پاکستان کوئی تجربہ گاہ نہیں

Mamoona Hussain, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

مہنگائی اتنی کہ ہزار کا نوٹ ایک سو کے برابر ہو گیا ہے۔ مگر وزاء کی ایک ہی رٹ ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔کیسے سب کچھ ٹھیک ہے؟ اگر ٹھیک ہے تو پھر عوام کو سب کچھ کیوں ٹھیک دکھائی نہیں دے رہا؟یہاں پر میں بات صرف عام عوام کی کر رہی ہوں،ہو سکتا ہے خاص عوام کو سب کچھ ٹھیک دکھائی دے رہا ہو؟سب کچھ ٹھیک ہونے کے باوجود ہمارے وزیراعظم عمران خان بھی کئی دفعہ اظہار کر چکے ہیں کہ مہنگائی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے،اگر مہنگائی سب سے بڑا مسئلہ ہے تو پھر اس مسئلے کا حل بھی تو آپ ہی کے پاس ہے۔ہم لوگ تو آپ کو اپنی رائے ہی دے سکتے ہیں ان پر عمل کر نا یا نہ کرنا آپ پر ہے۔ یا پھر آپ کے ادرگرد غیر منتخب لوگ ہماری رائے کو ایک منٹ میں رد بھی کر سکتے ہیں اور جو مسلسل ہو رہی ہے۔یہ غیر منتخب لوگ ہر حکومت کا حصہ رہتے ہیں اور ان لوگوں نے پاکستان کو ایک تجربہ گاہ سمجھ لیا ہے۔ ایک کے بعد ایک آتا ہے اور تجربہ کرتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ مگر ملکی معیشت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔
ملکی معیشت کو حکمران کی نظر سے دیکھیں تو سب اچھا ہے اگر ہم کسی غریب کی نظر سے دیکھیں تو حالات اتنے برے ہیں کہ غریب دو ووقت کی روٹی کو بڑی مشکل سے پورا کر رہا ہے۔ اس وقت ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسی کیا ہے اس سے غریب کو کوئی غرض نہیں۔غریب کو غرض ہے تو صرف اپنی دو وقت کی روٹی کی۔ گیس کی بندش، پیٹرول کی قیمت اور اس کے اضافے سے بڑھتی ہو ئی مہنگائی،بجلی کے بل ان کی دسترس سے باہرہوتے جارہے ہیں۔اس صورتحال سے عوام کو شدید ذہنی دباؤ کا سامنا ہے مگر اس سے حکومت کے انداز حکمرانی بلکہ انداز بے نیازی میں رتی برابر فرق نہیں آیا عوام نے کہرام برپا 
رکھا ہے،اپنے مسائل اور مطالبات کے اظہار میں شدت جذبات،فرسٹریشن اور بے بسی جس سطح پر نظر آئی وہ ملک میں بیر   وزگاری،مہنگائی اور غربت کے ایک مہیب منظرنامہ کی عکاسی کرتی ہے۔عوام کا دکھ شئیر کرنے والا کوئی نہیں،حقیقت پسندی شاید حکمرانوں کے لیے جمہوری رویوں کا کوئی مسئلہ اگرمہنگائی نہیں ہی نہیں،۔
کے پی کے ایک سیاستدان کا کہنا تھا کہ ملک میں کوئی مہنگائی نہیں وہ ایک نئی منطق لے آئے کہ اگر مہنگائی نہیں ہو گی تو معیشت کا پہیہ کیسے چلے گا،حیرت ہے کہ مہنگائی سے انکاری حکمران اپنے سیاسی تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں میڈیا ایک سیاسی بیانیہ کے گرد گھوم رہا ہے اور تجربہ گاہ سے نکلنے والے بیانات کو نشر کرنے میں لگے ہوئے ہیں، حکومت خطے کی سیاست کے نشیب و فراز میں اس بات کو فراموش کر چکی کہ مہنگائی اور بیروزگاری نے عوام کو اعصابی طور پر نڈھال کر دیا ہے اس کے بازو بھی شل ہیں اور ذہن بھی مفلوج غریب آدمی نان شبینہ کا محتاج ہو گیا ہے ایک مزدور،دیہاڑی دار،راج،مستری چھوٹا بلڈر، کسی دکان پر کام کرنے والا ملازم کیلئے ایک دن کے اخراجات پورے کرنا مشکل ہیں، چائے پراٹھا کے دام بڑھ گئے چائے کا کپ تیس روپے کا ہو گیا ہے عید الاضحی سے پہلے ہی چیزوں کی قیمتوں اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے مگر مارکیٹ اور پرائس کنٹرول کیمٹیاں تماشائی بن کر عوام کا تماشہ دیکھ رہی ہیں۔ مہنگائی کیوں کنٹرول نہیں ہو رہی اس پر ایک لمبی بحث ہو سکتی ہے۔ 3سال گزر چکے ہیں آپ کی حکومت نے 3بجٹ بھی پیش کر دئیے ہیں۔بجٹ دینے کے بعد اب آپ کی حکومت نے موبائل فون پر نئے ٹیکس لگا دئیے ہیں۔کمال کا کام کر دیا۔اب  عوام آپ کی حکومت کا موزانہ سابقہ حکومتوں سے کرنے پر مجبور ہو گئی ہے کیونکہ جب آپ کی حکومت آئی تو اُس وقت چینی،گھی،آٹا،کوکنگ آئل،دالیں اور مصالحہ جات کی کیا قیمتیں تھیں اور آج ان کی قیمتں آپ کی حکومت کو منہ چڑھا رہی ہیں۔ جب عوام ان چیزوں کی قیمتوں کا موازنہ کرتے ہیں تو وہ حیران و پریشان ہوجاتے ہیں۔اب تو ان کا گھبرانا بنتا ہے؟
وزیر اعظم صاحب آپ کے سامنے چینی کا اتنا بڑا سکینڈل آیا،آپ نے اُس کا نوٹس بھی لیا اُس پر کئی کمٹیاں بھی بنی ان سب کے باوجود چینی کی قیمت میں کمی نہ ہو سکی عوام کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ کن وجوہات کی بنا پر چینی کی قیمت بڑھی مگر حکومت کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اس کو 2018کی قمیت پر نہ سہی مگر اس کے قریب ہی لے آتے اگر آپ یہ کر جاتے تو عوام میں آپ کی اچھی پزیرائی ہونی  تھی مگر بد قسمتی سے شوگر مل مالکان میں اکثریتی مالکان سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں اور کچھ سیاسی جماعتیں آپ کے حکومتی اتحاد کا حصہ بھی ہیں تو پھر عوام کو سمجھ آجاتی کہ آپ اپنے اتحادی کو ناراض نہیں کر سکتے۔ا سی طرح چینی کی قمیت میں اضافے کے ساتھ دوسری اشیاء خوردونوش نے بھی سر اُٹھا لیا۔وزیر اعظم صاحب اب آپ کے پاس صرف ایک سال ہے کیونکہ آخری سال تو الیکشن کا سال ہوتا ہے اگر آپ اگلا الیکشن جیتنا چاہتے ہیں تو باقی تمام کام پس پشت ڈال کر صرف مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کر دیں اگر یہ جن ابھی قابو نہیں کیا گیاتو مہنگائی سے ستائی ہوئی عوام آپ کے نعرے کو دہرا دے گی لیکن اُس کو تھوڑا سا اُلٹ کر کہ؛ اب آپ نہیں کوئی اور؛ خدارا س ملک کو تجربہ گاہ نہ بننے دیں اور عام عوام کیلئے کچھ کر لیں۔