مہنگائی پھر لوٹ آئی

Nasif Awan, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

ووٹوں کے حصول کے لئے تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں مستعد نظر آتی ہیں مگر عوام کے مسائل کے حل کے لئے انہیں سانپ سونگھ جاتا ہے جامد و ساکت، کوئی باقاعدہ احتجاج نہیں کیا جاتا کوئی شور شرابا نہیں ہوتا مگر عوام نے بھی یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے انہوں نے ”دھڑا کٹنا“ ہے یہی وجہ ہے کہ اب جب حکومت نے پٹرول مہنگا کیا ہے تو کوئی منظم رد عمل سامنے نہیں آیا بس گھروں میں افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ دیکھیں جی عمران خان کی حکومت لوگوں کا جینا حرام کر رہی ہے آئے روز ان پر مہنگائی کا ہتھوڑا برسا رہی ہے پھر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ایسا بیس تیس برس سے مسلسل ہوتا چلا آ رہا ہے اس سے ظاہر ہے کہ کسی کو بھی غریب عوام کا خیال نہیں کوئی جس طرح بھی گزر بسر کرے اسے کیا؟
یہ کیسی عجیب بات ہے کہ آئی ایم ایف ہو یا ورلڈ بینک حکومت اس کا کہنا تو مانتی ہے مگر اپنے لوگوں کو نظر انداز کر دیتی ہے ٹھیک ہے ملک کی معیشت رواں رکھنے کے لئے اسے ان دو بڑے عالمی مالیاتی اداروں سے بھاری رقوم بطور قرض لینا ہوتی ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ان کی ہر شرط کو تسلیم کر لے اس کو یہ سمجھ نہیں کہ جب وہ ان کی ہر بات مان لیتی ہے تو اس کے منفی نتائج بھی برآمد ہو سکتے ہیں اور اگر گزشتہ ادوار کا تجزیہ کیا جائے تو ان اداروں کے مطالبات ماننے سے کچھ حاصل نہیں ہوا ان کے پیش کئے گئے غیر ترقیاتی و غیر پیداواری منصوبوں نے نقصان ہی پہنچایا اور یہ پہلو بھی قابل غور ہونا چاہیے کہ اب تک ہم قرضوں سے صنعتوں کا جال بچھانے میں ناکام رہے ہیں یہ قرضے ہمیں عارضی طور سے چند سہولتیں ہی فراہم کر سکے ہیں ہماری نگاہ سے کوئی ایسا دیرپا منصوبہ نہیں گزرا کہ جو ہماری معیشت کو مضبوط و توانا بناتا ہو۔
سوال یہ ہے کہ جو ہم پہلے بھی کسی کالم میں کر چکے ہیں کہ ایسا کب تک چلے گا قرضے پے قرضہ لے کر اپنے معاشی حالات کیسے درست کر سکیں گے لہٰذا ہمارے تھنک ٹینکوں کو سوچنا چاہیے اور حکومتی و حزب اختلاف کے لوگوں کو بھی غور و فکر کرنا چاہیے مگر انہوں نے اس مسئلے کا حل نج کاری نکالا ہے اس کا حل یہ نہیں، پہلے وجوہات تلاش کی جائیں کہ یہ سب کیوں ہوا کیسے ہوا اگر لوٹ مار نے معاشی بحران کو جنم دیا ہے تو اس کا سد باب کیا جائے کسی نے لاپروائی کی ہے تو بھی اس سے پوچھ گچھ کی جائے یعنی اس نظام کو بدلا جائے جس نے نوبت یہاں تک پہنچائی ہے مگر ہمارے سیانے جھٹ سے نج کاری کی طرف دوڑ پڑتے ہیں یہ ایک ملک ہے اسے آزاد اور خود مختار رہنا ہے۔
بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں اور بڑے بڑے سرمایہ دار جو لوگوں سے نہیں اپنے منافعوں سے پیار کرتے ہیں وطن عزیز کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہوتا پسند نہیں کریں گے یہ ان کی تاریخ ہے انہیں پیسہ عزیز ہوتا ہے انسان نہیں لہٰذا پی ٹی آئی کی حکومت جس نے تبدیلی کا نعرہ لگایا ہے کو چاہیے کہ وہ سنجیدہ فہمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مستقل منصوبوں کو متعارف کرائے اور ان عالمی مالیاتی اداروں سے جان چھڑانے کے لئے کوئی پروگرام دے۔ ہمارے ہاں ایسے دماغ موجود ہیں جن کی دانش سے بھر پور فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
خیر اس وقت بڑھتی ہوئی اشیا کی قیمتوں نے عوام کی حالت ابتر کر دی ہے ان کا مطالبہ ہے کہ جن اہل اختیار نے ان کے سرمایے پر ہاتھ صاف کیے ہیں انہیں قانون کی گرفت میں لایا جائے۔ اب تک جتنے بھی قرضے لئے گئے ہیں ان کا زیادہ تر حصہ اہل اختیار کی تجوریوں میں گیا جس کی ادائیگی انہیں کرنا پڑ رہی ہے اور اس میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے لہٰذا آج واقعی ان کی کمر ٹوٹ گئی ہے ان کو اپنی زندگیوں کے لالے پڑ گئے ہیں لہٰذا حکومتی عہدیداروں کو دیگر صائب الرائے حضرات سے مل کر کوئی لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ نظام پوری طاقت سے اپنے پاؤں جمائے ہوئے ہے اور غریب عوام کو دکھوں کی چادر اوڑھائے ہوئے ہے مگر سوال یہ بھی ہے کہ عوام اپنے تئیں جو بھلائی کر سکتے ہیں وہ تو کریں یعنی ایک دوسرے کو سکھ پہنچانے کے حوالے سے جو کچھ کر سکتے ہیں وہ کریں جیسا کہ ایک دودھ فروش جو اصلی دودھ کے دام وصول کرتا ہے مگر اصلی دیتا نہیں اس میں کیا کیا کچھ ملایا گیا ہوتا ہے وہ سبھی جانتے ہیں دوائیں اصلی فروخت کر کے بھی عام آدمی کی حالت بہتر بنائی جا سکتی ہے ناجائز منافع خوری سے اجتناب برت کر بھی زندگیوں کو خوشگوار بنایا جا سکتا ہے ڈاکٹرز بھاری فیسیں نہ لے کر اور کم قیمت دوائیں تجویز کر کے بھی کروڑوں کا بھلا کر سکتے ہیں اشیائے خورو نوش میں ملاوٹ نہ کر کے دوسروں کی صحت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے وغیرہ وغیرہ مگر ایسا کرنے کے لئے شائد کوئی بھی تیار نہیں اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ہمارے اوپر مسلط حکمران طبقہ جب کھربوں کی جائیدادیں بنائے گا وہ بھی بیرون ممالک تو نیچے محکوم عوام بھی اس کا اثر ضرور لیں گے چاہے اس کی کوئی بھی شکل ہو مگر یہ بھی ہے کہ اگر عوام خود نہیں بدلتے اور حکمرانوں کے طرز عمل ہی کو اختیار کیے رکھتے ہیں تو آنے والے دنوں میں ان کی راہ میں مشکلات کے پہاڑ کھڑے ہوں گے لہٰذا ضروری ہو گیا ہے کہ ہر کوئی اپنے اندر تبدیلی لائے اس سے یقیناً حکمران طبقات میں بھی تبدیلی آئے گی جس سے نئے سرے سے ایک صحت مند معاشرے کی تعمیر ہو سکے گی اور پھر ترقی کے در وا ہوتے چلیں جائیں گے۔
بہرحال موجودہ حکومت جس نے تبدیلی سے متعلق بلند بانگ دعوے کیے تھے پورے کرنے میں ناکام رہی ہے اور پچھلے حکمرانوں کی طرح کی پالیسیاں وضع کرتی چلی جا رہی ہے جو بے حد مضر ثابت ہو رہی ہیں باوجود اس کے کہ لوگ نکو نک آ چکے ہیں وہ اس کا احساس نہیں کر رہی یہ اس کی کوئی حکمت عملی ہے کہ وہ انہیں عارضی طور پر پریشان کر کے آنے والے دنوں میں خوشحال کر دینا چاہتی ہے اس حوالے سے اسے عوام کو کچھ نہ کچھ ضرور بتانا چاہیے کیونکہ لگ رہا ہے کہ اب لوگ بالخصوص محنت کش خاموش نہیں رہیں گے سڑکوں پر آ جائیں گے۔