چینی کے بعد چائے کی پتی کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ

چینی کے بعد چائے کی پتی کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ
سورس: File

کراچی:آٹے،   چینی، دودھ اور دیگر اشیائے خورد نوش کے بعد اب چائے کی پتی کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ 

ذرائع کے مطابق  پیکرز اور تاجروں نے 900 گرام برانڈڈ پیک میں 100 روپے اور کھلی چائے پتی میں 200 روپے فی کلو ک تک اضافہ کر دیا۔ 

اس حوالے سے تاجروں کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم حکومت کے دوران روپے کی قدر میں بڑے پیمانے پر کمی اور عبوری حکومت کے قیام کے تحت جاری گراوٹ نے کالی چائے پتی کی درآمد کی زمینی قیمت پر منفی اثر ڈالا ہے۔ نگران حکومت کے قیام کے بعد سے، انٹربینک مارکیٹ میں گرین بیک ریٹ 2.9 فیصد یا 8.64 روپے کے اضافے سے 297.13 روپے تک پہنچ گیا۔

فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی)  کی قائمہ کمیٹی برائے چائے کے کنوینر ذیشان مقصود نے کہا کہ برانڈڈ چائے کی قیمت میں اصل اضافہ 120 روپے فی کلو ہے کیونکہ پیک کا خالص وزن 900 گرام ہے نہ کہ 1 کلو گرام (1000 گرام)۔

انہوں نے کہا کہ  اگر ڈالر کے مقابلے میں روپیہ اپنی قدر کھوتا رہتا ہے تو اس کی قیمت میں مزید اضافے کی توقع  کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیزل کی قیمت میں اضافے سے نقل و حمل کی لاگت کے بھی بڑھنے سے چائے پتی کی قیمت پر اثر پڑتا ہے۔

پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (پی بی ایس) کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں جولائی میں 22 ہزار 898  ٹن چائے پتی (56 ملین ڈالر) درآمد کی گئی جبکہ جولائی 2022 میں یہ 18 ہزار 54  ٹن (45 ملین ڈالر) تھی، جو کہ اوسطاً فی ٹن (APT) قیمت میں 2 ہزار 510  ڈالر سے 2 ہزار 445  ڈالر کی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔مالی سال 23 میں چائے کی درآمدات مالی سال 22 میں 626 ملین ڈالر (253,748 ٹن) سے کم ہو کر 569 ملین ڈالر (231,449 ٹن) پر آگئی، جو کہ مالی سال 22 میں اوسط فی ٹن میں 2,467 ڈالر سے 2,458 ڈالر پر معمولی کمی دکھا رہا ہے۔

 ذیشان مقصود  نے کہا کہ ملک میں چائے کی سالانہ کھپت کا تخمینہ 3 لاکھ 60 ہزار   ٹن ہے جو کہ 240 ملین کی آبادی اور ہر سال 1.5 کلوگرام فی کس استعمال پر مبنی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ 1 لاکھ 30 ہزار   ٹن چائے پتی غیر قانونی راستوں سے ملک میں داخل ہوتی ہے۔

کھلے اور ٹیٹرا دودھ، چینی، روٹی اور مکھن کی قیمتوں میں اضافے کے رجحان پر صارفین پہلے ہی پریشان ہیں، اب چائے کی قیمتوں میں اضافےسے بہت سے کم آمدنی والے گھرانوں کے لیےضروریات زندگی پورا کرنا تقریبا ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔

مصنف کے بارے میں