کنگ رچرڈ کی کہانی

Muhammad Awais Ghori, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار پانچ ویمبلڈن جیتنے والی وینس ولیمز یا اس کی بہن 23بار ٹینس گرینڈ سلام چمپئن جیتنے والی اور کھیلوں کی دنیا کی شاندار ترین کھلاڑی کا اعزاز حاصل کرنے والی سرینا ولیمز کی کہانی بیان کی جاتی مگر جب کہانی ان کو بچپن سے اس مقام تک لانے والے کی ہو تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کتنی شاندارہو گی۔
کنگ کے ہاتھ میں مڑا ہوا نوٹ تھا اور یہ بچہ امریکہ کے ایک ایسے علاقے میں تھا جسے گوروں کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، ویسے تواس دور میں پورا امریکہ ہی گوروں کی کالونی تھا اور سیاہ فام لوگ جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہے تھے، کمسن رچرڈ دکان میںتھا اور اس کا باپ باہر اس کے انتظار میں، یہ امریکہ میں سیاہ فام لوگوں کے تاریک ترین دور کی کہانی ہے، خریداری کے بعد پیسوں کی ادائیگی کرتے ہوئے اس کا ہاتھ سفید فام کے ہاتھ سے ٹکرا گیا، یہ بات اس دور کے رواج کے مطابق ناقابل معافی جرم تھا، اس لئے ننھے رچرڈ کنگ کو زمین پر لٹا لیا  گیا اور گوروں نے اس پر ٹھڈوں اور مکوں کی بارش کر دی، رچرڈ کا باپ سڑک کے دوسری طرف کھڑا دیکھتا رہا ، اس کی نظروں میں بے بسی نظر آئی، معلوم نہیں کہ اس کے دل میں اپنے بیٹے کو بچانے کا خیال آیا یا نہیں مگر اس نے فوری طور پر مخالف سمت میں بھاگنا شروع کر دیا، ننھا رچرڈ زمین پر لیٹا تھا، سیاہ فام  اس پر ٹھڈوں اور مکوں کی بارش کر رہے تھے اور وہ بے سدھ اپنے باپ کو بھاگتا ہوا دیکھ رہا تھا، اس وقت اس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بچوں سے کبھی منہ نہیں پھیرے گا اور ہمیشہ مشکل وقت میں ان کے ساتھ کھڑا ہو گا۔
امریکہ میں ایک طرف سیاہ فام بتدریج اپنے حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہے تھے وہیں کنگ رچرڈ کئی بچوں کا باپ بن چکا تھا اور اس کو یہ معلوم ہو چکا تھا کہ اس کی دو بیٹیاں وینس اور سرینا کے اندر ٹینس کا پیدائشی ہنر ہے،ہر انسان دنیا میں ایک مختلف آئی کیو لیول لے کر آیا ہے، ہر کسی کو مختلف چیزوں میں سکون اور طمانیت ملتی ہے جیسے مجھے جو نشہ اور سکون کتابوں، فلموں اور واسو گیری میں ملا ہے وہ بیان سے باہر ہے، فلموں کے حوالے سے آپ اسے 
خوش قسمتی کہہ لیں یا بدقسمتی کہ میں ایک ایسے دور میں پیدا ہوا  جب آرٹ زوال کا شکار ہے، جو میوزک بننا تھا وہ بن گیا، جوفلمیں بننا تھیں وہ بن چکی گئیںاور اب انہیں فلموں کو مختلف انداز میں دہرایا جا رہا ہے، وہی گانے تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ دوبارہ بنتے جا رہے ہیں، مگر ول سمتھ کی فلم ’’کنگ رچرڈ‘‘ ایک الگ ہی دنیا نکلی۔
کنگ رچرڈ کویہ معلوم تھا کہ اس کی بیٹیوں میں کیا ہنر ہے ،وہ وقت کا پابند تھا ، اور ٹینس کی ٹریننگ کیلئے کسی نرمی کا قائل نہیں تھا، اس دور میں یہ رواج تھا کہ ٹینس امیروں اور گوروں کا کھیل سمجھا جاتا تھا ،رچرڈ اب اپنی بیٹیوں کو دنیا کے سامنے لانا چاہتا تھا مگر اس کیلئے ضرورت تھی ایک اچھے کوچ کی، سو رچرڈ مشہور زمانہ ٹینس کوچ وک بریڈن کے عالی شان گھر پر پہنچا، اسے اپنی بیٹیوں کی ویڈیوز دکھائیں اور درخواست کی کہ وہ اس کی بیٹیوں کو اپنی شاگردی میں لے مگر اس کوچ نے اسے بہت ہی دکھی کر دیا۔’’ ٹینس ان لوگوں کا کھیل ہے جو آسودہ ہوں، یہ سالہا سال کی محنت سے سکھایا جاتا ہے، انمول مشورے دینا پڑتے ہیں تب کہیں جا کر ایک ٹینس کا کھلاڑی وجود میں آتا ہے، تم یہ خواب دیکھنے چھوڑ دو کیونکہ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ اپنے گھر میں مورزاٹ (لافانی موسیقار) کے ساتھ زندگی گزار رہے ہوں۔
کنگ رچرڈ نے مایوس ہونا نہیں سیکھا تھا کیونکہ اپنی بیٹیوں کے مستقبل کو لے کر اس کا ایک منصوبہ تھا، اس نے ایک دن وینس اور سرینا ولیمز کو اپنی ویگن میں بٹھایا اورکامپٹن کے پوش ترین علاقے میں لے گیا، محل جیسے گھر دیکھ کر دونوں دنگ رہ گئیں ، سرینا کہنے لگی اگر یہ محل جیسا گھر میرا ہوتا تو میں اپنے کمرے کے ساتھ بڑا سا پول اور چھت سے وہاں تک ایک سلائیڈ بناتی، رچرڈ نے بیک ویو مرر سے اپنی بیٹیوں کو دیکھا اور کہا ’’تم ان سب میں سے جو بھی گھر چاہو وہ خرید سکتی ہو، یہاں ہی کیا بیورلی ہلز، ہالی ووڈ ہلز یا اور کسی بھی ہلز میں کیونکہ تم  ایک منصوبہ رکھتی ہو اور اس پر سختی سے کاربند بھی ہو‘‘۔ اس بار رچرڈ اپنی بیٹیوں کو لے کر ایک اور مشہور کوچ کوہن پال کے گھر پہنچا تھا، کوہن نے بہت کوشش کی کہ وہ واپس چلے جائیں مگر رچرڈ نے آخر کار انہیں راضی کر ہی لیا کہ وہ اس کی بیٹیوں کے کھیل کو دیکھیں، کوچ نے سرینا اور ولیمز کا کھیل دیکھا تو دنگ رہ گیا، مگر اس نے دونوں میں صرف ایک کو منتخب کیا اور وینس کی کوچنگ پر آمادہ ہو گیا، وینس کی ٹریننگ کا عمل شروع ہو چکا تھا، اس نے جلد ہی ٹینس کے جونیئر  مقابلوں میں فتح کے جھنڈے گاڑ دئیے مگر رچرڈ نے فیصلہ کیا کہ اس کی بیٹی جونیئر مقابلوں میں حصہ نہیں لے گی، اس کا خیال تھا کہ اس کی بیٹیاں ایک اچھی کھلاڑی ہیں، انہیں سکول جانا چاہیے، نارمل زندگی گزارنی چاہیے اور روزانہ وقت پر پریکٹس کرنی چاہیے اور جب ان کی عمریں ہو جائیں تو انہیں براہ راست راست ٹینس کے بڑے ٹورنامنٹس میں کھلایا جائے ، یہ ایک بہت حیران کن فیصلہ تھا ، یہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے کوئی گھر سے اٹھ کر قومی کرکٹ ٹیم میں کھیلنے کیلئے پہنچ جائے ،کوچ پال نے رچرڈ کو سمجھانے کی کوشش کی اور بتایا کہ یہ ایک ناممکن طریقہ ہے، اس طرح سے تم اپنی بیٹی کا مستقبل تباہ کر دو گے، مگر رچرڈ نہ مانا کیونکہ اس کے بقول وہ اپنی بیٹیوں کے مستقبل کو لیکر ایک منصوبے پر عمل پیرا ہے، کوچ پال نے رچرڈ کی منصوبہ بندی کو اس کی ہٹ دھرمی سمجھا اور اب وینس ایک بار پھر کوچ کے بغیر تھی۔
کنگ رچرڈ کو اس بار نئے کوچ کی ضرورت تھی مگر اب صورتحال بدل چکی تھی، وینس گیارہ اور سرینا دس سال کی ہو چکی تھی، اس بار کنگ رچرڈ نے ملک کے نامور کوچ رک میسی سے رابطہ کیا اور اسے بتایا کہ اس کی دو بیٹیاں سٹیٹ کی بہترین کھلاڑی ہیں، رک میسی کومپٹن پہنچا اور جب اس نے سرینا اور وینس کا کھیل دیکھا تو دنگ رہ گیا ، معاہدہ ہو گیا تو رچرڈ نے دوبارہ اس کے سامنے وہی شرط رکھی، رچرڈ کو اپنی ان دو بیٹیوں کے بدلے شاندار گھر، گاڑی اور پیسے مل چکے تھے جنہوں نے ایک بھی ٹورنامنٹ میں حصہ نہیں لیا تھا، میڈیا نے اس کو فراڈئیے کا لقب دینا شروع کر دیا مگر جب اس کی بیٹی وینس نے پہلا ٹورنامنٹ کھیلا تو وہ ایک سٹار بن چکی تھی، وہ فائنل تک پہنچی اور ہار گئی مگر اس سے اگلے ٹورنامنٹ میں وینس نے ایک کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیا جس کی مالیت 12ملین ڈالر تھی اور اس کے بدلے اس نے میچ میں صرف اس کمپنی کے جوتے پہننے تھے اور اس وقت اس کی عمر صرف 15سال تھی۔