کوئی ڈاکا مار کر رقم سپریم کورٹ میں رکھ دے تو کیا عدالت شریک جرم ہوگی؟  لندن سے آئی رقم واپس حکومت کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کردیں گے: چیف جسٹس 

کوئی ڈاکا مار کر رقم سپریم کورٹ میں رکھ دے تو کیا عدالت شریک جرم ہوگی؟  لندن سے آئی رقم واپس حکومت کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کردیں گے: چیف جسٹس 

اسلام آباد : چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے ہیں کہ کوئی ڈاکو ڈاکا مار کر سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں پیسے ڈال دے کیا سپریم کورٹ ڈاکے کے پیسے رکھ کر شریک جرم ہوسکتی ہے؟ اگر کوئی فریق دعویٰ نہیں کرتا تو ہم رقم حکومت پاکستان کو واپس کردیں گے۔ 

سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاون کراچی پراجیکٹس کیس کی سماعت  ہوئی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اکاؤنٹس میں لندن آئے پیسے مزید رکھے نہیں جا سکتے۔ اگر کوئی بھی فریق سپریم کورٹ کے اکاونٹ میں آئی رقم کا دعوی نہیں کرتا تو حکومت پاکستان کو ٹراسفر کر دیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پیسہ سرکار کے پاس جائے تو سرکار جانے اور بحریہ ٹاون جانے۔ سپریم کورٹ کا بحریہ ٹاون کے مد میں آئے پیسے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا اپنے اکاونٹ میں یوں پیسے رکھنا غیر آئینی عمل ہے۔ وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ یہ پیسہ زمین مالکان کو جانا چاہیے۔ 

چیف جسٹس نے کہا کہ ایک مثال ہے جس کا آپ برا نا منائیے گا۔ایک ڈاکا پڑتا ہے اور ڈاکو پیسے  سپریم کورٹ کے اکاونٹ میں ڈال دیتا ہے۔کیا سپریم کورٹ ڈاکے کے پیسے رکھ کر شریک جرم بن سکتی ہے؟ 

مصنف کے بارے میں