بلا عنوان

Asif Anayat, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

 نفرت کی کوکھ سے کبھی محبت جنم نہیں لے سکتی اور جانبداری انصاف مہیا کر سکتی ہے نہ ہی شعور کی مثبت کونپلیں کھل سکتی ہیں۔ ہمارے ہاں دراصل نظریہ نفرت ہی نظریہ ضرورت ہوا کرتا ہے، جس کی بنیاد ذاتی مفاد اور دوسرے کا نقصان ٹھہرتی ہے۔ اشرافیہ اور شعور کے دعویدار اپنے اپنے نظریے کے منافق ثابت ہوئے۔ دو قومی نظریہ کی بنیاد بھی تو بنیے کی مسلمانوں سے نفرت ہی تھی ورنہ کئی صدیوں سے اکٹھے ہی رہ رہے تھے۔ نفرت پرور اور کینہ پرور کو شکار چاہیے بھارت میں ہندو کو مسلمان اور دیگر اقلیتیں مل گئیں۔ ہم نے اپنے ہاں مسلک، زبان، ذات، قومیت اور علاقائی بنیادوں پر اپنے ہدف کا تعین کر لیا۔ مقصد صرف اپنے اندر حس نفرت کی تسکین تھا۔
 انسانوں میں مختلف مشاغل مقبول عام ہیں جن میں کرکٹ، کبڈی، پہلوانی، کوئی اور کھیل، اچھے پکوان کھانا، گھڑ سواری، کشتی رانی، باکسنگ، گویا دنیا بھر میں ہر معاشرت اپنی اپنی روایات کے مطابق زمین سے جڑے مشاغل میں تسکین محسوس کرتی ہے مگر شکار انسانی مشاغل میں ہر معاشرت میں قابل ذکر و فخر ہے۔ شکار میں پرندوں، مچھلیوں اور جانوروں کے شکار ہیں۔ شیر کا شکار اب تک منفرد شکار ہے۔ انسان شیر کا شکار کر کے اس کی کھال میں بھوسا بھر کر یا ویسے ہی اس کی کھال سکھا کر اپنے ڈرائنگ روم میں سجا لیا کرتے ہیں۔ آنے والی کئی نسلیں اس بزرگ شکاری کے نام سے شکار کی کہانی کہاوت اور افسانہ سناتی پائی جائیں گی اور ہر بار اس کہانی میں افسانوی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ انسان شیر کا شکار کرے تو بہترین انسانی مشغلہ ہے اور اگر شیر پنجہ مار دے تو اس کی درندگی ہے، واہ کیا کمال ہے۔ انسان مارے تو مشغلہ شیر مارے تو درندگی، بس یہی ہمارا المیہ ہے کہ ہم جو کریں وہ انسانیت اور مخالف جو کرے وہ درندگی، کرپشن، لاقانونیت اور جرم ہے۔
 اگر زرداری صاحب بات کریں کہ ان سے وہ رابطے میں آئے تھے اور فارمولا کی بات کر رہے تھے تو ہر طرف سے کورس کی صورت میں آہ و بکا شروع ہو جاتی ہے۔ جب خبریں چلنے لگیں کہ میاں نواز شریف کی واپسی کی صورت گری ہو رہی ہے تو حکمرانوں کو وہ نواز شریف نہیں بلکہ ڈریکولا کی واپسی جب کہ وطن عزیز کے بڑے صوبے کے عوام کو بالخصوص اور وطن عزیز کو بالعموم نجات دہندہ کی واپسی دکھائی دیتی ہے۔
اگر حکمران یا شیخ رشید یہ کہیں یہ غلط ہے کہ عمران خان سے ہاتھ اٹھا لیا گیا ہے تو اہل اقتدار سکھ کا سانس لیتے ہیں۔ یہ قربتیں ایک کے لیے جائز اور دوسرے کے لئے باعث تشویش کیوں ہیں۔ اور جب شیخ رشید یہ کہے کہ سب گیٹ نمبر چار کی نرسری کی پیداوار ہیں تو پھر ایک قومی ادارے کی غیرجانبداری کے دعوے کیا ہوئے؟
میڈیا میں ماضی قریب سے ایسے ’’معتبر‘‘ تجزیہ کار آئے ہیں جو ایک خاص فارم ہاؤس سے تیار کیے گئے اور یہ برائلر عوامی سوچ کے ساتھ ساتھ زمینی 
حقائق، معاشرتی روایات کو بھی اپنے بے ربط خیالات میں بہا لے گئے۔ چند سال میں پروان چڑھنے والے برائلر تجزیہ کاروں اور اینکروں سے بھی کوئی منی ٹریل اور آمدن سے زیادہ اثاثے بلکہ اگر اخراجات کہا جائے تو اس میں ہر نوع کے حاکم طبقے اور اشرافیہ کے سب شعبے آ جائیں گے، مگر ہاتھ کون ڈالے گا۔
منو بھائی کا کہا ہوا یاد آتا ہے۔
احتساب دے چیف کمشنر صاحب بہادر!
چوراں، ڈاکواں، قاتلاں کولوں
چوراں، ڈاکواں، قاتلاں بارے کیہہ پچھدے او
یہ تہانوں کیہہ دسن گے، کیوں دسن گے؟
دسن گے تے جنج وسدے نیں، کنج وسن گے
ہماری آزادی کا تو یہ عالم ہے کہ ایک اہل میراث غریب مسکین روزانہ چودھری کی چاکری کے لیے حاضر ہوتا، چودھری کہتا یار دادا آج گوشت بہت کھایا ہے ہضم نہیں ہوا، کھٹے ڈکار آ رہے ہیں۔ وہ غریب جو نمک مرچ لسی دال اچار سے کھانا کھا کر آیا ہوتا، روزانہ چودھری کی باتیں سن سن کر ایک دن کہنے لگا چودھری صاحب گبھرانا نہیں یہ گوشت ستویں پیڑی (ساتویں نسل) کو جا کر ہضم ہونا شروع ہوتا ہے۔ آپ تو ابھی پہلی نسل ہیں۔ یہی حالت کچھ برائلر اینکرز، نئے نئے حکمرانوں اور بیوروکریسی کی ہے۔
عمران خان اور کچھ نہ کرتے کم از کم یہ سرکاری افسران کی ایکڑوں میں پھیلی ہوئی کوٹھیاں ہی ایک کنال کے گھر پر محیط کر دیتے۔ یہ جی او آرز، ریلوے کے افسران، بیورو کریسی کی کنالوں اور ایکڑوں پر پھیلی ہوئی کوٹھیاں ہی سائز میں لے آتے، پروٹوکول کے کانوائے ہی کنٹرول کر پاتے تو لوگ سمجھتے کچھ تبدیلی آئی ہے۔ اس پروٹوکول کی نودولتیے بھی نقل کرنے لگے، 3/4 ڈالے آگے پیچھے لگا کر لوگوں کی اہانت کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔
اگر ریاست مدینہ کا نام لیا تھا تو جناح کیپ، سبز رنگ کی شیروانی، کالی ویسکوٹ سفید شلوار قمیص کلرکوں، اہلمدوں، چپڑاسیوں کا لباس نہ رہنے دیتے۔ جبکہ فرنگی کا لباس عدالتی افسران، بیورو کریسی اور حکمران سرکاری طبقات زیب تن کئے ہوئے ہیں اس میں ہی تبدیلی لے آتے۔اس کے لئے تو آئی ایم ایف کی ضرورت تھی نہ ہی کسی ورلڈ بینک کی اور نہ ہی سابقہ حکومتوں کی کوئی رخنہ اندازی۔ مگر ہوا کیا وزیراعظم نے کار چھوڑ کر ہیلی کاپٹر پر گھر جانا شروع کر دیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کروڑوں کی گاڑیاں منگوانے لگے۔ پہلی بار ڈی سی، کمشنر، ڈی آئی جی اور دیگر عہدوں پر تعیناتی کے عوضانہ کی بازگشت فضاؤں میں سنی جانے لگی۔
مگر قوم اور فیصلہ ساز بھی کیا کریں کتنی احتیاط کریں۔ میرے ابا جی کا سنایا ہوا ایک واقعہ یاد آ گیا ،وہ ابھی لڑکپن میں تھے۔ ایک دوست، آزادی سے پہلے کی بات ہے میرے ابا جی کے پاس آئے کہ میں نے کار خریدی ہے۔ میرے لیے ڈرائیور کا بندوبست کر دیں مگر ڈرائیور مسلمان ہو۔ مسلمان بہت کم ڈرائیور تھے زیادہ تر سکھ ڈرائیور تھے اور ہندو نوکری نہیں کرتے تھے یا بہت کم ہندو نوکری کرتے تھے۔ بہت ڈھونڈا مگر کوئی مسلمان ڈرائیور گوجرانوالہ میں نہ ملا۔ بالآخر میرے ابا جی کہنے لگے کہ حافظ صاحب کیا وجہ ہے آپ اتنے متعصب کیوں ہیں کہ فلاں ڈرائیور نہ ہو، مسلمان ڈرائیور ہو؟ وہ کہنے لگے کہ میں متعصب نہیں، دراصل وہ ڈرائیور شراب کے عادی ہوتے ہیں اور کہیں گاڑی مار دیں گے۔ میرے ابا جی نے کہا کہ آپ جتنی مرضی احتیاط کر لیں، مسلمان ڈرائیور رکھ لیں، ہندو ڈرائیور رکھ لیں، اگر سامنے سے شرابی ٹکرا گیا تو کیا کریں گے؟ وطن عزیز کے عوام اور فیصلہ سازوں نے بہتیری احتیاط کی مگر سامنے سے کوئی نہ کوئی شرابی ٹکر گیا۔
 نظریاتی اور جبلتی یا فطرتی اعتبار سے ہم سب مطلق العنان ہیں۔ ہم اپنی رائے کو آخری رائے سمجھتے ہیں۔ سامنے والے کی ہتھیلی پہ لکھا 9 ہمیشہ 6 نظر آتا ہے۔ مگر اس بات کا اہتمام نہیں کرتے کہ جگہ بدل کر یہ دوسرے کی طرف سے نظر آنے والا 9 پڑھ لیں۔ موجودہ دور کے حکمرانوں نے اور کچھ دیا کہ نہیں مگر ڈھٹائی کا تحفہ ضرور دیا۔ 6 اور 9 کا فرق ضرور دیا،شیر اور شکاری کا فرق، سامنے سے شرابی یا نشئی ٹکر جانا تو الگ بات ہے۔ ہم جب تک نفرت کی بنیاد پر فیصلے کریں گے ہم آہنگی کی معاشرت کبھی جنم نہیں لے سکتی جو ترقی کی ضمانت ہوا کرتی ہے۔