عالمی عدالت انصاف جنوبی افریقا کی غزہ میں جنگ بندی کی درخواست پر فیصلہ جمعہ کو سنائے گی

عالمی عدالت انصاف جنوبی افریقا کی غزہ میں جنگ بندی کی درخواست پر فیصلہ جمعہ کو سنائے گی

دی ہیگ: عالمی عدالت انصاف اسرائیل کو غزہ میں جنگ بندی پر عملدرآمد کا حکم دینے کی جنوبی افریقا کی درخواست پر فیصلہ (کل) جمعہ کو سنائے گی۔

بین الاقوامی اے ایف پی کے مطابق جنوبی افریقہ نے اقوام متحدہ کی اعلیٰ عدالت سے ہنگامی اقدامات کے لیے درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ کہ اسرائیل کو غزہ میں اپنی فوجی کارروائیاں بند کرنے کا حکم دیا جائے جس میں رفح شہر بھی شامل ہے، جہاں اسرائیلی فوجی اس وقت جارحانہ کارروائیاں کررہی ہے۔

اصولاً بین الاقوامی عدالت انصاف کے احکامات پر عملدرآمد کرنا ریاستوں کے لئے لازمی ہے لیکن اگر کوئی ریاست کسی حکم پر عمل نہ کرے تو عدالت کے پاس اس حکم کو نافذ کرنے کے لئے درکار کوئی طاقت موجود نہیں۔

تاہم ممکنہ فیصلے سے اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی قانونی دباؤ میں اضافہ ہو گا جسے پہلے ہی بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر کی طرف سے اسرائیلی وزیراعظم اور وزیر دفاع کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کے اعلان پر دبائو کا سامنا ہے۔

بین الاقوامی عدالت انصاف گزشتہ ہفتے ہونے والی سماعتوں میں جنوبی افریقہ نے اسرئیل پر غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے کا الزام عائد کیا ہے ۔ جنوبی افریقا نے رفح پر حملے کو بھی نسل کشی کا ایک نیا اور خوفناک مرحلہ قرار دیا جنوبی افریقہ کے وکیل وان لو نے اپنے دلائل میں کہا کہ رفح میں اسرائیلی فوجی کارروائی غزہ اور اس کے فلسطینی عوام کی تباہی کا آخری مرحلہ ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ جنوبی افریقہ کی حکومت رفح میں اسرائیلی فوجی کارروائی کی وجہ سے ہی بین الاقوامی عدالت انصاف سے رجوع کرنے پر مجبور ہوئی لیکن تمام فلسطینی شہریوں کوبحیثیت قوم اور نسل ،نسل کشی سے تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے جس کا عدالت حکم دے سکتی ہے۔ اسرائیلی وکلا نے جنوبی افریقہ کے موقف کو حقائق کے برعکس قرار دیا اور کہا کہ اس نے خود 1948 کے اقوام متحدہ کے نسل کشی کنونشن کی خلاف ورزی کی تھی۔

اسرائیل کے سرکردہ وکیل گیلاد نوم نے کہا جھوٹ کو دہرانے سے وہ سچ نہیں ہو جاتا ۔

 انہوں نے مزید کہا کہ غزہ میں جنگ جاری ہے کوئی نسل کشی نہیں ہو رہی۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے اداروں کے مطابق غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کے نتیجے میں 35 ہزار فلسطینی مارے جا چکے ہیں جبکہ 8 لاکھ سے زیادہ بے گھر ہو چکے ہیں۔

مصنف کے بارے میں