مزاح جرم ہے قہقہہ زیب نہیں دیتا

Asif Anayat, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

میرے ایک دوست آغا سہیل نے فرائی پین میں ساگ اس پر ادرک، ہری مرچ وغیرہ کے چھڑکاؤ کی پکچر واٹس ایپ کی۔ ساتھ کیپشن دیا کہ ’’ہر ہفتہ کی صبح، ہر زندہ سہاگ، ساگ کو تڑکا لگاتا ہے، یہ ہی پیار کا راگ ہے‘‘۔ میں نے جواب میں لکھ دیا کہ ’’لیلے کیہ کھان گے‘‘ (دنبے کیا کھائیں گے؟)۔ آغا کا فون آ گیا کہ آپ کبھی ایسی بذلہ سنجی اور مزاح کی بات برجستگی سے کیا کرتے تھے، اب آپ سیاست، سماج اور تصوف و فلسفہ میں چلے گئے۔ میں نے کہا آغا صاحب یہی بات مجھے جناب پروفیسر خواجہ ندیم ریاض سیٹھی نے بھی کہی تھی۔ انہیں میں نے کہا کہ جب قلم پکڑتا ہوں تو پھر ملک اور عوام یعنی ہمارے ساتھ جاری مذاق کے سامنے میرا مزاح بے وقت کی راگنی لگتا ہے۔ سرکاری غلامی کے وقت کی بات ہے۔ ایک دن دفتر میں چند دوست بیٹھے ہوئے تھے، ان میں زیادہ تعداد پامسٹری کے ماہرین کی تھی۔ آئمہ کرام کے تذکرے سے گفتگو علم نجوم اور دست شناسی کے قصوں میں داخل ہو گئی۔ تین دوستوں نے دوسروں کی دست شناسی شروع کر دی۔ ایک پرنسپل اپریزر کے دونوں ہاتھوں میں مختلف پتھروں کی انگوٹھیاں ہوا کرتی تھیں۔ واش روم جاتے تو 10منٹ انگوٹھیاں اتارنے اور پھر 20 منٹ چڑھانے میں لگتے، وہ بھی علم نجوم کے دعویدار تھے اور حرام ہے کہ انہیں خود اپنے بارے میں بھی علم ہو کہ ان کے گھر کے کیا احوال ہیں؟ بہرحال یہ دست شناسی اظہار جاری تھا کہ میں نے دوسرے پرنسپل اپریزر صاحب جو اپنی منافقت، بدعنوانی کے لیے مشہور تھے مگر وہ سمجھتے تھے کہ وہ علمیت اور زہد و تقویٰ کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ بہرحال میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور دست شناسی شروع کر دی۔ کمرے میں 8/10 لوگ تھے، سب باتیں کر رہے تھے۔ میں نے ان کا ہاتھ دیکھا اور کہا کہ آپ بہت خوش نصیب ہیں، بہت اعلیٰ مقدر والے ہیں۔ وہ خوشی سے چمکتی آنکھوں سے شکریہ ادا کرنے لگے۔ میں نے کہا، میرا نہیں مالک کا شکریہ ادا کریں جس نے آپ کو اتنا خوش نصیب بنایا۔ زہد و تقویٰ، علمیت، شہرت، دولت، شعور، عقل تو اپنی جگہ آپ اس سے زیادہ خوش نصیب ہیں۔ ان کی خوش قسمتی کا میں نے اتنا تذکرہ کیا کہ سب خاموش بلکہ بے تاب ہو گئے کہ وہ کیا بات ہے جو ان سب سے بالا ان کا نصیب ہے۔ میں نے ان کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا، میں نے سب کا تجسس ختم کرتے ہوئے کہا ’’آپ اتنے خوش نصیب ہیں کہ اگر آپ سعودیہ میں ہوتے تو آپ کا یہ ہاتھ آپ کے ساتھ نہ ہوتا‘‘۔ وہ قہقہہ اٹھا کہ پھر دست شناسی بند ہو گئی۔ انہی دنوں کی بات ہے ایک ہمارے دوست مرزا صاحب ہیں وہ بھی کسٹم آفیسر تھے۔ وہ کئی بار اپنی کارکردگی کی وجہ سے کھڈے لائن لگے، ان پر اعتراض یہ اٹھتا کہ رغبت کے سبب انجانے میں انتہائی تھوڑے عوضانے پر بم پر لات مار دیتے۔ انہیں اللہ نے کسٹم کے علاوہ بہت علم عطا کر رکھا ہے۔ کھڈے لائن ہوتے تو صبر کرتے، تعیناتی پر بے صبری کا پیکر بن جاتے، بڑے دانشور ہیں جب وجد میں ہوں تو جن کی عزت کرنا ہو انہیں اوئے کہہ کر بلاتے ہیں اور جن کو فاصلے پر رکھنا ہو ان کے گھٹنوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ یہ ان کے وجد کی علامات ہیں، وجد سپیڈ منی کی امید پر طاری ہوا کرتا تھا۔ ایک دن میں ان کے دفتر گیا تو ولی اللہ بنے بیٹھے تھے، ایک دوست جو ان کے پاس اپنے کام سے آیا ہوا تھا، دستخط کرانے کے بعد ان سے سیاہی سے مہریں لگوا رہا تھا۔ مرزا صاحب نے کشف و تصوف اور مراقبہ کے انداز میں سر نیچے کیا ہوا تھا۔ ہاتھ میں پنسل اور آنکھیں بند، اس کو کہنے لگے، اوئے، فلک جو نمازی پرہیز گار آدمی تھے مگر کسٹم کے معاملے میں ’’ نماز میرا فرض اور چوری میرا پیشہ‘‘ والا مشہور معاملہ تھا، مرزا صاحب نے پورے وجد میں کہا، اوئے فلک جنت کے 8 دروازے ہیں، آٹھوں دروازوں سے تمہارا نام پکارا جائے گا۔ فلک صاحب کے خوشی سے آنکھیں نم اور ہونٹ تر ہو گئے۔ مرزا صاحب کی ساری ولایت اس لیے تھی کہ ہزار دو زیادہ مل جائیں گے۔ فلک نے میری طرف دیکھا میں نے کہا فلک صاحب مرزا صاحب وجد کے عالم میں ہیں بالکل درست فرما رہے ہیں آپ کا آٹھوں دروازوں سے نام پکارا جائے گا بلکہ بھگدڑ مچی ہو گی۔ فلک انور فلک انور پکارا جائے گا۔ وہ مزید خوش ہوئے۔ میں نے کہا کہ آپ کا نام اور آپ کو اس لیے ڈھونڈا جائے گا کہ کہیں گزر تو نہیں گیا، یعنی اندر تو نہیں چلا گیا۔ وہ بچارے کہنے لگے، بٹ صاحب آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ میں نے کہا اللہ آپ کو زندگی دے ان شاء اللہ آپ کی آخرت اچھی ہو گی مگر مرزا صاحب کو دو ہزار سے زیادہ دے دیں۔ انہوں نے مراقبہ اس لیے کیا ہے۔ 
دراصل مذہب فروشی سیاست میں ہی نہیں ہماری معاشرت کے ہر شعبہ میں گھر کر چکی ہے۔ آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ جن سڑکوں، چوراہوں، کھمبوں، درختوں، بل بورڈوں کی جگہوں پر کبھی فلمی اداکاروں، سٹیج اداکاروں کی تصاویر اور فوٹو سیٹ آویزاں ہوتے تھے آج وہاں پر مذہبی ، مسلکی لوگوں کے غول کے غول تصویروں میں نظر آئیں گے۔ خوشامد، چاپلوسی اور مذہبی رنگ کے اپنے ہی رنگ ہوا کرتے ہیں۔ ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ کا دفتر فرسٹ فلور پر تھا، اب بھی ہے۔ ایک مخبر ہاتھ میں تسبیح اور دوسرے ہاتھ میں سگریٹ سلگائے، ان آفیسر کی طرف جانے لگتا تو راستے میں ملنے والے ماتحت اس کو جگہ جگہ روکتے کہ صاحب کو یہ کہنا، میری یہ سفارش کرنا، میری یہ بات کرنا، فلاں غلط فہمی دور کرنا، میری فلاں درخواست کا کیا بنے گا، پوچھ کر آنا۔ وہ ہر ایک کو کہتا، بس میں اوپر جا رہا ہوں، بات کر کے آ کر بتاؤں گا۔ میں نے اس سے کبھی کوئی کام بلکہ کسی سے بھی کبھی کوئی کام نہیں کہا تھا۔ ایک دن میں نے اس کو بہت سے لوگوں سے یہ فقرہ کہتے ہوئے سنا کہ اوپر جا رہا ہوں، آپ کا کام کرا دوں گا۔ میں نے اس کو روکا اور صرف اتنا کہا، ’’کبیر صاحب! طور سے واپس آؤ تو کھانا میرے ساتھ کھانا‘‘۔ وہ ایسے ہو گیا کہ کاٹو تو خون نہ نکلے۔ ایک دن میرے ایک دوست، جو ہائی کورٹ کے جج ہیں، کہنے لگے، جی او آر میں افطاری تھی ججز بیوروکریٹ تھے چند وزرا بھی تھے تو ملازمین کی طرف سے سانپ سانپ کا شور اٹھا، سب متوجہ ہوئے۔ ملازمین لان میں کسی سانپ نما کو مار رہے تھے۔ کہنے لگے کہ میں نے کہا، جی او آر میں بھی سانپ؟ گنجائش تو نہیں۔ حالت یہ تھی کہ ہر کوئی یہ فقرہ اپنی جانب لے گیا۔ ایک انسپکٹر اتنا جھوٹا تھا کہ اس کے بارے مشہور تھا، جس دن سچ بولے گا قیامت ہو گی۔
جب عنان اقتدار میں اکثریت سعودیہ میں ہوتی تو ہاتھ ساتھ سلامت نہ رہتے، جب صاحب کشف و تصوف و تقویٰ چند ہزار کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھلنے کی نوید سنائیں، جب شاہ کے مصاحب درخواستیں لے کر جائیں اور اوقات ترجمان کی ہو۔ ٹوئٹ سے بڑھ کر تلوار نہ ہو، تجربہ سے بڑھ کر اوقات ہو، جب واقفیت اہل جنت کو بھی مہنگی پڑنے لگے۔ جب کابینہ، سیاسی جماعتوں کی سنٹرل کمیٹیوں، بیوروکریسی کے اجلاسوں، صاحبان اقتدار کی محفلوں اور میٹنگوں میں سانپوں کی گنجائش نہ رہے۔ جہاں لوگ خودکشیاں کریں، باپ بیٹوں کو بے کفن دفن کرنے لگیں، جب سڑکوں پر عورتوں کی عصمتیں لٹنے لگیں اور حاکم کہیں کہ دوسرے راستے سے چلی جاتی۔ جب مری سانحہ کے مرنے والے خود ذمہ دار ٹھہرائے جائیں۔ جب روزگار نہ ہو اور مہنگائی کہ بنیادی ضرورتیں حسرتوں میں بدل جائیں۔ حق سچ دفنا دیا جائے اور حاکم کہیں کہ مہنگائی صرف پراپیگنڈہ ہے۔ تمام ترقی، وعدوں، دعوئوں، کاغذوں پر ہو جب زندگی ناپید اور موت ارزاں ہو جائے تو ایسے سناٹے میں مزاح اور قہقہہ زیب نہیں دیتا۔ لکھتے لکھتے کئی بار احساس جرم ہوا کہ مزاح جرم ہے، قہقہہ زیب نہیں دیتا۔

مصنف کے بارے میں