اقوال حضرت امام حسینؓ

Taufeeq Butt, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

(دوسری وآخری قسط۔ گزشتہ سے پیوستہ)!!
اے لوگواِن ملامت و سرزنش سے عبرت حاصل کرو جو اللہ نے علماء یہود کو پندونصیحت کے طورپر کی تھیں، جب اللہ نے فرمایا ”علمائے یہود نے اہلِ یہود کو گناہ آلود باتوں سے کیوں نہیں روکا، اور ارشاد فرمایا ”گروہ بنی اسرائیل سے وہ لوگ جو کافر ہوگئے (حضرت داؤد ؑاور حضرت عیسیٰ ؑ کی زبان پر ملعون قرار پائے، یہاں تک کہ ارشاد ہوتا ہے ”وہ کتنے ناپسندیدہ کاموں کو انجام دیتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اللہ کو اِن کی بات ناگوار گزری کہ وہ ستم گروں اور ظالموں کے ناروافعال کو دیکھتے تھے اور اُنہیں منع نہ کرتے تھے، کیونکہ وہ ستم گروں کی طرف سے ملنے والے مال پر حریص ہو جاتے تھے اور اعتراض کی صورت میں وہ اِس کے انجام سے ڈرتے تھے، اِسی لیے اللہ نے ارشاد فرمایا ”مجھ سے ڈرو، لوگوں سے نہ ڈرو۔ اور یہ بھی فرمایا ”مومن مردوعورت ایک دوسرے کے بھائی ہیں جو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور بُرائیوں سے روکتے ہیں، اگر کوئی شخص لوگوں کی رضایت و خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اللہ کے غیض و غضب کا باعث بنے تو اللہ بھی اُسے لوگوں کے حوالے کردیتا ہے، اُس شخص پر ظلم وستم کرنے سے ڈرو جس کا خدا کے علاوہ کوئی اور مددگار نہ ہو…… جو تم پر زیادہ تنقید کرتا ہے وہ تمہارا واقعی اور حقیقی دوست ہے  اور جو تمہاری تعریفیں کرتا ہے وہ گویا تمہارا دُشمن ہے“……حق کی پیروی سے ہی عقل کامل ہوتی ہے…… اللہ کے خوف سے گریہ زاری کرنا آتش جہنم سے نجات کا باعث ہوتا ہے…… ایک شخص حضرت امام حسین ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا، کہنے لگا ”میں ایک گناہ گار ترین انسان ہوں، مجھے کچھ نصیحت فرمائیے۔ حضرت امام حسین ؓ نے فرمایا پانچ کام بجالاؤ اُس کے بعد جو چاہے کرو۔ پہلا کام یہ کہ اللہ کا عطا کردہ رزق استعمال نہ کرو۔ پھر جو تمہارا جی چاہے گناہ کرو۔ دوسرا کام یہ کرو کہ اللہ کی حکومت سے خارج ہو جاؤ۔ اُس کے بعد جو تمہارا جی چاہے کرو، تیسرا کام یہ کہ کسی ایسی جگہ پر چلے جاؤ جہاں خدا تمہیں دیکھ نہ سکے، وہاں جو تمہارا جی چاہے گناہ کرو۔چوتھا کام یہ جب عزرائیل تمہاری روح قبض کرنے آئے تو  اُسے بھگا دو، پھر جو تمہارا جی چاہے کرو۔ پانچواں کام یہ کہ جس وقت جہنم کا مالک وحاکم تمہیں آگ میں ڈالے تم آگ میں کودنے سے انکار کردو، اُس کے بعد جو تمہارے جی میں آئے کرو۔ جس کام کے لیے تمہیں عذر خواہی کرنا پڑے اُس کام سے پرہیز کرو اور منافق ہرروز بدی کرتا ہے اور ہرروز عذر خواہی کرتا ہے، ……جلدی کرنا کم عقلی کی علامت ہے…… کسی بھی شخص کو اُس وقت بات کرنے کی اجازت نہ دو جب تک کہ وہ سلام نہ کرلے،…… فکر نہ کرنے والوں کے ساتھ بحث وتکرار کرنا جہالت ونادانی کی ایک علامت ہے، …… تنقید فکر اور مختلف نظریات کے بارے میں جاننا عالم کی نشانیوں میں سے ایک ہے …… جو معاف کردے وہ بزرگ سمجھا جاتا ہے اور جو شخص بخل سے کام لیتا ہے وہ ذلیل ورسوا ہو جاتا ہے…… لوگوں میں سب سے زیادہ مہربان شخص وہ ہے جو ایسے شخص کو معاف کردے جو اُس سے اِس کی اُمید ہی نہ رکھتا ہو …… جو شخص ایک برادر مومن کی مشکل کو حل کرے اور اسے اضطراب سے نجات دلوائے تو اللہ بھی دنیا وآخرت کے اضطراب سے اُسے نجات عطا کرتا ہے…… جب کسی شخص کو دیکھو کہ وہ لوگوں کی عزت آبرو پر حملہ کررہا ہے تو کوشش کرو وہ تمہیں نہ پہچانے…… اپنی حاجتوں کو ہر کسی کے سامنے بیان کرنے کے بجائے صرف نجیب و شریف انسان سے بیان کرو …… سلام کرنے کا اجرو ثواب ستر نیکیوں کے برابر ہے جس میں سے اُنہترنیکیاں اُس شخص کے لیے ہیں جو سلام کرتا ہے اور ایک نیکی سلام کا جواب دینے والے کے لیے ہے…… اگر تین چیزیں فقر مرض اور موت نہ ہوتیں تو بنی آدم کسی کے سامنے سرنہ جھکاتا…… گزشتہ نعمتوں پر اللہ کا شکربجا لانا نئی اور تازہ نعمتوں کے عطیہ کا سبب ہوتا ہے …… صرف خوف خدا رکھنے والا شخص ہی صادق وامین ہوسکتا ہے…… حضرت امام حسینؓ نے فرمایا ایک بار رسول پاکؐ سے کسی نے پوچھا فضیلت کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا ”زبان کو قابو میں رکھنا اور نیکی کرنا …… جو تمام نعمتیں جو اللہ نے تمہیں عطا کی ہیں جان لو کہ یہ اُن ضروریات میں سے ہیں جس کی لوگ تم سے توقع رکھتے ہیں، بچو، کہیں ایسا نہ ہو کہ ضرورت مندوں کی طرف سے توجہ ہٹالینے سے یہ نعمتیں تم سے واپس لے لی جائیں، اور پھر یہ بلا اور مصیبت کی صورت اختیار نہ کرلیں، جان لوکہ نیک کام کی انجام دہی کے بعد لوگوں کے لیے حمد وستائش کا سبب بننے کے لیے تم اللہ کی طرف سے بھی اس کے اجروثواب کے حقدار ہو……لوگوں میں افضل ترین شخص وہ ہے جو اپنے دشمن پر غلبہ پانے کے باوجود اُسے معاف کردے…… تکبر ایک طرح کی خودپسندی اور بے جا خود ستائی ہے۔ کاموں میں جلدکرنا کم عقلی کی علامت ہے اور کم عقلی روح کی کمزوری ہے، ہر چیز میں زیادہ روی سے کام لینا ہلاکت کا باعث ہوتا ہے…… میں تمہیں خدا سے ملاقات کے دن (روز قیامت) سے ڈراتے ہوئے تمہیں تقویٰ اور پرہیزگاری کی وصیت کرتا ہوں، اُس وقت کا تصور کرو جب موت ایک وحشت ناک شکل میں تمہارے سامنے ہوگی، اُس کا آنا اچانک اور ناگوار انداز میں ہوگا۔ وہ تمہاری روح کو اپنے پنجوں میں جکڑ لے گی اور اِس وقت تمہارے اور تمہارے اعمال کے درمیان فاصلہ ہو جائے گا،اِس کے باوجود تم طویل عمر اور اپنے فن کی فکر میں ہو، میں تمہیں دیکھ رہا ہوں کہ موت نے اچانک تمہارا گریبان پکڑ لیا ہے اور تمہیں زمین سے اپنے اندر کھینچ رہی ہے۔ اُس نے تمہیں زمین کی بلندی سے پستی پر لاپٹخا ہے، دنیا کی اُلفت سے تمہیں قبر میں دھکیل دیا ہے، کشادگی سے قبر کی تنگی کی طرف کھینچ کر لے گئی ہے، ایک ایسے زندان میں جہاں کسی سے ملاقات ممکن نہیں، جہاں کوئی کسی کی فریاد نہیں سنتا، اِس مشکل ایام میں اللہ ہمیں اور تمہیں کامیابی عطافرمائے۔ اُس دن کے عذاب سے نجات فرمائے۔ ہم سب کو ایک عظیم انعام سے نوازے!!