داستان ایک سیلابی ریلے کی

داستان ایک سیلابی ریلے کی

اَندھی عصبیت ایک طرف رکھتے ہوئے عمران خان کے ستّائیس سالہ سیاسی سفر کو حقائق کی کسوٹی پر پَرکھا جائے تو اُن کی فردِ سیاست میں کوئی ایک بھی ایسا نقش ِجمیل دکھائی نہیں دیتا جسے اُن کی حکمت ودانش، سیاسی بالغ نظری اور جمہوری پختہ کاری کی علامت قرار دیاجاسکے۔ اُن کی کہانی ایک بے سمت سیلابی ریلے کی داستان ہے جو چھاجوں برستی بارشوں سے پھوٹتا، خَس وخَاشاک سمیٹتا، کَف اُگلتا، پتھروں سے سَر پٹختا، گھمن گھیریاں کھاتا، ہر دو قدم بعد ایک موڑ کاٹتا، اپنے آپ سے اُلجھتا پاس پڑوس کے کسی دریا میں ضم ہوجاتا ہے۔ اِس ریلے کا بے ہنگم ہیجان کھیتوں کو سیراب کم اور تاراج زیادہ کرتا ہے۔
تحریک انصاف 1996 میں قائم ہوئی۔ 1997 میں عمران خان نے بہ یک وقت آٹھ حلقوں سے انتخاب لڑا۔ آٹھوں میں ہار گئے۔ اِس پہلی انتخابی شکست کو اُنہوں نے سیاست کے بڑے سبق کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا۔ پلّے باندھ لیا کہ اقتدار کا سرچشمہ عوام نہیں، یہ جُوئے شِیر کسی اور چٹان سے پھوٹتی ہے۔ 1999 میں مشرف کو شاداب چراگاہوں کے متلاشی ڈھورڈنگروں کے علاوہ جس سیاستدان کی والہانہ حمایت ملی اُس کا نام عمران خان تھا۔ رُسوائے زمانہ ریفرنڈم کے حامیوں کی میراتھن میں وہ سب سے آگے رہے۔ سو نشستوں کی صورت میں خدمت گزاری کا صلہ مانگا تو مشرف نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ اتنی کرم نوازی ضرور ہوئی کہ پہلی بار قومی اسمبلی میں پہنچ گئے۔ خان صاحب کی شخصیت میں واقعی ”نیا پاکستان“ تعمیر کرنے کا جوہر ہوتا تو پارلیمنٹ میں اپنی سیاست وخطابت کا لوہا منواتے، ولولہئِ تازہ کی جوت جگاتے اور بھٹو کی طرح روایتی سیاستدانوں کو روندتے ہوئے کوسوں آگے نکل جاتے۔ اُنہیں دو نہایت طاقتور اور معتبر قائمہ کمیٹیوں کا رُکن بنایاگیا۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور کشمیر کمیٹی۔ اگر کرپشن اُن کا مسئلہ ہوتی تو پی۔اے۔سی کے فورم سے تلاطم اٹھادیتے۔ کشمیر کمیٹی عالمی سطح پر انہیں متعارف کراتی۔ وہ کبھی اِن کمیٹیوں کے اجلاس میں گئے نہ ہی ایوان میں باقاعدگی سے حاضری دی۔ بالآخر مستعفی ہوگئے۔ 
2008 میں ادراک ہی نہ کرسکے کہ ایک نوزائیدہ جماعت کو انتخابات سے باہر رکھنا بَلَاکی بے حکمتی ہے۔ 2013 میں حسبِ خواب انتخابی کامیابی نہ ملی تو آتش زیرپا ہوگئے۔ ایوان کے بجائے سڑکوں چوراہوں کو ٹھکانا بنالیا۔ مستقبل کی ساری امیدیں مقتدر غیرجمہوری قوتوں سے جوڑ لیں۔ اونچی بارگاہوں سے آنے والی ہدایات کو گئے وقتوں کی بِیبیوں کے ”بہشتی زیور“ کا درجہ دے دیا۔ اُدھر کے اشاروں پر دھرنے دیتے، استعفے داغتے اور بحران تخلیق کرتے رہے۔ اِس بار بھی پارلیمنٹ کو اپنی توانائیوں کا محور بنانے کے بجائے ”امپائر کی انگلی“ کی طرف دیکھتے رہے۔ استعفے 
دیئے، پھر واپس لے لیے۔ ایوان میں توانا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے دو بڑے حریفوں کو زِچ کئے رکھنے کا موقع گنوادیا۔ 2018 کے انتخابات سے بہت پہلے متبرّک گوشوں کی ہوائیں اُنہیں گود لے چکی تھیں۔ نواز شریف کو عمر بھر کے لئے نااہل کیا جاچکا تھا، جنرل فیض حمید کے بقول ”دوسال کی محنت“ خان صاحب کی راہوں میں تختہ ہائے گُل بچھا چکی تھی۔ آخری ضرب آر ٹی ایس پرلگائی گئی۔ خان صاحب وزیراعظم بن گئے۔ وہ ہماری تاریخ کے سب سے طاقت ور سربراہِ حکومت تھے۔ بھٹو سے نوازشریف تک ہر مضبوط اور مقبول وزیراعظم کی پُشت پر تازیانے برسانے اور اُن کے اَنگ اَنگ پر چرکے لگانے والے مقتدر حلقے، خان صاحب کے آستانہِ عالیہ میں ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوگئے۔ چارسُو ایک پیج کا ڈَنکا بجنے لگا۔ خان صاحب کے لہو میں کوئی چنگاری ہوتی تو وہ اتنی سازگار آب وہوا کے زور پر اُسے الاؤ میں بدل دیتے۔ تاریخ کا بے مثل وزیراعظم بن کر ابھرتے۔ افسوس کہ اُن کی ترجیحات حریفوں پر غداری، چرس برداری اور کرایہ داری جیسے الزامات کے درمیان جھُولا جھولتی رہیں۔ لوگوں کو جیل میں ڈالنا اپنی کارکردگی کا حُسن سمجھتے رہے۔ بیساکھیوں کو سہارا سمجھنے کے بجائے اپنا ہتھیار سمجھ بیٹھے۔ اپنے پاؤں پر چلنا تو کیا، کھڑے ہونا بھی نہ سیکھا۔ بیساکھیاں چھن گئیں تو ڈولتے ڈگمگاتے، گرتے پڑتے آگے بڑھنے کی کوشش کی۔ سازشوں کے پیکر تراشے۔ امریکہ کو للکارا۔ اپنے محسنوں کو مغلّظات سنائیں۔ نگرنگر پراپیگنڈا کمپنیوں کی خدمات حاصل کیں۔ گھنٹوں طویل تقریریں کیں۔ ان کے فدائین رقصِ درویش میں مگن رہے لیکن ابلاغیاتی چکا چوند کے باوجود عمران خان ایک سنجیدہ خُو، معاملہ فہم اور مستقیم فکر راہنما نہ بن پائے۔ 
گزشتہ ایک سال کے کمالِ فن پر ایک نظر ڈالیے۔ اِنہی دنوں عدمِ اعتماد کا ناقوس بجا تو سورج یکایک سوا نیزے پہ آٹھہرا۔ چار سال کی بے حکمتی کا ثمر تھا کہ بالشت بھر سایہئِ دیوار بھی میّسر نہ آیا۔ ریوڑ ہانک کر لانے والے گڈریے روٹھ گئے۔ جنرل باجوہ کو تاحیات توسیع کی پیش کش کی لیکن رُت بدل چکی تھی۔ قاسم سوری کی آئین شکن رُولنگ اکارت گئی۔ عارف علوی کے ہاتھوں اسمبلی تڑوادی۔ بات نہ بنی۔ باجماعت استعفے دے دئیے کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ بانس بھی سلامت رہا اور بانسری بھی بجتی رہی۔ پہلے شمال اور پھر جنوب سے یلغار اٹھائی کہ کروڑوں لوگ ہم رکاب ہوں گے اور اسلام آباد دہل جائے گا۔ خواب شرمندہئِ تعبیر نہ ہوا۔ نئے آرمی چیف کا راستہ روکنا چاہا۔ ناکام رہے۔ ”منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید“ کے مصداق یکے بعد دیگرے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں توڑ دیں۔ اپنی ہی حکومتوں کے حلقوم پر خنجر چلایا۔ اپنے ہی وزرائے اعلیٰ کو گھر بھیج دیا۔ ”سیاسی حکیمانہ سوچ“ یہ تھی کہ قومی اسمبلی کے انتخابات کو بھی صوبائی انتخابات کی طرح نّوے دِن کے اندر اندر کھینچ لائیں گے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں صوبوں کے انتخابات کو بھی اکتوبر تک دھکیل دیاگیا۔ ایک سال پر محیط اِن کرتب کاریوں کا آخری باب یہ ہے کہ مقدّمات ساون بھادوں کی طرح برس رہے ہیں۔ ضمانتیں بھلے ہورہی ہیں لیکن آوازے پڑ رہے ہیں۔ انہونیاں چار سو منڈلا رہی ہیں۔ بنی گالا تو گزشتہ برس ہی حریفوں کے ہاتھ آگیا تھا اب زمان پارک بھی ”بدخواہوں“ کی دسترس میں آچکا ہے۔ سب کچھ لٹا دینے کے بعد ایک بار پھر امریکی ایوان، ریڈزون کے سفارت خانے، اقوامِ متحدہ کے دربار، لابنگ فرمز اور زلمے خلیل زاد قبیل کے لوگ مسیحا ٹھہرے۔ یہ ہے اِس عہد کے نابغہئِ روزگار بیانیہ ساز اور سیاسی حکمت کار کے دَستِ معجز نما کے کرشمے۔ 
اُستاد ابراہیم ذوق نے کہا تھا 
ہم سے بھی اِس بساط میں کم ہوں گے بَدقمار 
جو چال ہم چلے سو نہایت بُری چَلے 
لیکن اِس سب کچھ کے باوجود خان صاحب کی حکمت کاری اور بیانیہ سازی پر ایمان نہ لانا، گناہِ کبیرہ ہے۔ سوشل میڈیا کے ہنرکار، بدستور تارِزَر سے میناکاری کررہے ہیں۔ خان صاحب کی شخصیت کے گرد نورانی ہالہ بنا ہوا ہے۔ اِس نورانی ہالے کے نیم وا دریچوں سے اندر جھانکنے والوں کو اب بھی عصرِ حاضر کا سب سے بڑا بیانیہ ساز اور سیاسی حکمت کار ہی دکھائی دیتا ہے۔