قائد اعظمؒ آئین و قانون کی حکمرانی کے آرزومندتھے

قائد اعظمؒ آئین و قانون کی حکمرانی کے آرزومندتھے

قائد اعظم محمد علی جناح ؒقانون پسند اور جمہوریت پر یقین رکھنے والے عظیم رہنما تھے۔  وہ ایسا پاکستان چاہتے تھے جہاں ہر شخص کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی پوری آزادی ہو۔ قائدکسی ایک مکتب فکر کو انصاف فراہم کرنے کے خواہاں نہیں تھے بلکہ ان کی نظر میں پاکستان میں رہنے والے تمام مذاہب کے لوگ مساوی حقوق رکھتے تھے۔ پاکستان میں جمہوریت اور قانون کی بالادستی ان کی اولین ترجیحات تھیں۔
 اگست 1947ء  میں قیام پاکستان سے چند روز قبل کراچی میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے آئین اور انتظام مملکت کے چند بنیادی اصول بیان کیے۔قائد اعظمؒ کی کامیابی کا رازان کی سچائی اور اخلاص میں پنہاں تھا۔ قائد اعظمؒ کی زندگی کے کسی پہلو سے بھی ان کے منافقانہ کردار کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی۔وہ نظریہ ضرورت کے تحت اپنے نظریات اور عقیدے کونہیں بدلا کرتے تھے۔ انکی چالیس سالہ سیاسی زندگی میں انکے شدید مخالفین بھی کوئی واقعہ پیش نہیں کرسکتے جہاں انہوں نے مصلحت کی آڑ میں اصولوں سے انحراف کیا ہو۔یہی ایک سچے راسخ العقیدہ مسلمان کی شناخت ہے۔
اگر ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کا کوئی تصور موجود ہے تو کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہو سکتا۔ قانون کی حکمرانی انفرادی حد تک محدود نہیں ہونی چاہئے بلکہ حکومت کا بھی قانون کے تابع رہنا لازمی ہے۔قانون کی حکمرانی کے بغیر مضبوط معاشرہ قائم نہیں ہو سکتا۔ قانون کی حکمرانی کے لئے موثر اور آزاد عدلیہ ضروری ہے۔ قانون کی عملداری سے نہ صرف حکومتوں اور اْن سے وابستہ افراد کا اپنا وقار بلند ہوتا ہے بلکہ معاشرہ بھی بطور مجموعی عِز و شرف کے مقام پر فائز ہو جاتا ہے۔ قانون کا اطلاق کسی تفریق اور رْو رعایت کے بغیر ہونا چاہئے۔ تاریخ میں جو معاشرے سربلند ہوئے اور جو تہذیبیں ترقی کی منازل طے کر کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہوئیں وہاں قانون کی حکمرانی بدرجہ اتم موجود تھی۔
 اسلام کے سنہری دور میں خلفائے راشدین سمیت اعلیٰ حکام کو بھی قاضیوں کی عدالتوں میں عام شہریوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اپنے خلاف مقدمات کا دفاع کرنا پڑتا تھا۔قاضی کسی خوف کے بغیر فیصلے سناتے تھے اور اِس بات سے قطعاً پریشان نہیں ہوتے تھے کہ خلیفہ اْن کے فیصلے سے ناراض ہو گا۔ انہی بے خوف فیصلوں کی وجہ سے نہ صرف فیصلہ کرنے والے قاضیوں کا رعب و دبدبہ قائم ہوا بلکہ افرادِ معاشرہ میں بھی قانون کی دھاک بیٹھ گئی اور قانون کی خلاف ورزی کا تصور تک بھی باقی نہ رہا۔ بڑے بڑے مناصب پر فائز لوگ بھی عدالتوں میں جواب دہی کے خوف سے لرزاں رہتے تھے۔ عام لوگوں کو بھی یقین تھا کہ اْن سے کوئی بے انصافی نہیں ہو گی اور عدالتیں حق رسی کے لئے موجود ہیں، جہاں وہ اپنا مقدمہ لے کر جائیں گے تو اْنہیں پورا پورا انصاف ملے گا۔
جن حکمرانوں نے اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھا، ممکن ہے وہ کچھ عرصے کے لئے عوام کے ذہنوں میں اپنا خوف و دبدبہ بٹھانے میں کامیاب ہو گئے ہوں لیکن اول تو یہ عرصہ بہت مختصر رہا اور جب اِن حکمرانوں کا مقدمہ تاریخ کے سپرد ہوا تو تاریخ نے اس اندازِ حکمرانی کو سندِ قبولیت نہیں بخشی۔ بہرحال تاریخ کا سبق یہی ہے کہ حکمران کوئی بھی ہو وہ اگر قانون کے تابع رہے گا۔ اپنی حکومت کو قانون سے بالا تر نہیں سمجھے گا، عدالتوں اور عدالتی فیصلوں کا احترام کرے گا تو وقتی ہزیمتوں کے باوجود تاریخ میں اس کا مقام بلند ہو گا۔
جمہوری نظام کے علاوہ قائداعظمؒ پاکستان میں اسلام کی روح کے مطابق قانون کی حکمرانی، انصاف، انسانی مساوات اور سماجی و معاشی عدل چاہتے تھے اور اگر وہ زندہ رہتے تو ایسا ہی ہوتا، لیکن اگر موجودہ پاکستان میں ان اصولوں کے نفاذ کی امید بھی نظر نہیں آتی تو کیا یہ تصور پاکستان کا قصور ہے؟
قائداعظمؒ قانون کی حکمرانی، معاشی عدل اور انسانی مساوات کے ساتھ ساتھ جاگیرداری نظام کا بھی خاتمہ چاہتے تھے۔ وہ ہر قسم کی بے انصافی اور فرقہ واریت کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہتے تھے جبکہ آج کا پاکستان جاگیرداروں، روسا، بالائی طبقوں اور جرنیلوں کی جاگیر بن چکا ہے۔ کرپشن کی کہانیاں سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ آج کے پاکستان میں قانون کی حکمرانی، معاشی عدل اور انسانی مساوات کے تصورات کو پامال کیا جا رہا ہے۔ اس صورتحال نے ہر طرف مایوسی کے اندھیرے پھیلا دیے ہیں اور نوجوان نسلوں کو قیام پاکستان کے حوالے سے غیر یقینی میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس فضا میں قائداعظمؒ کے تصور پاکستان کی شمع جلائے رکھنا ضروری ہے تاکہ نوجوان نسل کے سامنے ایک آئیڈیل موجود رہے اور وہ قائداعظمؒ مخالف لابی کے پراپیگنڈے کا شکار نہ ہوں۔
قائد اعظمؒ کے تصور مثالی ریاست کی تشکیل کے وقت چند چیزیں ضروری ہیں کہ وہ ایک ایسی ریاست ہو جہاں قانون کی بالا دستی ہو۔ ریاست کے سبھی شہریوں بشمول اقلیتوں کو ان کے بنیادی حقوق مساوی بنیادوں پر حاصل ہوں۔غربت بھوک اور بیروزگاری جیسے ناموں سے عوام قطعاََ نا آشنا ہوں۔جہاں دہشت گردی کا ہولناک سایہ نہ لرزتا ہو۔ جہاں ماؤں کے قلب مطمئن ہوں۔ جہاں راوی امن سے سْکھ اور چین کی بانسری بجاتا ہو۔پاکستان میں ماضی کی کوتاہیوں اور مصلحتوں کے باعث قانون کی حکمرانی کا تصور متاثر ہوا جس کے نتیجے میں کرپشن اور قانون شکنی کی وبا عام ہوئی ہے۔سرکاری عمال اور اشرافیہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھنے لگی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ملک کو درست راستے پر ڈالنے کے لیے قانون کی حکمرانی کو عملی طور پر نافذ کیا جائے اور اس سلسلے میں کسی قسم کی تخصیص نہیں ہونی چاہیے۔دنیا کی مہذب قوموں کے ساتھ چلنے کے لیے ایسا کرنا انتہائی ضروری ہے۔