گونج گرج!

 گونج گرج!

دھرنوں کے جلومیں پچھلے دروازے سے اقتدار میں داخل ہونے والے عمران خان بالآخر قانون کی گرفت میں آگئے۔ناتجربہ کاری کی بنا پر ملک کو بدترین معاشی دلدل میں دھنسانے کے بعد اقتدار سے کیا نکلے کہ دھونس دھمکی کا طوفان کھڑا ہو گیا۔سوشل میڈیا طوفانوں اور مقتدرین کی مسلسل پشت پناہی کے بعد بالآخر توشہ خانہ خیانت کاری جرم میں نااہل قرار دیئے گئے۔ اب بھی لانگ مارچ اور (مہربان) عدلیہ کی کرم نوازی کی امید پر انکی دھمکیاں بدستور جاری ہیں۔اللہ خیر کرے!
قبل ازیں پاکستان کو یہ دن بھی دیکھنا تھا، 21 سال کی بے لوث خدمات کے عوض امریکی صدر جوبائیڈن نے بے رحمی سے ہماری خدمات کو حقیر کرتے ہوئے  ہمیں دنیا کی خطرناک ترین قوموں میں سے ایک قرار دیتے ہوئے ہمارے جوہری ہتھیاروں کے تحفظ کو ناکافی قرار دے دیا! روس اور چین پر کف آلود ہوتے ہوئے لگے ہاتھوں ایک ڈپٹ کا گھونسہ ادھر بھی دے مارا۔ ہمیں قومی ہم آہنگی، ربط باہمی سے عاری قرار دیا۔ بھارت کا تزلزل، انتہا پسندی، اندرونی طور پر اقلیتوں (بشمول سکھ علیحدگی پسندی) سے مسلسل کشاکش اور مودی جیسا بے سروپا لیڈر تو خطرے کی گھنٹی بنانظر نہ آیا، حالانکہ پاکستانی جوہری پروگرام کو عالمی سطح پر ہمیشہ محفوظ ترین جانا گیا، مگر بائیڈن یہ سب کہہ گزرے۔ اب وائٹ ہاؤس اشک شوئی کے بیانات جاری کر رہا ہے اور پاکستان 21 سالہ دوستی کی لکیر پیٹ رہا ہے، تاہم ہمیں مطعون کرنے والے صدر بائیڈن کی زبان پھسلنے کی جو کارکردگی مستقل سامنے آرہی ہے اگر ایٹمی بٹن دبانے پر پھسل گئی تو دنیا کا کیا بنے گا؟ بائیڈن اپنی نائب صدر کمیلاہیرس کو فرسٹ لیڈی کہہ بیٹھے، پھر ایک مرتبہ صدر موصوف نے بہ دہان خود انہیں صدر ہیرس کہہ دیا، دونوں غلطیاں ہی انوکھی تھیں، بیوی بے چاری جزبز ہوکر رہ گئی اور پھر خود اپنا صدر ہونا بھی بھلا بیٹھے! اسی پر بس نہیں یوکرینی عوام کو ایرانی عوام کہا، یہ بھی چھوٹی موٹی غلطی نہ تھی، دوست یوکرین اور میزائل بدست ایران کے مابین فرق بھول جانا؟ سب سے خوفناک غلطی تو اسرائیل میں ہوئی، وہ بھی ہولوکاسٹ جیسے 22 ہزار وولٹ کرنٹ کے حامل لفظ پر، بجائے ہولوکاسٹ کی خوفناکی کہنے کے ہولوکاسٹ کا اعزاز کہہ گزرے۔ اسی پر بس نہیں یروشلم کے ہولوکاسٹ میوزیم کا نام بھی غلط کرگئے۔ دماغ میں ٹیومر سے انتقال کرنے والے اپنے بیٹے کو عراق جنگ میں فوت کروادیا۔ مشرق وسطیٰ کے دورے میں امریکی فوجیوں کو بے غرض (ایثار کرنے والے) کی جگہ خود غرض کہہ دیا۔ یعنی اب جوبائیڈن کے نام کے ساتھ بے تکیاں (لاف زنی) نتھی ہو چکی ہیں۔ اکثر تقاریر میں سامعین قہقہہ بار ہوتے ہیں۔ 
سو ہمارے ایٹمی پروگرام کے عدم تحفظ کا غم کھانے والے ذرا امن عالم کے تحفظ کیلئے بادام اور خمیرہ گاؤ زبان نوش فرمائیں، ان کی سبقت لسانی کے ہاتھوں امریکی ایٹم بم نہ چل جائے! امریکا ان کی ان لغرشوں کے تھپیڑوں کی زد میں ہے۔ بہر طور ہمیں جو کہا قصداً عمداً کہا یا سہواً، امریکا پاکستان تعلقات کی حیثیت اور حقیقت ہی کا درست ایکسرے ہے یہ۔ وائٹ ہاؤس بھلے پوچا پھیرنے کو بیان دیتا رہے، پرویز مشرف امریکی چوکھٹ پر اپنے ملک کو قربان کرتا زندہ لاش بن گیا، علاج کیلئے اپنے جگری امریکا کو پکارا، تو ویزا دینے سے انکار کردیا! دبئی ہی میں رہنا پڑا۔ امریکا کی بے رحمی اور پاکستانی حکمرانوں کی بے حسی سنگدلی کی المناک تصویر ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی تو ہے۔ جس امریکا کے سیاسی جنگی عالمی مفادات پر ہم نے پاکستان تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا، اس بے لوث خدمت کے عوض پاکستانی بیٹی رہا نہ کراسکے؟ عالمی سطح پر انصاف کے خون اور ہمارے 21 سال کے پے درپے حکمرانوں کی رسواکن ذلت کی اس سے بڑی اور بری مثال کوئی نہ ہوگی۔
 2003ء میں لاپتا کی گئی صدیقی خاتون اپنے 3بچوں کے ساتھ پوری امت کیلئے امتحان بن گئی۔ پوری امت مسلمہ جس کی بیٹیاں رنگ خون نسل سے ماورا سانجھی ہوا کرتی تھیں۔ کہیں محمد بن قاسمؒ تاریخ رقم کرتا تھا مسلم خواتین کے تحفظ کیلئے اور کہیں عورت کی پکار وامعتصماہ پر معتصم لشکر لیکر جاپہنچتا تھا۔ اب مسلم امت کے کان پر جوں تو کیا رینگتی، خود پاکستان حسیات کی سطح پر مفلوج ہوچکا ہے۔ اب قوم پاکباز لائق فائق تقدس مآب ڈاکٹر عافیہ کی جگہ یا تو آئے دن  گھروں سے بھاگ کر شادیوں، عشق عاشقی کے چکر میں بے آبروہوتی لڑکیوں کے سکینڈلوں کی شرمناکی کی گرفت میں ہے۔ یا پھر نورمقدم، سارہ انعام والے چرکے سہتی ہے یا ملالہ یوسف زئی نما کٹھ پتلیوں کے تماشے دیکھتی ہے۔
 عافیہ پر امریکی وکیل اور تجزیہ نگار اسٹیون نے (جو پہلے پہل عافیہ کے خلاف بھی لکھتا رہا) عدالتی کارروائی میں کھلی ناانصافی اور بے گناہی پر مبنی سزا دیکھ کر تڑپ کر کہا: مردہ قوم کی بیٹی ہے یہ! ہماری روحوں پر مردنی طاری ہوئے 21 سال بیت گئے۔ نوجوان پی ایس ایل اور ٹونٹی ٹونٹی سے فارغ نہیں کہ پلٹ کر اپنی مظلوم بہن کی فکر کریں یا خبرلیں باجود یکہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے اپنی بہن کے حوالے سے مذکورہ بالا حقائق کو بار بار گنوا کر قوم کو جھنجھوڑنا چاہا ہے۔ اتنی مہربانی پاکستانی قونصل جنرل نے کی کہ جیل میں ڈاکٹر عافیہ سے ملاقات کرکے خبردی ہے کہ عافیہ صدیقی زندہ ہے! (یعنی حکومتوں کی مشکل ابھی ختم نہیں ہوئی کے پیرائے میں!) اگرچہ رہا ہونے والی متعدد خواتین نے اسی جیل میں ہراسانی اور جبری زیادتی بارے انکشاف کیا تھا، جبکہ ڈاکٹر عافیہ قیدِ تنہائی کی بنا پر شدید عدم تحفظ کا شکار ہے۔ طویل جدائی کا غم سہتی والدہ عصمت صدیقی یوں دنیا سے رخصت ہوئیں: کاگا سب تن کھائیو اور چن چن کھائیو ماس، دونیناں مت کھائیو انہیں عافیہ ملن کی آس! اگرچہ درد کے پیرائے کی یہ کراہ تو ہوسکتی ہے مگر ایمان پر رخصت ہونے والی ماں کی لمحہ لمحہ اذیت کو اللہ تعالیٰ گل و گلزار کی ٹھنڈک سے مٹا دے گا۔ باذن اللہ..... صبر کا میٹھا پھل پائیں گی۔ تاہم اللہ کے ہاں قوم کے فرد فرد کے پرچے میں اترایہ سوال جواب طلب ہے، کلیتاً بے بنیاد جرم کا الزام اور اس پر بے رحمانہ بے محل ظالمانہ قید تنہائی کے 86 سال کی سزا۔ محترم عرفان صدیقی نے اپنے جرم بے گناہی میں گرفتاری پر نہایت برمحل نظم لکھی تھی جو ان سے بلا اجازت  ایک صدیقی بیٹی کے پیرائے میں ڈھال کر چیدہ چیدہ رقم کررہی ہوں۔ (اصلاً تو پوری ہی عافیہ کے حسب حال ہے) میں اکثر سوچتی ہوں / بھول جاؤں / اس گریباں چاک / بے توقیر سے دن کو / کہ جس دن میں بہت ہی بے بس ولاپارسا / گم صم کھڑی تھی / اور میرے ہاتھ میں فولاد کی ایک ہتھکڑی تھی...... مگر میں / سرنگوں چپ چاپ سی چلتی رہی....... / کسی منصف کے مشفق ہاتھ / میرے ناتواں شانوں تلک کیونکر نہیں پہنچے؟ / مگر سب مہر برلب / اپنی اپنی سندوں پر تمکنت سے جلوہ گر تھے / اور کسی نے آج تک پوچھا نہیں / تم کون ہو؟ / اور تم پہ جو گزری یہ کیوں گزری؟ / وہ آخر کون ہے / جس نے حدوں کو توڑنے / آئین اور قانون کو پامال کرنے / بیٹی اٹھالینے کی / جسارت کی ہے..........
اس درد کو جیسا عرفان صدیقی صاحب گزران ہونے کی بنا پر محسوس کرسکتے ہیں اور کون جانے گا! خصوصاً جب معاملہ دیار غیر میں رلنے والی، اولاد، پیاروں سے یکسر جدا کردیے جانے والی صنف نازک بیٹی کا ہو! 
ماں کی شفقت سے محروم دو بچے، خالہ کے زیر سایہ جوان ہوگئے۔ مامتا کی پیاس سے چٹختی ان پیاسی روحوں کا حساب بھی دینا ہوگا۔ یہ الگ داستان ہے کہ جس امریکا کی چوکھٹ پر اتنی بے حساب قربانیاں دیں جو آج بدترین طوطا چشمی کا مظاہرہ کررہا ہے، اس میں عافیہ تنہا نہیں، ہزاروں لاپتگان کے دربدر خاندانوں کی آہیں کراہیں ملک پر قہر بن کر برسی ہیں۔ جیکب آباد ہو یا ڈیرہ اسماعیل خان، بے شمار جگہوں پر زمین پانی نگلنے سے انکاری ہے۔ ناقابل رہائش، ناقابل استعمال ہے۔ زمین کے حلق میں شاید ہمارے اعمال کے غم کا گولا پھنسنا ہے جو پانی بھی نگلا نہیں جارہا! 
سیلاب کے اثرات کے دیرپا ہونے کی تلوار سر پرلٹک رہی ہے، زراعت، لائیو سٹاک، گوداموں میں پانی بھرنے سے خوراک کا ذخیرہ خراب، غذائی بحران متوقع۔ آنے والی امداد کی شفاف درست منصوبہ بندی ہو تو سچائی عزم دیانت ہمدردی کا چندہ کرکے حکومت اپوزیشن، جج جرنیل، بیوروکریسی سب یک جان یک زبان ہوکر ملک کو حیات نو دے سکتے ہیں، پوری دنیا سے امداد چلی آرہی ہے مگر! اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔2005ء زلزلے میں آنے والی امداد بلاحساب، بلا احتساب غتربود ہوئی۔ اب تو بدعنوانی عفریت بن کر ہر ادارے ہر شعبے کو چاٹ گئی ہے۔ بے حسی، بے دردی ملکی سیاسی گھڑ مس، سیاسی جلسوں کی فضاؤں، کرکٹ میچوں کے لامنتہا سلسلوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔اللہ کو بھلائے، عذاب کے فہم سے بھی لاعلم، نادان اونٹوں کے ریوڑ جو نہیں جانتے کہ مالک نے باندھا کیوں اور کھولا کیوں! ہر طرف ہاؤ ہو تماشے مچے ہیں! 
اف بیانات کی یہ گونج گرج
جس طرح ایٹمی دھماکے ہوں 
امریکا کے بجائے اس اندرونی دھماکا خیر مواد کی تباہ کاریوں کی فکر کی ضرورت ہے! بائیڈن کی سبقت لسانی اور یہاں طلاقت لسانی، چرب زبانی سے (سیلاب، آفات، سماوی وارضی بھلاکر) پرخچے اڑائے جارہے ہیں!

مصنف کے بارے میں