عوم کے پیسے سے تنخواہ لینے والوں کے نام کیساتھ 'صاحب' لگانا غیرمناسب ہے، تحریری فیصلہ جاری

عوم کے پیسے سے تنخواہ لینے والوں کے نام کیساتھ 'صاحب' لگانا غیرمناسب ہے، تحریری فیصلہ جاری
سورس: File

اسلام آباد:  سرکاری افسران کے عہدے کے ساتھ 'صاحب' لفظ کے استعمال پر پابندی لگانے کے حوالے سے سپریم کورٹ نے کیس کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔

2صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا ۔فیصلے کے مطابق سماعت کے دوران ایڈیشنل ایڈووکیٹ نے ڈی ایس پی کے ساتھ 'صاحب' کا لفظ استعمال کیا۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سرکاری افسران کے عہدے کے ساتھ صاحب کا لفظ لکھنا اب بند ہونا چاہیے، ایک افسر صاحب کے لفظ سے خود کو احتساب سے بالا تصور کرتا ہے۔


سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ناقابلِ احتساب ہونے کی غلط فہمی ناقابلِ قبول ہے کیونکہ یہ مفادِ عامہ کے خلاف ہے، عوام کے پیسے سے تنخواہ لینے والوں کے نام کے ساتھ صاحب لگانا غیر مناسب ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق یہ بھی روایت بن گئی ہے کہ باقاعدہ نوٹس نہ ہونے کے باوجود پولیس اہلکار عدالت آتے ہیں، جو دستاویزات واٹس ایپ یا فیکس ہو سکتے ہیں ان کے لیے پولیس اہلکاروں کو عدالت آنے کی ضرورت نہیں۔

عدالت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ فیصلے کی کاپی آئی جی کے پی، ایڈووکیٹ جنرل اور محکمۂ داخلہ کے پی کو بھیجی جائے، پولیس نے بچہ مرنے کے ذمے داران کے تعین کے لیے کوئی تفتیش نہیں کی۔

سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ناقص تفتیش کی مثال دینے کے لیے یہ بہترین کیس ہے۔

مردان میں 9 سال کے بچے کے قتل کے کیس کی سماعت کے دوران ڈی ایس پی کے ساتھ ’صاحب‘ کا لفظ استعمال کیا گیا تھا۔ کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔ دوران سماعت  ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے کہا کہ کیس کی تفصیلات ڈی ایس پی صاحب بتا سکتے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے صاحب صاحب کہہ کر سب کا دماغ خراب کردیا ہے، یہ ڈی ایس پی ہے، صاحب نہیں، یہ نالائق ڈی ایس پی ہے۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پولیس نے تحقیقات پر کچھ کام نہیں کیا، سپریم کورٹ کو مجسٹریٹ کی عدالت بنا دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عوام پولیس کو کیوں پال رہی ہے؟ ایک بچہ مرگیا اور پولیس کی تفتیش کا حال یہ ہے، ناقص تفتیش کر کے کہتے ہیں کہ عدالت نے ملزم چھوڑ دیا، غریب کا بچہ تھا اس لیے پولیس نے سنجیدگی سے تفتیش کرنا ضروری نہیں سمجھا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا کہ پولیس نے بچہ مرنے کے ذمے داران کے تعین کے لیے کوئی تفتیش نہیں کی، ناقص تفتیش کی مثال دینے کے لیے یہ بہترین کیس ہے۔

بعدازاں تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے قتل کیس کے ملزم کی ضمانت منظور کرلی۔

واضح رہے کہ ملزم جاوید خان پر 9 سالہ حمزہ کے قتل کا مقدمہ پشاور میں درج تھا۔