سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی

Amira Ehsan, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

غزوہ بدر کے بعد وقت تاریخ کے نشیب وفراز سے گزرتا ملت اسلامیہ کو تین براعظموں پر حکمرانی عطا کرتا افغانستان میں آکر ٹھہر گیا۔ اپنے وقت کی عظیم طاقت برطانیہ اپنی شامت اعمال کے تحت کابل، افغانستان میں آن اتری۔ (6 اگست 1839ء) تاہم بہت جلد شروع ہونے والی گوریلا جنگ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کو قرار پکڑنے نہ دیا۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ جنرل ایل فنسٹون نے 6 جنوری 1842ء کو 16 ہزار فوجی اور سویلین پر مشتمل نفری کے ساتھ کابل سے جلال آباد کے لیے کوچ کیا۔ کوہ ہندوکش کی جما دینے والی سردی، حملہ آور افغان قبائل کے رحم وکرم پر اپنے وقت کی سپرپاور کی فوج کے اس دستے پر جو کچھ بیتی اسے (2013ء میں) ’دی اکنامسٹ‘ کے ایک لکھاری نے ’برطانوی فوج (کی تاریخ میں) پر ٹوٹ پڑنے والا بدترین سانحہ آفت‘ قرار دیا۔ 11 جنوری 1842ء تک افغان حملوں سے براہ راست، زخمی ہوکر، سردی سے جم کر مرتے مراتے یہ فوج 200  رہ گئی۔ تآنکہ 13 جنوری تک 16 ہزار کی فوج مٹ چکی صفحہئ ہستی سے۔ آخری برطانوی، اسسٹنٹ سرجن ولیم برائیڈن زخمی حالت میں زخمی خچر پر سوار جلال آباد پہنچنے والا واحد شخص تھا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ فوج کو کیا ہوا؟ تو اس نے کہا: ’میں ہی فوج ہوں‘۔  برطانیہئ عظمیٰ کے لیے یہ اتنا ذلت آمیز دھچکا اور بھاری صدمہ تھا کہ برطانوی گورنر جنرل لارڈ آک لینڈ کی یہ خبر سن کر دماغ کی رگ پھٹ گئی، سڑوک ہوگیا۔ (یاد رہے کہ افغان جنگ میں امریکا کا مایہ ناز خصوصی مشیر برائے افغانستان رچرڈ ہالبروک بھی 2010ء میں شہ رگ پھٹنے سے مرا تھا۔ اس کے اعصاب پر یہ جنگ سوار تھی۔ آپریشن کے لیے جاتے ہوئے اس نے کہا: ’ہمیں افغانستان میں اس جنگ کو ختم کرنا ہوگا‘۔ یہی اس کے آخری الفاظ تھے!)
برطانیہ کے بعد قسمت آزمائی اپنے وقت کی اگلی سپر پاور روس نے کی، جس سے امریکا مسلسل سرد جنگ میں گھلتا رہا۔ اس کا قبرستان بھی افغانستان ثابت ہوا، دس سالہ زور آزمائی کے بعد۔ یہاں بے شمار مافوق الفطرت کرداروں اور کہانیوں نے جنم لیا،جو تاریخ خاموشی سے نگل گئی! صفحہئ قرطاس پر صحابہئ کرامؓ کے دور کی مشابہت لیے ہوئے یہ داستانیں جگہ نہ پاسکیں۔ اس سے مسلمان نوجوانوں میں بگاڑ کا خطرہ تھا! تاہم تاریخ کی بیش قیمت امانتوں میں سے ایک کردار روس کے خلاف برسرپیکار ایک فلسطینی مجاہد کا ہے۔ کل اور آج فراعنہ کے لشکر کو کھایا ہوا بھوسہ بنا دینے والی ابابیلوں کی کہانیوں میں سے ایک۔ مبنی برحق اور سچ!
یہ کہانی شیخ تمیم عدنانی کی ہے، جن کے دادا القدس شہر کے والی، سلطنت عثمانیہ کے اہم عہدے دار تھے۔ سقوط فلسطین کے بعد فلسطینی ہولوکاسٹ میں شیخ کے والد شام چلے گئے تھے۔ جہاں شیخ تمیم کو شام کے بڑے بڑے علماء سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا) جہاد افغانستان کے خلاف شروع ہوا۔ بعدازاں سعودی عرب میں ایک کمپنی میں اہم انتظامی عہدے پر تھے۔یہ شرکت کی سعادت کے لیے آن پہنچے۔ اس جنگ کا ایک معرکہ دیکھیے۔  
 1985ء، رمضان کا آخری روزہ تھا جب روسیوں نے تین یونٹوں کو بروئے کار لاتے ہوئے آپریشن کیا، یعنی 3 ہزار فوج مع ٹینکوں، طیاروں اور میزائل لانچروں کے۔ ایک لانچر میں بیک وقت 41 میزائل ڈالے جاسکتے اور بیک وقت سب داغے جاسکتے ہیں۔ یعنی 41 میزائل کا نشانہ جو بن رہا ہے اس کے قدموں تلے پہاڑ بھی لرزنے لگتا! مزید برآں مورٹر، مشین گنیں، بھاری توپیں، پانچ روسی بریگیڈ جن میں سے ایک سپیٹناز بریگیڈ (اعلیٰ ترین کمانڈوز) بھی تھا، حد درجہ تیز رفتار جسے ’روسی بجلی‘ کہا جاتا تھا۔ 
اس معرکے میں شیخ تمیم ایک درخت کے نیچے بیٹھے کہہ رہے تھے: ’اے موت دینے والے! میں رمضان کے اس آخری دن شہادت کا طلب گار ہوں، عطاء کردے!‘ انہوں نے قرآن کی تلاوت شروع کردی، اس حال میں جب ان کے چہرے کے سامنے اور کان کے پاس سے گولیاں گزر رہی تھیں۔ کوئی سوچ نہیں سکتا تھا کہ وہ درخت کے نیچے زندہ ہوں گے۔ طیارے بمباری کر رہے تھے۔ گولے اور میزائل داغے جا رہے تھے۔ جب شیخ تمیم ایسی آیت سے گزرتے، جس میں جنت کا ذکر ہوتا تو باربار دہراتے تاکہ یہ کہتے گولی لگے اور شہادت پائیں۔ جہنم کا ذکر آتا تو تیزی سے گزر جاتے پڑھتے ہوئے، کہ اس وقت گولی نہ لگے! لگاتار 4 گھنٹے گزر گئے، وہ بمباری کی بارش تلے پانچ پارے پڑھ گئے۔ (قاری نظر آتا ہے حقیقت میں قرآن!) درخت جل گیا۔ بمباری ختم ہوگئی۔ 
شیخ تمیم کہتے ہیں: ’اس دن مجھے یہ سمجھ آیا کہ کوئی موت نہیں ہے، کوئی نہیں مر سکتا جب تک وہ خاص لمحہ جو اللہ نے مقرر کر رکھا ہے، آ نہیں جاتا۔ کوئی خطرے میں ڈالنے والا خوف ناک اقدام مقررہ وقت کو قریب نہیں لاتا۔ نہ ہی تحفظ اور امن موت کو بھگاتا ہے۔‘ (موازنہ کیجیے! یہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر شہادت کے متمنی اور ادھر مریل بے وجود کورونا کے خوف سے لرزتے ماسک پہنے، دور سے کہنیاں دکھاتے ملاتے کڑیل جوان! سینی ٹائزر بردار، گوشہ نشین!)
سو خواہ یہ روس کے مقابل صف آرا کل کے مجاہدین تھے یا آج دنیا بھر کی فوجوں کی بارات کے مقابل اترنے والے ’دہشت گرد‘ طالبان۔ یہ کرائے کے فوجی نہ تھے۔ بلیک واٹر قبیل کے ملکوں ملکوں سے ڈالر کی خاطر اکٹھے کرکے لائے گئے فوجی کنٹریکٹروں کی سپاہ۔ یہ ریاست مدینہ سے اٹھنے والے (10 سالوں میں) 67 لشکروں کے سے سپاہی تھے، جو جنت کی شہریت پانے کے متلاشی تھے۔ روس کے خلاف جنگ میں جہاد کا احیاء کفر کے لیے حد درجہ خوفناک مظہر تھا، جسے کچلنے ہی کو امریکا نے 20 سال اپنی اور دنیا بھر کی فوجیں افغان کوہساروں سے سر پھوڑنے پر لگا دیں! نتیجہ ایک مرتبہ پھر سامنے ہے!
افغانستان میں روس کے بعد طالبان کی قائم کردہ ’اسلامی امارات‘ دنیا بھر کی حکومتوں، چمکتی دمکتی نہایت مہنگی جمہوریت (امریکی انتخابات کے اخراجات ملاحظہ فرما لیجیے!) کے بیچ جنگوں سے اجڑی معیشت، قحط زدہ علاقوں والا افغانستان حیرت انگیز نمونہ تھا۔ اس کی مشابہت، ایران اور روم کی بڑی سلطنتوں اور شاندار تہذیبوں کے بیچ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں شریعت کی بنیاد پر اٹھنے والی رحمانی (بہ مقابلہ شیطانی) ریاست مدینہ سے تھی۔ فاقے سے پیٹ پر بندھے پتھر، لیکن   ؎
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
کا سماں تھا۔ وہ طرز حکمرانی وجود پایا جس میں 
جرم ناپید تھا۔ خوف آخرت سے لرزتا غلطی سے جرم کر بیٹھتا تو خود پیش ہوکر کہتا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے پاک کردیجیے! (دنیا میں شرعی سزا دائماً گناہ دھو دیتی ہے!) جس نظام میں رعایا آرام امن اور راحت پاتی ہے۔ حکمران رات کا ایک حصہ (سیدنا عمرؓ کی طرح) پہرا دیتا، قوم کی دیکھ بھال میں سڑکوں پر چوکیداری کرتا ہے اور رات کا باقی حصہ سجدہ ریز ہوکر داڑھی آنسوؤں سے تر کرتا ہے۔ پھر مسلمان غلام ہوگئے تو گورے نے ہر جگہ داڑھیاں منڈوا دیں۔ نہ داڑھی ہوگی، نہ ہی دل گداز ہوکر رب تعالیٰ کے حضور آنسو بہائیں گے، شفا پائیں گے! دو صدیوں کی غلامی میں جو نسل پروان چڑھی، اسے دیکھ لیجیے۔ 
وہ آنکھ کہ ہے سرمہئ افرنگ سے روشن
پرکار وسخن ساز ہے نمناک نہیں ہے
اب حکمران جمہوری اسمبلیوں میں گریبان پھاڑتے، کرسیاں کتابیں سروں پر دے مارتے ہیں، مغلظات کی بوچھاڑ ہے۔وہاں ملاّعمرؒ کی امارت میں طالبان کی حکومت! اسلحے سے لدے افغانوں (جسے وہ زیور سمجھتے تھے) سے حکومت نے ایک حکم پر اسلحہ لے لیا۔ چھینا نہیں! عوام کا حکومت پر اعتماد اتنا تھا کہ شرعی قوانین کے نفاذ کے بعد پورا افغانستان جرم سے پاک ہوگیا تھا۔ سو اب اسلحے کی ضرورت نہ تھی! اتنی کمزور معیشت پر بھی پوست کی کاشت حکماً بند کردی اور پورے ملک کے طول وعرض سے (پہلے) دنیا بھر کی سپلائی ہوتی (براستہ پاکستان بھی) ہیروئن ومنشیات ختم کردی گئیں۔ امریکا تلے 20 سالوں میں پوست اور ڈرگز سپلائی عروج پر رہی۔
امن اور مساوات ملاّ عمرؒ کے ہاں مثالی تھا۔ گورنر ہاؤس میں پورا عملہ، گورنر، وزراء، چوکیدار، مالی، ڈرائیور ایک ہی دستر خوان پر جنگ زدہ معیشت میں (امریکا نے معاشی ناکہ بندی بھی تو کر رکھی تھی!) یکساں کھانا کھاتے۔ قہوہ اور روٹی اگر مزدور کھا رہا تھا تو گورنر کا لنچ، ڈنر بھی یہی تھا۔ نماز کے وقت دکانیں کھلی چھوڑکر سبھی مساجد میں سجدہ ریز ہوتے، ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز! محمود غزنویؒ کی سرزمین ازسرنو وہی مناظر لیے سج سنور گئی۔ اب دنیا کے حکمران، سیاست دان لرز اٹھے۔ طالبائزیشن کی اصطلاح کا کوڑا لہرایا گیا کہ اب یہ نظام برآمد ہوگا۔ جہاں سڑک کنارے بیٹھا منی چینجر، فرش پر چادر دھرے ڈالروں، ریالوں کے ڈھیر، ایک چادر سے ڈھانپ کر، کنارے پر پتھر رکھ کر (ہوا سے اڑ نہ جائے) بے خوف نماز کے لیے جاسکتا ہے۔ شریعت کی حکمرانی، قانون کا بلاامتیاز نفاذ، انصاف کی فراہمی ایسی تھی۔ تکلیف کا سامان دنیا کے لیے یہ بھی تو تھا کہ کمیونسٹ دور کی کم لباس حسینائیں، کابل کے سینما گھر کلب، سب خواب وخیال ہوگئے۔ نہ مہ رخوں کے جلوے نہ فلم موسیقی، شراب، شباب، رباب۔ سبھی منظر اجڑ گئے۔ گویا شیاطین اور چڑیلیں ویران روتی پھرتیں، کابل میں داخلہ ممنوع پاکر! یہ طبقہ ملک چھوڑ گیا۔ اب ایک مرتبہ پھر وہی منظر بننے کو ہے۔ گوروں کے غلام، فدوی مددگار افغان ترجمان غیرملکی فوجوں کے انخلاء پر ویزہ طلب ان کے سفارت خانوں میں ڈیرہ جمائے ہیں۔