زندگی بچانے اور معیشت کی مضبوطی کیلئے تمباکو پر ٹیکسز میں اضافہ ضروری ہے: مرتضی سولنگی 

زندگی بچانے اور معیشت کی مضبوطی کیلئے تمباکو پر ٹیکسز میں اضافہ ضروری ہے: مرتضی سولنگی 


اسلام آباد:سابق نگران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مرتضی سولنگی نے کہا ہے کہ تمباکو کی وبا کے خاتمے کیلئے صحت عامہ کی مداخلت، مضبوط تمباکو کنٹرول پالیسی اور آگاہی مہم جیسی جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے، سگریٹ کی کم قیمتیں بچوں اور نوجوانوں کی سگریٹ نوشی شروع کرنے کی بڑی وجہ ہیں۔ پاکستان تمباکو نوشی سے متعلق بیماریوں سے ہونے والے معاشی نقصانات کو کم کر سکتا ہے۔

انہوں نے ان خیالات کا اظہار بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ(سپارک)  کے زیر اہتمام منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا، سپارک کی جانب سے اس پالیسی ڈائیلاگ کا انعقاد پاکستان کی معیشت میں تمباکو کی صنعت کے کردار اور تمباکو کے استعمال کی وجہ سے صحت پر پڑنے والے بوجھ کو اجاگر کرنے کے لیے تمباکو پر ٹیکس لگانے کے حوالے سے کیا گیا تھا۔

پاکستان کے سابق نگراں وزیر اطلاعات و نشریات مرتضی سولنگی نے  مالی سال 25-2024 کے لیے تمباکو پر ٹیکس میں فوری اضافے کا مطالبہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ سگریٹ کی کم قیمتیں بچوں اور نوجوانوں کی سگریٹ نوشی شروع کرنے کی بڑی وجہ ہیں، تمباکو نوشی کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور اموات کے باعث ہر سال پاکستان کے جی ڈی پی میں کافی زیادہ معاشی بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ صحت کی لاگت کے یہ بڑھتے ہوئے بوجھ سے صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات، بیماری اور قبل از وقت موت کی وجہ سے پیداوری کے نقصانات کے ساتھ ساتھ دیگر بالواسطہ معاشی اثرات شامل ہیں۔ تمباکو کے استعمال کو روکنے سے پاکستان تمباکو نوشی سے متعلق بیماریوں سے ہونے والے معاشی نقصانات اور صحت کی دیکھ بھال کے نظام پر پڑنے والے بوجھ کو ممکنہ طور پر کم کر سکتا ہے اور نوجوانوں کو تمباکو کے استعمال کے نقصانات سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔

کمپین فار ٹوبیکو فری کڈز کے کنٹری ہیڈ ملک عمران احمد نے تفصیل سے بتایا کہ تمباکو پر حالیہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی سے متعلق اصلاحات سے ریونیو وصولی کے حوالے سے امید افزا نتائج سامنے آئے ہیں ۔ جولائی 2023 سے جنوری 2024 تک کی وصولیاں  122 ارب روپے سے تجاوز کر چکی ہیں، جو کہ پورے سال کے تخمینوں کے ساتھ دو سو ارب روپے سے زیادہ ہے، جو پچھلے مالی سالوں کے مقابلے میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ مزید برآں ان اصلاحات سے مالی سال 24-2023 کے لیے سگریٹ پر جنرل سیلز ٹیکس  (جی ایس ٹی )کی مد میں 60 ارب روپے اضافی حاصل ہونے کی توقع ہے۔ ایف ای ڈی اور جی ایس ٹی کے مشترکہ اثرات کا تخمینہ لگ بھگ 88 ارب روپے ہے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں تقریبا 49 فیصد کی غیر معمولی نمو کو ظاہر کرتا ہے۔

ملک عمران نے مزید کہا کہ مالی فوائد کے علاوہ یہ اصلاحات تمباکو کے استعمال کو کم کرکے اور پاکستان میں تمباکو نوشی سے منسلک صحت کی دیکھ بھال کے کل اخراجات کے 17.8 فیصد کی ممکنہ وصولی کے ذریعے صحت عامہ کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ جس سے محصولات میں اضافہ اور صحت عامہ کی حفاظت کے ذریعے حکومت اور پاکستان کے عوام دونوں کو فائدہ ہوتا ہے۔

 پروفیسر ڈاکٹر مطیع الرحمان، ڈین الائیڈ ہیلتھ کیئر سائنسز، پھیپھڑوں کے امراض اور تمباکو کنٹرول، ہیلتھ سروسز اکیڈمی نے کہا کہ تمباکو سے متعلقہ بیماریاں جنہیں غیر متعدی امراض بھی کہا جاتا ہے جیسے کینسر، ذیابیطس اور دل کی بیماریاں سالانہ 160,000 سے زیادہ اموات کا باعث بنتی ہیں۔ پاکستان یہ اموات نہ صرف افراد کو متاثر کرتی ہیں بلکہ خاندانوں، برادریوں اور صحت کی دیکھ بھال کے نظام پر بھی طویل مدتی اثرات مرتب کرتی ہیں۔

 تقریب سے اپنے خطاب میں اسپارک کے پروگرام مینیجر ڈاکٹر خلیل احمد ڈوگر نے کہا کہ پاکستان کے بچوں کو تمباکو کی صنعت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ "تمباکو نوشی کے متبادل" کو بطور گاہک سامنے لایا جا سکے۔ 6 سے 15 سال کی عمر کے تقریبا 1200 پاکستانی بچے روزانہ سگریٹ نوشی شروع کرتے ہیں۔

ڈاکٹر خلیل ڈوگر نے مزید کہا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اپنے بچوں اور نوجوانوں کو ایسی صنعت سے بچانے کے لیے متحد ہونا چاہیے جس سے قومی خزانے کو اربوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ تمباکو پر ٹیکس میں اضافہ ایک ایسا قدم ہے جس پر باقاعدگی سے عمل درآمد ہونا چاہیے تاکہ نوجوان نسل کو تمباکو جیسی لعنت سے دور رکھا جا سکے۔

مصنف کے بارے میں