حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ بنانے پر شہباز شریف کی کلاس لی, انہیں جتنا مرضی ڈانٹیں وہ خاموشی سے سن لیتے ہیں: جنرل باجوہ 

 حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ بنانے پر شہباز شریف کی کلاس لی, انہیں جتنا مرضی ڈانٹیں وہ خاموشی سے سن لیتے ہیں: جنرل باجوہ 
سورس: File

لاہور : سینئر صحافی شاہد میتلا نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا  کہ حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ بنانے پر شہباز شریف کی کلاس لی تھی۔شہباز شریف کو جو مرضی کہیں وہ خاموش رہتے ہیں کچھ رد عمل نہیں دیتے۔ عمران خان کی منافقت نے حیران کر دیا۔ 

سینئر صحافی شاہد میتلا نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کا احوال اپنے کالم میں سوالاً جواباً شائع کیا ہے۔ جنرل باجوہ نے کہنا تھا جب 10 اپریل کوعمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تواس کے بعد شہباز شریف سے ملنے گیا۔ ان سے پوچھا کہ آپ کا حکومت کرنے کا کیاپلان ہے تو وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ دو تین قوانین بنا کر چار چھ ہفتوں میں الیکشن کا اعلان کردیں گے۔

سابق آرمی چیف نے کہا کہ میں بھی یہی چاہتا تھاکہ انتخابات ہوں اور اگلی حکومت فریش مینڈیٹ کے ساتھ فیصلے کرے لیکن آئی ایس آئی کے لوگوں کی بات ہوئی تو مولانا فضل رحمان اور آصف علی زرداری دونوں چاہتے تھے حکومت ڈیڑھ سال پورا کرے۔ اس کے علاوہ 10 اپریل کے بعد جنرل فیض نے مجھے مسلسل دو چیزیں کہنا شروع کردی تھیں ایک یہ کہ آپ الیکشن کرواکر جائیں۔دوسرا عمران خان آپ سے ملنا چاہتے ہیں،ان سے ملاقات کرلیں۔

جنرل باجوہ نے کہا کہ 9 مئی کو شہباز شریف اور ملک احمد خان میرے گھر آئے اورکہا کہ ہم نے الیکشن کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ملک احمد کہنے لگے کہ میں نے الیکشن کمیشن کے ساتھ بات کی ہے۔ الیکشن کمیشن مردم شماری اور حلقہ بندیاں پانچ اگست تک مکمل کرلے گا۔حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اگرہم بجٹ نہیں دیتے ہیں تو پانچ ستمبر کو الیکشن کروا دیے جائیں اور اگر بجٹ پیش کرنا پڑا تو ہم پانچ اکتوبرکو الیکشن کروانے کے لیے تیار ہیں۔

سابق آرمی چیف نے کہا کہ یوں الیکشن کی تاریخ کا فیصلہ ہوگیا اور پی ٹی آئی کو بھی اس فیصلہ سے آگاہ کر دیا گیا۔ پی ٹی آئی کو کہا گیا کہ آپ لانگ مارچ کا اعلان نہ کریں۔ اس کے بعدشہباز شریف لندن چلے گئے۔ 19 مئی کو ملک احمد خان میرے گھر دوبارہ آئے انہوں نے بتایا کہ نواز شریف نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم الیکشن کروا رہے ہیں اور کل شہباز شریف استعفیٰ دے دیں گے۔ شہباز شریف نے عرفان صدیقی سے اختتامی تقریر بھی لکھوا لی تھی۔

  

شہباز شریف نے 20 مئی کو استعفیٰ دینا تھا ۔ابھی ملک احمد خان بیٹھے ہی تھے تو ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم بھی آ گئے. انہوں نے کہا کہ اگر کل شہباز شریف استعفیٰ دیتے ہیں 25 مئی کو قطر میں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کون کرے گا۔ حکومت سے درخواست کریں کہ شہباز شریف 10 دن بعد مستعفیٰ ہوں تاکہ آئی ایم ایف سے مذاکرات بھی ہو جائیں اور نگران سیٹ اپ بنانے کے لیے ہمیں دس دن کا وقت بھی مل جائے۔ ملک احمد نے جواب دیا کہ میاں نواز شریف فیصلہ کرچکے ہیں کہ کل شہباز شریف مستعفی ہوں گے تو اس سلسلہ میں مَیں ان سے بات نہیں کرسکتا۔بہتر ہے کہ آپ بات کریں یا ڈی جی آئی ایس آئی بات کریں۔

انہوں نے کہا کہ میں نے ڈی جی آئی ایس آئی کو کہا کہ نواز شریف سے درخواست کریں کہ وہ دس دن ہمیں دے دیں۔ڈی جی آئی ایس آئی نے نواز شریف سے بات کی اور ان کو دس دن بعد مستعفیٰ ہونے پر منا لیا۔ یہی بات ڈی جی آئی ایس آئی نے شاہ محمود قریشی ،پرویز خٹک اور اسد عمر کو بتادی۔اور کہا کہ آپ لانگ مارچ کا اعلان مت کریں لیکن ان تینوں احباب نے کہا کہ عمران خان نہیں مان رہے۔20 مئی کو ملتان میں عمران خان کا جلسہ تھابہر حال انہوں نے لانگ مارچ کا اعلان نہیں کیا۔

ڈی جی آئی ایس آئی نے بڑی مشکل سے اعلان کر نے سے روکا۔عمران خان فوری الیکشن کا اعلان چاہتے تھے۔22 مئی کو عمران خان نے پشاور میں پریس کانفرنس رکھ لی ۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے پھر شاہ محمود ،اسد عمر اور پرویز خٹک سے بات کی کہ آپ صرف دس دن انتظار کرلیں آئی ایم ایف ساتھ مذاکرات اور نگران سیٹ اپ کے لیے ہمیں دس دن دے دیں۔

انہوں نے کہا عمران خان نہیں مان رہے۔سہ پہر میں عمران خان کی پریس کانفرنس تھی ۔شاہ محمود قریشی بھی ساتھ بیٹھے تھے۔ میں نے شاہ محمود قریشی کو پیغام بھجوایاکہ آپ عمران خان کو لانگ مارچ کا اعلان کرنے سے روکیں۔ شاہ محمودقریشی نے عمران خان کو بتایا کہ وہ بات کرنا چاہ رہے ہیں لیکن عمران خان نے بات کر نے سے انکار کردیا۔جس کے مناظر ٹی وی سکرین پر دیکھے گئے ۔ میری طرف سے لانگ مارچ رکوانے کی یہ آخری کوشش تھی۔

عمران خان نے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔شام کو لیگی قیادت میرے پاس آئی تو انہوں نے کہا کہ اب ہم عمران خان کابھرپور مقابلہ کریں گے۔میں نے پھر بھی اگلے دن خود شاہ محمود قریشی سے بات کی کہ آپ حکومت کے ساتھ بیٹھ کر بات کریں لیکن انہوں نے کہا کہ عمران خان نہیں مان رہے وہ فوری شہباز شریف کے استعفیٰ کا اعلان چاہتے ہیں۔

جنرل باجوہ نے کہا کہ میں نے شاہ محمود قریشی کو کہا آپ کے پاس اکثریت نہیں ہے حکومت تحلیل ہوگئی توآئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کون کرے گا؟ جنرل باجوہ نے بتایا کہ ان کے پاس اس گفتگو کی آڈیو بھی موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ ناکام ہوگیا ۔ لانگ مارچ کے روز میں نے اپنا ہیلی کاپٹر بھیجا۔جس میں شاہ محمود قریشی ،اسد عمر اور دیگر کو اٹھا یا اور راجہ پرویز اشرف کے پاس لے آئے ان کے راجہ پرویز اشرف ،ایاز صادق اور دیگر کے ساتھ مذاکرات ہوئے۔

پی ٹی آئی کا یک نکاتی نکتہ تھا کہ الیکشن کی تاریخ دیں۔راجہ پرویز اشرف نے کہا آپ پہلے اسمبلی میں آئیں پھر معاملات آگے بڑھاتے ہیں اس طرح یہ مذاکرات ناکام ہوگئے ۔ لانگ مارچ روکنے کا ساراانتظام رانا ثناء اللہ کا تھا ،ہم مکمل نیوٹرل تھے۔ ہم نے کسی قسم کی مداخلت نہیں کی تھی۔راناثناء اللہ لانگ مارچ روکنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

انہوں نے کہا ضمنی الیکشن  کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ الیکشن میں بلکل کوئی مداخلت نہیں کی تھی فروری2021 کے بعد کسی ایک الیکشن میں بھی معمولی گڑ بڑ نہیں کی گئی۔آج کل ویسے بھی الیکشن کے دن گڑ بڑ نہیں ہوتی ،الیکشن سے پہلے مینجمنٹ ہوتی ہے۔ عمران خان مقبولیت سے الیکشن جیتے۔ن لیگ کے ہارنے کی سب سے بڑی وجہ پی ٹی آئی کے منحرف لوگوں کو ٹکٹس دینا تھیں۔

جنرل باجوہ بولے جب حمزہ شہباز وزیراعلی بنے تو میں نے شہباز شریف سے سخت ناراضگی کا اظہار کیا تھا کہ آپ نے اپنے بیٹے کو ہی وزیراعلی بنادیا آپ کو پارٹی میں کوئی اور بندہ نہیں ملا۔میں نےشہباز شریف کی کافی کلاس لی۔وہ سر جھکا کرسنتے رہے اور کچھ نہیں بولے۔ شہباز شریف سے جتنی مرضی سخت بات کرلیں ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔کوئی جواب بھی نہیں دیتے۔ 

جنرل باجوہ کہتےہیں‌کہ حمزہ شہباز انتہائی نکما ہے۔سلمان شہباز کافی تیز اور باصلاحیت ہے۔ شہباز شریف کمزوروزیر اعظم ہیں ۔ ان سے حکومت نہیں چل رہی نہ وزراء ان کی بات سنتے ہیں،وزراء ان کو گھاس بھی نہیں ڈالتے۔بڑے میاں آئیں گے تو حالات بہتر ہوں گے ۔

انہوں نے کہا کہ اب شہباز شریف کو وزرات عظمیٰ میں مزہ آنے لگا ۔کچھ عرصے بعد جنرل فیض پھر میرے پاس آئے اور کہا کہ عمران خان سے ایک دفعہ مل لیں۔میں نے جنرل فیض کو کہا اچھاانہیں کہیں میرے گھر آجائیں ۔جنرل فیض نے کہا نہیں آپ ایوان صدر میں مل لیں۔ صدر عارف علوی بھی مجھے بار بار عمران خان سے ملنے کا کہہ رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ میں ایوان صدر چلا گیا تو حیر ان رہ گیا کہ عمران خان مجھ سے بہت اچھے طریقے سے ملے جیسے ان کو مجھ سے کوئی شکائت نہیں اور جیسے کوئی غیر معمولی بات نہ ہوئی ہو۔ میر ا خیال تھا کہ وہ گلہ کریں گےلیکن وہ بالکل نارمل تھے۔میں ان کی منافقت پر حیران تھا کیونکہ وہ عوام میں مجھ پر بھرپور تنقید کرتے تھے۔میں نے کہا آپ مجھے میر جعفر اور میر صادق کہتے ہیں ۔عمران خان صاف مکر گیا کہتا میں نواز اور شہباز کو کہتا ہوں ۔پھر کہتا کہ آپ ان کی حکومت گرادیں ،ان کو گھر بھیج دیں اور الیکشن کر وادیں ۔میں نے کہا کہ آپ تو اسمبلی میں ہی نہیں ہیں۔ 

جنرل باجوہ نے بتایا : عمران خان سے جب دوسری ملاقات ہوئی تو میں بڑے غصے میں تھاکیونکہ وہ مسلسل میرے بارے میں جھوٹ بول رہے تھے۔ میں نے عمران خان کو کہاآپ اپنی زبان پر کنٹرول کریں اوراپنے جھوٹوں کو لگام دیں ورنہ میرے پاس بھی کہنے کو بہت کچھ ہے آپ جھوٹ بولنا بند کریں۔عمران خان نے کہا آپ کیا کریں گے؟ میں نے کہا کیا آپ پلے بوائے نہیں رہے؟ آپ کی ویڈیوز بھی موجود ہیں، اگر زبان بند نہ کی تو گلہ نہ کیجئے گا ۔ اس طرح یہ ملاقات بھی تلخی پر ختم ہوگئی۔