استعمال کرنا حکمران طبقوں کا فن ہے

Asif Anayat, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

پچھلے دنوں میرے ایک عزیز خواجہ طاہر نے ایک میسج بھیجا کہ 21مئی کو یوم یکجہتی فلسطین مظاہرے ہوئے مگر جماعت اسلامی نے الگ جماعت اہل حدیث ساجد میر گروپ الگ اہل حدیث مشتاق چیمہ گروپ الگ تحریک خاکسار الگ اہل سنت مجددی گروپ الگ اہل سنت مولوی صادق گروپ الگ الگ مظاہرے کیوں کیے جبکہ مظاہروں کی تاریخ بھی ایک وقت بھی ایک عنوان بھی ایک تھا یکجہتی کو یکجا کر لیتے تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ یہ کیسی یکجہتی ہے کہ آپس میں یکجہتی نہیں اور فلسطین پر احسان ہو رہا ہے۔ 
میرے خیال سے معمولی معمولی جلسیاں اور ریلیاں دراصل ذاتی تشہیر تھی ان کا فلسطین سے کیا لینا دینا تھا۔ یہ غریب فروشی، نظریات فروشی، مسائل فروشی درو فروشی، حتیٰ کہ کشف و تصوف فروشی ہمارے ہاں نفع بخش کاروبار ہیں۔ 
ہمارے ہاں جعلساز بھرپور اداکاری کے ساتھ ہر شے کی فروخت میں مصروف ہیں۔ اب ہمارے وزیر اعظم کو ہی دیکھ لیں ان کی سیاست دیکھ لیں جو کہنے کو سیاست دان تو نہیں ہیں۔ انہیں سیاست نہیں آتی مگر یہ پہلے سیاست دان ہیں جن کے ہر فعل کا دفاع، مبہم بیان کا دفاع ان کے فالوورز نے کیا، میڈیا سے لے کر افراد تک جو جس کی حیثیت ہے عمران خان صاحب نے بھرپور استعمال کیا۔ ہر ایک کو سیڑھی کے زینہ کے طور استعمال کر کے اوپر چلتے گئے۔ 
قائداعظمؒ نے ایک قراقلی ٹوپی تحفہ میں نہ لی مگر ہمارے ہاں توشہ خانوں پر مقدمات بنے بہت اچھی بات ہے مگر ہمارے وزیراعظم کو شاید بالوں کی پیوند کاری اور پاؤں تک تمام بنیادی اور ضروریات زندگی لوگ تحفہ کر جاتے ہیں۔ 
عمران خان سیاست دان نہیں ہے تو یہ حال ہے کہ حمید گل کے ساتھ سیاست میں انٹری مارتے ہیں اور عبدالستار ایدھی کو مجبور کرتے ہیں کہ وزیراعظم محترمہ بے نظیر شہید کے خلاف ان کا ساتھ دیں ورنہ …… اور وہ کچھ عرصہ کے لیے ملک چھوڑ جاتے ہیں۔ میڈیا کی طاقت، نوجوانوں کے اضطراب کو استعمال کیا۔ خواتین کو سحر میں لیا گیا ہے۔
جلسے کنسرٹ کا روپ اختیار کر گئے۔ ملکی وسائل کے غلط ترین اعداد و شمار دیے اور ملک میں تمام سابقہ حکمرانوں کی سوائے (مارشل لاء) تمام کو چور ڈاکو تیسرے قرار دیا۔ 
وزیراعظم کو پارلیمنٹ کے سامنے دھرنے میں جو القابات، لغویات بولیں وہ اب تاریخ حصہ ہیں جس نے قومی سیاست اخلاقیات پر وہ اثرات چھوڑے کہ اخلاقی جرم جرم نہ رہا۔ میں تو کہتا ہوں جیسی بیورو کریسی اور حکمران ٹولہ مسلط ہے اخلاقی جرائم، انسانی سمگلنگ، ناجائز قبضہ مفت بھری، بھتہ خوری، ذخیرہ اندوزی کے مجرم اور جرائم پروری کے الزام میں جیلوں میں بند حوالاتیوں اور قیدیوں کو رہا کر دینا چاہیے۔ 
ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ حکومت میں نہیں ہیں ویسے حکومت کا پارلیمنٹ پر بھی ناجائز قبضہ ہی ہے جو 19 بلز رولز بلڈوز کر کے پاس کیے گئے۔ بہرحال عمران کی سیاست استعمال کرنا ہے۔ 10ڈاؤننگ سٹریٹ، انڈونیشیا، سنگا پور، امریکہ، چائنہ، ترکی، کوئی ملک ہو گا جس کے نظام حکومت کو اپنے ملک اپنانے کی بات نہ کی ہو اور پھر دیکھا کہ لوگ آقا کریمﷺ کے نام پر سب کچھ قربان کر دیتے ہیں تو ریاست مدینہ کے لفظ کو بھی استعمال کرنے سے دریغ نہ کیا۔ اب کارکردگی صفر ہوئی تو بیرون ملک پاکستانیوں کے ووٹوں کی طرف چل دیئے۔ عمران خان کے بیرون ممالک وہ لوگ حامی ہیں جنہوں نے کبھی پاکستان آنا ہے نہ یہاں دفن ہونا ہے البتہ جن کے رشتے دار ان کے بھیجے ہوئے پیسے پر تکیہ کرتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ وطن عزیز کے ہر شخص کی واحد تمنا زندہ رہنا بن گئی ہے 
عمران خان جانتے ہیں کہ یہاں پر بنیاد پرست عناصر اگر سیاست میں ہیں یا نہیں ہیں ان کا بہت شدید گہرا اثر ہے۔ ہر مکتبہ فکر کی بات کر لیں اس کی ڈنڈا فورس دہشت کی علامت ہے۔ عمران خان اپنا حلقہ انتخاب اس رائٹ ونگ کو بنانا چاہتے ہیں، یہ اپنی حکومت میں آئندہ انتخابات کی تیاری کے لیے صرف نعرے محفوظ کر رہے ہیں کہ میں نے NRO نہ دیا، میں نے اڈے نہ دیئے۔ عمران خان نے اقتدار کی خاطر افراد سے لے کر نظریات میڈیا سے اداروں ہر ایک کو استعمال کیا اور پھر پلٹ کر نہ دیکھا۔ اب ایف آئی اے پرتکیہ ہے ایف آئی اے ایسا ادارہ ہے کہ ملزم تو ملزم مدعی بھی خوار ہو جائے۔ میاں نواز شریف اپنے دوسرے دور میں ا س محکمہ کوہی  ختم کر کے اس کے ملازمین کو سر پلس پول اور دوسرے اداروں میں بھیجنے لگے تھے مگر چودھری محمد شریف کی درخواست پر محکمہ کو توڑنے سے باز رہے۔ ہمارے ہاں محکمہ جات کی کارکردگی پبلک سرونٹس ہونے کی بجائے عوام کوایذا رسانی کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔
بقول گوجرانوالہ کے ممتاز دانشور شاعر اور معروف قانون دان حافظ انجم سعید کے اگر کابینہ کا اجلاس ہو تو یونہی لگتا ہے جیسے ن لیگ، پیپلزپارٹی یا ق لیگ کی حکومت کا دور اور کابینہ کا اجلاس ہے۔ گویا تبدیلی بس اتنی ہے شوکت عزیز کی جگہ عمران خان آ گئے۔ انہی کے ارسطوؤں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اپنا ارسطو تو پہلے 100 دن میں چت ہو گیا تھا۔ دراصل انسان کسی کو دھوکہ دے کر کچھ وقت گزار لیتا ہے مگر جب وہ دھوکے میں اس حد تک آگے چلا جائے کہ خود فریبی میں مبتلا ہو جائے تو پھر قدرت کا قانون اس کا انکشاف ضرور کرتا ہے مگر ایک منطقی انجام کے ساتھ۔ 
سو جس چیز کا کوئی ماہر ہوتا ہے شوقین ہوتاہے وہی اس کے انجام کا باعث بنتی ہے۔ شہنشاہ ہمایوں ستاروں کی چال اور فلکیات کا ماہر تھا ستارہ دیکھتا ہوا چھت سے گرا، شیر کی قوت گینڈے اور ہاتھی سے زیادہ نہیں مگر اس کا دھاڑنا اس کی طاقت ہے یہی دھاڑنا اس کو شکاری کی گولی کے سامنے لے آتا ہے۔ سپیرے زیادہ تر سانپوں کے کاٹنے سے ہی مرتے ہیں۔ عمران خان استعمال کرنے کے ماہر ہیں اب یہ استعمال ہوں گے۔ امریکہ کو اڈے نہ دینا خوش آئند ہے کہ یہ ہمارے لوگوں کی سرشت میں شامل ہے کہ امریکہ کو اچھا نہیں سمجھتے اس میں شدت بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد آئی۔ 
مگر ساتھ ہی عذر پیش کر دیا کہ اڈے اگر دیئے تو دہشت گرد ہمیں نشانہ بنائیں گے گویا دوسرے طریقہ سے مدد مانگ لی کہ افغانستان سے انخلا کے بعد ہمیں تحفظ چاہیے۔ افغانیوں نے تو نام لیے بغیر انتباہ کر دیا تھا۔ ہمسایہ ممالک نے اگر امریکہ کو اڈے دیئے تو سخت ترین مشکل صورت حال سے دو چار ہوں گے گویا اڈے مسئلہ نہیں دہشت گردی سے تحفظ مسئلہ ہے۔ بھٹو ہر کوئی بنتا ہے مگر 5 جولائی 1977ء سے 4 اپریل تک عرصہ اور گڑھی خدا بخش کا قبرستان واپسی کی راہ دکھاتا ہے۔ جو لوگ سمجھتے ہیں عمران خان بنیادی طور پر سیاست دان نہیں وہ احمق ہیں خان صاحب بنیادی طور پر سیاست دان ہی ہیں یہ راستے میں کرکٹ تو ایک زینہ تھا جس پر پاؤں رکھ کر ہسپتال اور پھر نواز شریف سے زمین اور 50 کروڑ روپے لیے بدلے میں گالیاں اور انتقام، ڈاکوؤں چوروں کی حکومتوں کے نیب زدوں کو کابینہ کا حصہ بنایا۔ جن کو نازی کہتے تھے ان کو منایا۔ 
ان کی سیاست تاریخ میں ایک خوفناک باب کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔ کابینہ میں شامل رہنے کا معیار مخالفین کو گالی گلوچ کرنا ہی اس لیے ہے کہ وہ واپس اپنی سیاسی جماعت میں نہ جا سکیں مبادہ پی ٹی آئی واپس تانگے کی سواریوں والی پارٹی نہ بن جائے۔ استعمال کرنا حکمران طبقوں کی سیاست ہی نہیں طرز زندگی بھی ہے۔ اب سیاست کی شطرنج پر دیکھتے ہیں۔ خان صاحب مزید استعمال کرتے ہیں یا استعمال ہوتے ہیں۔ آپ اندازہ فرما لیں کہ جو سیاست دان نہیں وہ استعمال کرنے کا فن کس قدر جانتا ہے پھر مذہبی، سماجی، سیاست کرنے والے نجات دہندے ڈکٹیٹر اور میاں صاحب، زرداری صاحب کا اندازہ لگانا مشکل نہیں یہاں ہر کوئی ایسی دوسرے کو استعمال کرتا ہے یہی یہاں کا آئین اور قانون ہے، یہی دنیا کا بھی دستور ہے۔ بین الاقوامی قوتیں اپنے بغل بچہ ممالک اور بغل بچہ ممالک اُن کو استعمال کرتے ہیں۔