوہدری عبدالرحمن کا کہناتھا کہ ایک میڈیکل کالج بنانے کیلئے آٹھ سے دس ارب روپے خرچہ آتا ہے۔ ان کالجز کو حکومتی سرپرستی کی ضرورت ہے، حکومت ان بچوں کو داخل کروانا چاہتی ہے جو فیسیں نہیں دے سکتے ہمیں پانچ سو بیڈ کا ہسپتال مفت چلانے کا کہاجاتا ہے اگر ہم مفت داخلہ کریں گے تو ہسپتال اور کالج کیسے چلائے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ ہم اس طرح اربوں روپے ملک کو کما کر دے سکتے ہیں۔ ہماری گزارش ہے کہ حکومت ہمیں ڈرائے نہ بلکہ کام کرنے دے حکومت نے کہا ہے کہ ساٹھ فیصد سے نیچے والے طلباء کو داخل نہیں کرنا ہم نہیں کریں گے لیکن ہمیں  باقی معاملات کو دیکھنے دیں اگر ہمیں زیادہ تنگ کیا گیا تو ہم اپنی کالجز اور ہسپتالوں کی چابیاں حکومت کو دے دیں گے کہ آپ خود ہی ہسپتال اور کالج چلا لیں۔ 

ان کا کہنا تھا کہ ہم نگراں وزیرِ اعلیٰ کے کام کی تعریف کرتے ہیں لیکن انہیں ہمارے متعلق جو تصویر دکھائی جا رہی ہے وہ غلط ہے۔ وی سی یو ایچ ایس میرٹ پر ساتویں نمبر میں تھے لیکن انہیں وی سی لگا دیا گیا ان کا اپنا کیس عدالت میں چل رہا ہے۔ یو ایچ ایس ہر سال پانچ اعشاریہ پانچ فیصد ہم سے بھتہ لیتی ہے ہمیں بتایا جائے وہ پیسہ کہاں جاتا ہے۔

یو ایچ ایس  کے پاس فیکلٹی اور سٹاف ہی پورا نہیں ہے یہ کیسے کام کر رہے ہیں ان کے پاس کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز پر سٹاف ہے جو خود میرٹ پر نہیں آئے اور ایک نجی کالج بھی نہیں چلایا حکومت ان سے ہمارے متعلق مشورہ لے رہی ہے گزشتہ سال بھی بدانتظامی ہوئی تھی لیکن یو ایچ ایس نے کچھ نہیں سیکھا۔

مصنف کے بارے میں