وزیراعظم محفوظ رہیں گے یا نااہل، پاناما کیس کا فیصلہ کچھ دیر بعد

وزیراعظم محفوظ رہیں گے یا نااہل، پاناما کیس کا فیصلہ کچھ دیر بعد

اسلام آباد: سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ صبح ساڑھے 11 بجے کورٹ روم نمبر ایک میں وزیراعظم کی اہلیت یا نااہلی کے متعلق فیصلہ سنائے گا۔

اس حوالے سے درخواست گزاروں عمران خان، سراج الحق، شیخ رشید اور مدعا علیہان وزیراعظم، انکے بچوں، اسحاق ڈار اور کیپٹن (ر) صفدر کے وکلا کو نوٹس جاری کر دیے گئے تھے۔ اسکے علاوہ سیکرٹری داخلہ، سیکریٹری قانون و انصاف اور سیکریٹری الیکشن کمیشن کو بھی نوٹس جاری کیے گئے۔

یاد رہے جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 3 رکنی عملدرآمد بینچ کے روبرو جے آئی ٹی نے 10 جولائی کو اپنی رپورٹ پیش کی تھی اور عدالت نے 5 سماعتوں کے دوران رپورٹ پر فریقین کے اعتراضات سنے اور 21 جولائی کو فیصلہ محفوظ کیا۔ اب حتمی فیصلے کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان کی طرف سے 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا ہے۔

واضح رہے پاناما کا معاملہ گزشتہ سال اپریل میں سامنے آیا تھا جس نے ملکی سیاست میں ہلچل مچا دی۔ حزب اختلاف نے وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا لیکن انھوں نے اس کو مسترد کرتے ہوئے معاملے کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تحقیقاتی کمیشن کے ضوابطِ کار کی تشکیل کے لیے بھی طویل نشستیں ہوئیں لیکن کوئی حل نہ نکل سکا۔ اس موقع پر تحریک انصاف سڑکوں پر نکل آئی اور 2 نومبر کو اسلام آباد کے لاک ڈاؤن کی کال دی اس دوران عمران خان، سراج الحق اور شیخ رشید احمد کی جانب سے سپریم کورٹ میں وزیراعظم نواز شریف، ان کے بیٹوں حسین نواز ، حسن نواز، مریم نواز، کیپٹن صفدر اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی نااہلی کیلئے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت درخواستیں دائر کر دی گئیں جنہیں ابتدا میں رجسٹرار آفس نے اعترضات لگا کر واپس کرد یا تاہم بعد ازاں سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے اعتراضات ختم کرتے ہوئے اپنی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل فل بنچ کے روبرو سماعت کیلے مقرر کر دیا تھا۔

20 اکتوبر 2016 کو پہلی سماعت کی گئی اور تمام فریقوں کو نوٹس جاری کیے گئے۔ 28 اکتوبر کو سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی، جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس امیرہانی مسلم، جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے کرمزید سماعت یکم نومبر کو مقرر کر دی گئی۔ لارجر بینچ نے 9 سماعتیں کیں لیکن 9 دسمبر 2016 کو سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی ریٹائرمنٹ کے باعث کیس کی سماعت نئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے یکم جنوری 2017 کو حلف لینے تک ملتوی کر دی گئی تھی۔ اسی سماعت پر تحریک انصاف عدالتی کمیشن بنانے کے مطالبے سے منحرف ہو گئی۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے حلف اٹھاتے ہی جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں نیا 5 رکنی لارجر بنچ تشکیل دیا جس نے 4 جنوری 2017 کو کیس کی پہلی سماعت کی مسلسل 26 سماعتیں کرنے کے بعد 23 فروری کو فیصلہ محفوظ کر لیا۔ کیس کا عبوری فیصلہ 57 روز بعد 20 اپریل کو جاری کیا گیا جس میں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے وزیراعظم کو نااہل کرنے کا فیصلہ سنایا جبکہ 3 ججز نے مزید تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔

پانچ مئی کو تشکیل پانے والی جے آئی ٹی نے 8 مئی سے کام کا آغاز کرنے کے بعد 63 روز میں اپنی تحقیقات مکمل کی۔ اس دوران 3 عبوری رپورٹس بھی پیش کی گئیں جبکہ حسین نواز کی طرف سے جے آئی ٹی میں ویڈیو ریکارڈنگ اور تصویر لیک ہونے کیخلاف معاملہ اور نہال ہاشمی کی متنازع تقریر پر ازخود نوٹس کیس کی سماعتیں بھی عملدرآمد بینچ کے سامنے ہوئیں تاہم 50 سماعتوں کے بعد یہ معاملہ آج اپنے انجام کو پہنچ جائے گا۔

 

سیکیورٹی ہائی الرٹ

پاناما کیس کے فیصلے کے پیش نظر سیکورٹی ہائی الرٹ ہے اور اہم مقامات ریڈ زون اور سپریم کورٹ کے اطراف پولیس، رینجرز اور ایف سی کے 3 ہزار اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔

پولیس کے مطابق غیر متعلقہ افراد کا ریڈ زون میں داخلہ ممنوع ہے جبکہ میڈیا نمائندوں کو کوریج کے لیے خصوصی سیکورٹی پاس جاری کیے گئے ہیں۔سپریم کورٹ کے گرد حفاظتی رکاوٹیں اور خاردار تاریں لگائی گئی ہیں اور درخواست گزاروں کو اپنے ساتھ غیر متعلقہ افراد کو ساتھ لانے کی اجازت نہیں ہے۔

سپریم کورٹ رجسٹرار کی جانب سے جاری پاسز کے بغیر کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ریڈ زون میں موجود دفاتر میں کام کرنے والے افراد دفتری ریکارڈ اپنے ساتھ رکھیں۔

نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں