دو مجوزہ قوانین اور خدشات

دو مجوزہ قوانین اور خدشات

آج، اتوار، کو تقریبا تمام قومی اخبارات کی جلی سرخی ایک جیسی ہے۔ اس سرخی میں بتایا گیا ہے کہ حکومت فوری طور پر دو آرڈیننس جاری کرنے جا رہی ہے۔ ان میں سے ایک آرڈیننس کا تعلق الیکٹرانک میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا کی ضابطہ بندی سے ہے جبکہ دوسرے آرڈی نینس کے ذریعے انتخابی قوانین میں تبدیلی کر کے وزراء اور ارکان پارلیمنٹ پر عائد اس پابندی کو ہٹانا ہے کہ وہ کسی بھی انتخابی حلقے میں، انتخابات کے دوران مہم چلانے کے لئے نہیں جا سکتے۔ گویا اگر یہ آرڈیننس جاری ہو جاتا ہے تو وزیر اعظم، وزراء، حکمران جماعت کے پارلیمنٹیر ینز بھی انتخابی حلقوں میں جا کر سرکاری امیدواروں کے حق میں مہم چلا سکیں گے۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ ہر قانون کے کچھ مثبت اور کچھ منفی پہلو ہوتے ہیں۔ قانون سازوں کی بہرحال کوشش یہی ہوتی ہے کہ منظور ہونے والا ہر قانون، وسیع تر عوامی مفاد میں ہو۔ اسی لئے اتفاق رائے سے منظور کئے جانے والے قانون زیادہ اچھے ہوتے ہیں۔ ایسا نہ ہو تو جو قوانین، پارلیمان میں کھلی بحث کے بعد، اپوزیشن کی ترامیم کو اہمیت دیتے ہوئے بنتے ہیں، ان میں کمزوریاں کسی حد تک کم ہو جاتی ہیں۔ صدارتی آرڈی نینس کا معاملہ بالکل مختلف ہے اور صدر اپنی آئینی  ذمہ داری بجا لاتے ہوئے یہ آرڈیننس جاری کر دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ قانون، باضابطہ طور پر پارلیمنٹ کے منظور کردہ دوسرے قوانین کے ساتھ نافذالعمل ہو جاتا ہے۔ آرڈیننس کے ذریعے نافذ کیا جانے والا قانون، کتنا ہی اچھا اور قومی مفاد میں کیوں نہ ہو، اس میں یہ خامی بہرحال موجود رہتی ہے کہ نہ تو میڈیا میں اس پربحث مباحثہ ہوتا ہے، نہ ہی عوام کی رائے کا کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے، نہ ہی حکمران جماعت کے ارکان پارلیمنٹ شریک مشورہ ہوتے ہیں اور نہ ہی اپوزیشن کی رائے شامل ہوتی ہے۔ 
ان دو مجوزہ آرڈنینسوںکے بارے میں اخبارات کا بتانا یہ ہے کہ  "وفاقی کابینہ نے الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کے لئے قانون 2016 میں آرڈیننس کے ذریعے ترامیم لانے کی منظوری دے دی ہے۔ آرڈیننس کے تحت فوج، عدلیہ اور دیگر اداروں پر تنقید کرنے والوں کو تین سے پانچ سال تک قید کی سزا دینے کی تجویز ہے۔ قانون کے تحت عدالتوں کو پابند کیا گیا ہے کہ فیصلہ 6 ماہ میں کیا جائے۔ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی طرف سے وفاقی کابینہ کو ارسال کی گئی سمری میں کہا گیا ہے کہ الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا رائے عامہ اور سماجی رویوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر لوگوں کی عزتیں اچھالنے کو قابل تعزیر جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ حکومت نے انتخابی مہم میں وزراء اور ارکان اسمبلی کو شرکت کی اجازت دینے کے لئے بھی نیا آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق میں ترمیم کر کے وزیر اعظم ، وزراء، وزرائے اعلیٰ، سینٹ ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کو الیکشن شیڈول کے اعلان کے بعد بھی، کسی بھی حلقے میں جانے، انتخابی جلسے کرنے، جلوس نکالنے اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت ہو گی"۔
توقع ہے کہ یہ دونوں آرڈیننس جلد جاری ہو جائیں گے اور پھر قومی بحث مباحثے کا وہ عمل شروع ہو جائے گا جو اس طرح کی قانون سازی سے پہلے رو بہ عمل آنا چاہیے۔ جہاں تک سوشل میڈیا پر قانونی قدغنیں لگانے کا تعلق ہے، حکومت کسی حد تک حق بجانب ہو سکتی ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ سوشل میڈیا نے اخلاقیات کی ساری حدیں پھلانگ دی ہیں۔ جھوٹ اور سچ کی تمیز بھی ختم ہو گئی ہے۔ فیک نیوز اور فیک تصاویر کا چلن عام ہو گیا ہے۔ گزشتہ حکومت نے 2016 میں سوشل میڈیا کے حوالے سے قانون سازی کی تھی جو موثر ثابت نہیں ہوئی۔ کیا مجوزہ آرڈیننس کے ذریعے عائد کی جانے والی پابندیاں اور سنگین سزائیں بہتر نتائج دکھا سکیں گی، اس کا واضح جواب نہیں دیا جا سکتا۔ اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے ان دونوں آرڈنینسوںپر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ ہیومن رائیٹس کمیشن نے بھی اسے بنیادی انسانی حقوق اور آزادی اظہار رائے پر حملہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس قانون کو واپس لیا جائے۔ گمان یہ ہے کہ تنقید کا دائرہ مزید پھیلے گا اور یہ معاملہ ایک بڑا سیاسی ایشو بن جائے گا۔
اس سلسلے میں دو پہلوؤں کو ضرور پیش نظر رکھنا ہو گا۔ پہلا یہ کہ سوشل میڈیا کو اب مکمل طور پر قابو نہیں کیا جا سکتا۔ ساری دنیا اب اس کا حصہ بن چکی ہے اور ہم دنیا سے کٹ کر نہیں رہ سکتے۔ یہ طے کرنا بھی آسان نہیں کہ کون سا مواد واقعی قانون کی گرفت میں آ سکتا ہے اور اگر آسکتا ہے تو اس کا پیمانہ کیا ہے۔ مثال کے طور پر عدلیہ پر تنقید کے اچھے یا برے ہونے کا تعین کیسے کیا جائے گا ؟ اگر کسی کو اس قانون کے تحت گرفتار کیا جائے تو آرڈنینس کے مطابق اس کی ضمانت بھی نہیں ہو سکے گی۔ اگر عدالت واقعی چھ ماہ میں فیصلہ کر دے تو بھی ملزم کم ازکم کچھ ماہ تک تو جیل میں پڑا رہے گا۔ دنیا جو پہلے ہی پریس کی آزادی کے حوالے سے ہمیں تنقید کا نشانہ بناتی رہتی ہے، اس قانون کے بعد اس کا رویہ اور سخت ہو جائے گا۔ ہمیں توقع رکھنی چاہییے کہ صحافیوں کی عالمی تنظیموں اور دیگر اداروں کی طرف سے بھی ضرور آواز اٹھائی جائے گی۔ اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ یہ قانون ضرور عدالتوں میں چیلنج ہو جائے گا۔ دوسرا، اور سب سے نازک پہلو یہ ہے کہ سیاسی حکومتیں ، مختلف قوانین کو اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف استعمال کرنے میں بڑی مہارت رکھتی ہیں۔ آتی جاتی حکومتوں کے ہاتھ میں ایک اور ہتھیار کا آ جانا اچھا نہیں ہو گا۔
جہا ں تک انتخابی قوانین میں تبدیلی کا تعلق ہے۔ اس پر ضرور انگلیاں اٹھیں گی۔ ہمارے ہاں پہلے ہی یہ تاثر عام ہے کہ حکومت اور اس کے اہلکار ، ریاستی طاقت کے ذریعے انتخابی عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اب اگر وزیر اعظم ، وزراء اور ارکان پارلیمنٹ کو بھی انتخابی عمل کے دوران اپنے امیدواروں کے حق میں مہم چلانے کی اجازت مل گئی تو زیادہ اچھے نتائج مرتب نہیں ہوں گے۔ 2017 میں انتخابی اصلاحات کے لئے ایک بڑی اور طویل مشق ہوئی تھی جو کئی مہینے جاری رہی تھی۔ اس مشق کے بعد اتفاق رائے سے ترمیمی مسودہ قانون منظور کیا گیا تھا۔ اب اس میں ترمیم کے لئے بھی اتفاق رائے کی کوشش ضرور کی جانی چاہیے تھی۔
ان دونوں قوانین کے حوالے سے حکومت کی نیت درست ہو سکتی ہے۔ لیکن اس اصول کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے کہ آزادی اظہار رائے اور منصفانہ انتخابات، دونوں نہایت حساس موضوعات ہیں۔ بہتر ہو کہ آرڈنینس کے بجائے انہیں پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے اور سب کی رائے کے ساتھ جامع قوانین کی منظوری دی جائے۔
یہ کالم تمام کر رہی تھی کہ خبر آئی ، دونوں مذکورہ آرڈنینس جاری کر دئیے گئے ہیں جو فوری طور پر نافذالعمل ہو گئے ہیں۔ 

مصنف کے بارے میں