کس طریقہ کار کے تحت تمام گرفتاریاں کی گئیں،فوجی عدالتوں میں ٹرائل تب ہوتا ہے جب بات قومی سلامتی کی ہو: جسٹس منصور علی

کس طریقہ کار کے تحت تمام گرفتاریاں کی گئیں،فوجی عدالتوں میں ٹرائل تب ہوتا ہے جب بات قومی سلامتی کی ہو: جسٹس منصور علی
سورس: File

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ نے 9 مئی سے متعلق خصوصی عدالتوں کیخلاف درخواستوں پرسماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے  وکیل فیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ کس طریقہ کار سے تمام افراد کی گرفتاریاں کی گئی ہیں؟  فوجی عدالتوں میں ٹرائل تب ہوتا ہے جب بات قومی سلامتی کی ہو، سویلینز نے آرمی ایکٹ یا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کب کی؟  اور  فوج کا اندرونی طریقہ کارکیا ہے جس کے تحت یہ طے ہوتا ہے کہ سویلین کوہمارے حوالے کردو؟۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بینچ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف دائر کی جانے والی درخواستوں پر دوسری سماعت کر رہا ہے۔7 رکنی بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔ سماعت میں 15 منٹ کا وقفہ دیا گیا ہے۔ 

اس موقع پر سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے روسٹرم پر آ کر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں نے تحریری معروضات بھی جمع کرا دی ہیں، میری درخواست دیگر درخواستوں سے الگ ہے، میں نے درخواست میں آرمی ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا۔ 

جسٹس منصور علی شاہ نے فیصل صدیقی سے سوال کیا کہ آپ نے آرمی ایکٹ کو چیلنج کیوں نہیں کیا؟ وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ میرا یہ مؤقف نہیں کہ سویلینز کا آرمی ٹرائل نہیں ہو سکتا، سویلینز کے آرمی عدالت میں ٹرائل ہوتے رہے ہیں۔ میرا بھی یہ مؤقف ہے کہ من پسند لوگوں کا آرمی ٹرائل کرنا غلط ہے، آرمی ایکٹ کے تحت مخصوص سویلینز کا ٹرائل خلافِ آئین ہے، میرا یہ مؤقف نہیں ہے کہ آرمی ایکٹ کی کوئی شق غیر قانونی ہے، سپریم کورٹ کے 5 فیصلے موجود ہیں جو آرمی ٹرائل سے متعلق ہیں، 1998ء میں ملٹری کورٹس کے خلاف فیصلہ آیا، ملٹری کورٹس کے خلاف فیصلے میں آرمی ایکٹ زیرِ بحث نہیں لایا گیا۔

جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ دوسرے کیسز میں آرمی ایکٹ سے متعلق کیا پرنسپل سیٹ کیا گیا ہے؟ وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ بہت کم ایسا ہوا کہ سول کورٹس کو بائی پاس کیا گیا ہو۔ جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کن وجوہات کی بنا پر سویلینز کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت کیا جاتا رہا ہے؟

وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ کوئی نہیں کہتا کہ ملزمان کا سخت سے سخت ٹرائل نہ کریں، انسدادِ دہشت گردی کی عدالت سے زیادہ سخت سزا کہاں ہو گی؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرمی ایکٹ یا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت تو ٹرائل تب ہوتا ہے جب بات قومی سلامتی کی ہو، سویلینز نے آرمی ایکٹ یا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کب کی؟ جب آپ آرمی ایکٹ چیلنج نہیں کر رہے تو قانون کی بات کریں۔

جسٹس مظاہر نے کہا کہ آپ جو کرائم رپورٹ دکھا رہے ہیں اس میں تو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات نہیں ہیں، 9 مئی کے بعد مقدمات میں آفیشل سیکرٹ یا آرمی ایکٹ کی دفعات کب شامل کی گئیں؟ یہ بھی بتائیں کہ کمانڈنگ افسرکیسے سویلینزکی حوالگی کا مطالبہ کرسکتا ہے؟

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ کے دلائل کی بنیاد یہ ہے کہ کس کے پاس صوابدیدی اختیار ہے؟ آپ کے دلائل یہ ہیں کہ سویلین کے فوجی عدالت میں ٹرائل کا صوابدیدی اختیار کس کے پاس ہے؟

جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ بہتر ہو گا کہ پہلے اٹارنی جنرل کو بتانے دیں کہ اصل صورتِ حال کیا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ بہت سے تسلیم شدہ حقائق ہیں جو سامنے رکھ رہا ہوں، بہتر ہو گا پہلے تمام وکلاء اپنے دلائل مکمل کر لیں پھر اٹارنی جنرل کو سن لیں گے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جسٹس یحییٰ درست کہہ رہے ہیں، ہمیں پہلے حقیقت کو جاننے کی ضرورت ہے، یہ بتائیں کہ کس طریقہ کار کے تحت یہ تمام گرفتاریاں کی گئی ہیں؟ جسٹس منصور نے استفسار کیا کہ کیا یہ معلومات ہیں کہ کون سے افراد کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا؟ کس بنیاد پر کسی شخص پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات لگائی جا سکتی ہیں؟ یہ بھی بتائیں کہ کمانڈنگ افسرکیسے سویلینزکی حوالگی کا مطالبہ کرسکتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آج 3 بجے تک سماعت کر سکتے ہیں، فیصل صدیقی دلائل جاری رکھیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ جس مقدمے کا فیصل صدیقی حوالہ دے رہے ہیں اس میں 50 افراد گرفتار ہیں، ہمیں نہیں پتہ کہ یہ افراد کن دفعات کے تحت گرفتار ہوئے؟

وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ وہ بنیاد دکھاؤں گا جس کے تحت انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے کیسز فوجی عدالت بھیجے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ کمانڈنگ افسر نے انتظامی جج کو سویلینز کی فوجی حکام کو حوالگی کی درخواست لکھی، فوجی حکام کی اس درخواست کے ذرائع نہیں بتائے گئے۔

بعد ازاں عدالت نے سماعت میں 15 منٹ کا وقفہ کردیا۔

مصنف کے بارے میں