رُشدی کی ذلت آمیززندگی

رُشدی کی ذلت آمیززندگی

مسلم گھرانے میں آنکھ کھولنے والا بھارتی نژاد،برطانوی شہری اس وقت موت و حیات کی کشمکش ہے،وہ قوت گویائی سے بھی محروم ہو چکا، گمان یہ ہے کہ اسکی باقی حیاتی اسی کرب اور اذیت میں گذرے گی،اس کاجرم یہ ہے کہ اس نے اپنے قلم سے کروڑوں مسلمانوں کا دل دکھایا ہے،اللہ تعالیٰ نے جو خدا داد صلاحیت اسے عطا کی،وہ اسے انسانوں کی بہتری کے بجائے ابتری کے لئے استعمال کرتے ہوئے سستی شہرت پانے کا مرتکب ہوا، دنیا میں بہت سے معروف ناول نگار بھی ہیں جنہوں نے ہزاروں افراد کے نظریات اور عقائد کو سیدھی راہ پر ڈال دیا، مگر یہ ناول نگار اپنی مکروہ حرکات کی بدولت زندگی کی تمام رعنائیوں سے محروم اور قید تنہائی کی سی زندگی بسر کرتا رہا، تاآنکہ کسی تقریب میں چاقو کئے حملہ کی زد میں آکر بستر مرگ پر دراز ہوا۔
80 کی دہائی میں جب اس نے متنازع ناول”سیاٹانگ ورسز“ لکھا تو اس کے ایک سال کے بعد ایران کے رہبر آیت اللہ خمینی ؒنے ایک فتویٰ کے ذریعہ اسے موجب قتل قرار دیا اس کے سر کی قیمت پر30 لاکھ ڈالر انعام رکھا،بعض ذرائع کہتے ہیں کہ اس نے اپنی تصنیف پر معافی مانگی، باوجود اس کے فتویٰ اپنی جگہ قائم رہا،اس کتاب کے مترجم بھی مارے گئے تھے، کہا جاتا ہے کہ سلیمان رشدی نبی مہربان ؐ کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہوا،اس نے یہ فعل اظہار آزادی کے نام پر کیا، مگر یورپ کی عدالتوں نے اپنے فیصلہ میں پیغمبر کے بارے میں غلط جذبات کو اظہار آزادی سے تعبیر نہیں کیا تاہم ملکہ الزبتھ نے ناموس رسالتؐ کے اس مجرم کو”سر“ کا خطاب دے کرتعصب کا مظاہرہ کیا۔  ایک عیسائی مصنف مائیکل ہارٹ نے اپنی شہرہ آفاق کتابThe Hundard میں رقم سو شخصیات میں سے نبی آخر الزماں ؐ کو دنیا کے عظیم ترین انسان کامل قرار دیااور کہا وہ پوری نسل انسانی میں سید البشرہیں، مغرب کا فاتح اعظم نیپولین بونا پاٹ کہتا تھا کہ میں تعلیم یافتہ،عقل مند لوگوں پر مشتمل فوج قرآن کی تعلیمات پر بناکر اسکی قیادت کروں، یہ نبی مہربانؐ ہی کا کارنامہ ہے کہ قلیل مدت میں لوگوں کی کثیر تعداد نے بتوں کی پوجا چھوڑ کر خدائے واحد کی پرستش کو اختیار کیا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ صلیبی جنگوں میں پے در پے مسلمانوں کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد 
یورپ میں اہل کلیسا نے علمی محاذ پر تیاری اور متشرقین کی ایک فوج تیار کی جس نے اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کئے،اپنی تحریروں میں اسلام کو ایک خوں خوار مذہب کے طور پر پیش کیا اسکی مناسبت سے آخری نبی ؐ کی شخصیت کو داغ دار کرنے کی ناپاک جسارت کی۔ ۱۴ سال کی عمر میں برصغیر سے برطانیہ ہجرت کرنے والے رشدی  نے بھی اس نام نہاد فلسفہ سے متاثر ہوکر اپنا عقیدہ تبدیل کیا۔ 
ہندوستان سے غیر مسلم ہندو مصنف رلیا رام گولائی نے”سوانح عمری محمدؐ لکھی، اور اعتراف کیا کہ ۲۳ سال کی قلیل مدت میں آپ ؐ نے برائیوں کو مٹانے اور نیکی کی جانب راغب کرنے کا کام با احسن خوبی انجام دیا۔ڈاکٹر این۔اے سنگھ نے سیرت ؐ پر ایک کتاب لکھی اور تسلیم کیا کہ انھوں نے تعصب سے خالی عدل کا علمی نمونہ پیش کیا، اس سے ریاست کا حکمران بھی عام شہری کی مانند ہو جاتا ہے۔ منشی پریم چند نے ا سلامی تہذیب کے نام تلخیص میں عدل و انصاف، مساوات، اخوت پر بحث کی ہے اور آپ ؐ کے ارشادات سے اپنی بات کو مدلل کیا ہے۔
نائین الیون کے پر آشوب دور میں بھی یورپی ممالک کے ہزاروں باشندوں نے شعوری طور پر اسلام کو بطور مذہب اپنایا ہے، رشدی اگر تعصب کی عینک اتار کر سیرت ؐ کا مطالعہ کرتے تو وہ اپنی قابلیت کی بدولت دنیا اسلام میں ایک مرتبہ پاتے،قرآن و سیرت کی صورت میں ہر سو پھیلی روشنی بھی اِنکی آنکھوں کو خیرہ نہ کر سکی، برطانوی خطاب ”سر“ نے آنکھوں پر ایسی پٹی باندھی کہ انھیں روشنی میں بھی اندھیرا نظر آتا رہا، وہ ہدایت جو انھیں وراثت میں والدین کی طرف سے ملی،اپنے ہاتھوں سے اس کا گلا گھونٹ دیا، اسکی دوسری بد قسمتی یہ ہے دنیا اور آخرت میں رسوائی نے اسے اپنے والدین کے لئے صدقہ جاریہ بننے سے بھی محروم کر دیا۔ مغرب کی اندھی تقلید میں وہ یہ بھول گیا کہ برطانوی جمہوریت نے1881 میں قانونی شکل دے کر عورت کو جو وراثت کا حق دیا، نبی مہربان ؐ نے کئی سو سال پہلے یہ حق خواتین کو قرآن کی تعلیم کی روشنی میں دیا تھا۔
ایک سے زائد مقامات پر اللہ تعالی نے نبی مہربانؐ کو اپنا محبوب قرار دیا، انسانیت کا محسن کہا، رحمت العالمین کا لقب دیا،  اس کے بعد کسی تنگ نظر مصنف کی رائے کو بھلا کیسے اہمیت دی جاسکتی ہے؟ وہ مبارک ہستی جس کا قول ہے کہ مزدور کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے دو، جانور کو ذبح کرو تو آلہ کی دھار تیز تر ہو، تم میں بہتر مسلمان وہ جس کے ہاتھ اور زبان سے اپنے بھائی کو نقصان نہ پہنچے،جس نے ایک انسان کی زندگی بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچا لیا،آپؐ کا خطبہ حجۃ الوداع پوری انسانیت کے لئے منشور کی حیثیت رکھتا ہے، انسانی حقوق کے علمبردار آپ ؐ کی تعلیمات کے سامنے ہیچ نظر آتے ہیں، پہلی سانس سے لے کر موت کی آخری ہچکی تک کی ساری راہنمائی پورے عالم کے لئے آپ ؐ کی سیرت میں محفوظ ہے،خوش قسمت ہی اس سے استفادہ کرتے ہیں۔
فتح مکہ میں تحمل، بردباری، دانش، حکمت کی کوئی مثال دنیا کے بڑے بڑے سپہ سالار پیش کرنے سے قاصر ہیں، گلوبل ولیج کے اس عہد میں ہندوستانی معاشرہ شودر اور برہمن میں منقسم ہے، یورپ،امریکہ کے سماج نے تاحال کالے اور گورے کی برابری کو دل سے قبول نہیں کیا، لیکن آپ ؐ نے فتح مکہ کے موقع پر سیکڑوں سرداروں کے سامنے حبشی غلام حضرت بلال ؓ کو کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دینے کا حکم صادر فرما کر تمام عصبیتوں کے بت توڑ دیئے۔ 
یہ بونے مصنف جب سیرتؐ کے بارے میں تحریف کرتے ہیں تو سچ جانیں کہ ہمارا خون کھول جاتا ہے، اس طرح کے نام نہاد دانشور ہمارے نبیؐ کی جوتی کی خاک کے برابر نہیں ہیں، لہٰذا مغرب کی مقتدر کلاس پر بھی لازم ہے کہ وہ ایسے بد بختوں کو پناہ دے کر اپنی مشکلات میں اضافہ نہ کرے، اور امت مسلمہ کا امتحان نہ لے، ہمارے لئے تو تمام انبیاء معتبر، معزز اور احترام کے قابل ہیں،یہ تعلیمات بھی ہمارے آقاؐ نے عطا کی ہیں۔
 رشدی یورپ میں اپنی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام کی خدمت کا فریضہ انجام دے سکتا تھا، برصغیر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر حمید اللہ نے اپنی زندگی فرانس میں بسر کرتے ہوئے ہزاروں غیر مسلموں کو اسلام کی حقانیت سے روشناس کرایا، ڈاکٹر ذاکر نائیک بھی خیر کا یہی کام کر رہے ہیں، صد افسوس۔ معمولی فائدہ کے لئے رشدی نے ابو لہب، ابو جہل کی طرح ہلاکت کے اس راستہ کا انتخاب کیا جو سیدھا جہنم کی طرف جاتا ہے۔
نبیؐ ؐ کی شان کے بارے میں نازیبا الفاظ کہنے والے اگر چاند پر بھی چلے جائیں گے تو مسلم نوجوان وہاں بھی انکا پیچھا کریں گے، رشدی تو پھر بستر مرگ پر ہے، اب ذلت جس کا مقدر ہے مگر ہمارے نبیؐ پر انسان تو کیا فرشتے درود بھیجتے ہیں، اس طرح کی عبرت ناک زندگی اور موت ان کا نصیب ہوتی ہے، جو اپنی اوقات بھول جاتے ہیں، رشدی ان بد قسمتوں میں سے ایک ہے۔

مصنف کے بارے میں