صوبہ خراسان میں انتہا پسند تنظیم میں بھارتی افراد کی بھرتی  

Recruitment of Indians in an extremist organization in Khorasan Province
کیپشن: فائل فوٹو

کابل: افغانستان کے صوبہ خراسان میں انتہا پسند تنظیم (آئی ایس کے پی) گزشتہ کئی سالوں سے بھارتی افراد کو شام، افغانستان میں لڑائی اور مغرب کو نشانہ بنانے کیلئے بھرتی کرتی رہی ہے۔ اشرف غنی کی حکومت اپنے دور میں اس گروپ کے ساتھ ڈائیلاگ میں ناکام رہی تھی۔ آئی ایس کے پی نے بھارتی خفیہ ادارے ''را'' کی مدد سے کئی دہشتگرد حملے کئے جس کے باعث افغانستان اور پاکستان میں خواتین اور بچوں سمیت سینکڑوں بے گناہ لوگ جاں بحق ہوئے۔

اے پی پی اردو کے مطابق کابل پر طالبان کے قبضہ اور غیر ملکیوں کے فوری انخلاء کے ساتھ یہ گروپ اس وقت تک خاموش نظر آیا جب اس نے دنیا کو خطرناک وجود یا دلایا۔ افغانستان میں کابل ایئر پورٹ کے باہر دو دھماکوں کے فوراً بعد آئی ایس کے پی نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی جن میں 170 سے زائد شہری، 13 امریکی فوجی جاں بحق اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ اماق نیوز ایجنسی نے خود کش بمبار عبدالرحمان ال لوگری کی تصویر جاری کرتے ہوئے آئی ایس کے پی کے بیان میں بتایا کہ آئی ایس کے پی نے کابل ایئر پورٹ پر حملہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے خود کش بمباروں نے جمعرات کی شام حملوں میں امریکی فوج کے ساتھ کام کرنے والے متراجم اور اس کے ساتھیوں کو نشانہ بنایا جن میں 28 طالبان بھی جاں بحق ہوئے۔

مغربی انسداد دہشت گردی کے ماہرین کے مطابق گروپ کے ارکان کی تعداد 5 ہزار سے زائد ہے جن میں سے زیادہ تر نے اپریل 2019ء میں ایران کے راستہ افغانستان میں آئی ایس کے پی میں شمولیت اختیار کی۔ بھارت میں آئی ایس کے پی زیادہ تر کرناٹکہ اور کیرالہ میں موجود ہے جس کی قیادت محمد امین کر رہا ہے جس کا تعلق کیرالہ میں مالہ پورم سے ہے۔

آئی ایس کے پی داعش سے وجود میں آئی جو عراق اور شام میں ایک عالمی اسلامی خلافت قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ سیکورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایس کے پی 2014ء میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ٹوٹنے، افغان طالبان اور شام میں القاعدہ کے منحرف ارکان کے باعث قائم ہوئی جس نے داعش کے رہنما ابوبکر البغدادی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا اعلان کیا۔

اس گروپ کا شمال مشرقی افغانستان میں مضبوط گڑھ ہے جبکہ کابل اور دیگر صوبوں میں اس کے سلیپر سیلز ہیں۔ آئی ایس کے پی کے دہشت گرد عراق اور شام میں حملے کرتے رہے ہیں اور مغربی اہداف کو نشانہ بناتے رہے۔ حالیہ برسوں میں یہ گروپ افغانستان اور پاکستان میں سنگین دہشت گرد حملوں کا ذمہ دار ہے جس سے ہسپتالوں ، مساجد اور عوامی مقامات پر لوگ جاں بحق ہوئے۔

مئی 2020ء میں کابل کے میٹرنٹی وارڈ میں ایک خطرناک حملہ میں 24 افراد جاں بحق ہوئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ نومبر میں گروپ نے کابل یونیورسٹی پر حملہ کی ذمہ داری قبول کی جس میں 22 اساتذہ اور طلبہ جاں بحق ہوئے۔ سی این این کے بین الاقوامی نامہ نگار چیف کلیریسا وارڈ نے کنہڑ سے کابل شہر میں ایک ہوٹل میں آئی ایس کے پی کے کمانڈر عبدالمنیب کے ساتھ بات چیت کی جس نے دعوی کیا کہ اس کی کمان میں 600 سے زائد افراد ہیں جس نے طالبان پر تنقید کی اور کہا کہ یہ دیگر قوتوں کے زیر اثر ہیں جو سختی سے شریعت نافذ نہیں کر رہے۔

اس نے مزید افراد بھرتی کرنے اور اپنی کارروائیاں دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا ۔ آئی ایس کے پی بارے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مانیٹرنگ ٹیم کی حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ داعش نے اپنی تنظیم میں مزید افراد بھرتی کرنے اور نئے سپورٹرز کی تربیت کو ترجیح دی۔ اس کے رہنمائوں کو امید ہے کہ ضدی طالبان اور دیگر شدت پسندوں کو اپنے ساتھ ملانے کیلئے راغب کیا جائے گا جو امریکہ اور طالبان کے درمیان افغانستان میں قیام امن کیلئے معاہدہ کو مسترد کرتے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آئی ایس کے پی دیگر صوبوں نورستان، بدکس، سری پل، بغلان، بدخشاں، قندوز اور کابل منتقل ہو گئی ہے اور اس کے دہشت گردوں نے سلیپر سیلز قائم کئے ہیں۔ گروپ نے کابل اور اس کے اطراف اپنے ٹھکانوں کو مضبوط بنایا ہے جہاں یہ اپنے زیادہ تر حملے کرتا ہے اور اقلیتوں، کارکنوں اور سرکاری ملازمین کو نشانہ بناتا ہے تاہم شدید اختلافات کے باعث افغان طالبان افغانستان سے آئی ایس کے پی کے ساتھ لڑنے کیلئے سامنے تھے جس نے ان سے ملک کا وسیع علاقہ کلیئر کرایا۔ 2020ء کے اوائل میں امارات اسلامی افغانستان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دعوی کیا کہ زیادہ تر علاقہ سے گروپ کو باہر نکالا گیا۔

حالیہ برسوں میں پاکستان کو متعدد خطرناک حملوں کا سامنا رہا جس نے گروپ کے خلاف سخت کارروائی کی۔ پاکستان کے انسداد دہشت گردی کے ادارہ نے ایسی کوششوں کو ناکام بنانے اور خطرات کے خاتمہ کیلئے انٹیلی جنس پر مبنی کئی کامیاب آپریشنز کئے۔ نومبر 2020ء میں پاکستان نے ملک میں دہشت گردی میں بھارتی خفیہ اداروں کے ملوث ہونے کے بارے میں دنیا کو ثبوت پیش کئے۔

آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ حال ہی میں بھارت کے دو انٹیلی جنس افسران نے بھارت سے 30 دہشت گردوں کو پاکستان افغانستان کی سرحد پر بھیجا جہاں انہیں داعش کے کمانڈر شیخ عبدالرحیم المعروف عبدالرحمان مسلم دوست کے حوالہ کیاگیا۔ جنوری 2021ء میں فوجی ترجمان نے ایک اور پریس بریفنگ کے دوران بتایا تھاکہ افغانستان میں آئی ایس کے پی بھارت کی مدد اور افغان حکومت کی نااہلی سے پروان چڑھ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں داعش کے نقوش ہیں جسے راء کی حمایت حاصل ہے،اس حوالہ سے بڑا ثبوت دستیاب ہے مگر ہم افغان حکومت کے ساتھ رابطہ میں ہیں، ہم انہیں اپنے ایشوز اور تشویش سے آگاہ کر رہے ہیں، ہم ان کے ساتھ مسلسل رابطہ میں ہیں۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو 80 ہزار سے زائد جانی نقصان ہوا اور 150 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا۔

سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے اپنی کتاب جنوبی ایشیاء میں داعش ازم کے قیام اور توسیع میں بھارت کے کردار میں بتایا کہ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول نے 2014ء میں عراق کا دورہ کیا اور داعش کے سربراہ سے ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کیلئے ملاقات کی اور اس انتہا پسند گروپ کے دیگر رہنمائوں سے بھی ملاقات کی۔ راء کے تعاون سے آر ایس ایس اور داعش کا گٹھ جوڑ سامنے آ رہا ہے جو ریکارڈ پر ہے جس کا انکشاف دہلی میں مشرق وسطی کے ایک سفیر نے بھی کیا ہے۔

انہوں نے کردستان میں داعش کی جانب سے بہت سے بھارتیوں کو تربیت دینے کی تصدیق کی۔ رپورٹ کے مطابق آر ایس ایس اور داعش راء کی ایماء پر کشمیریوں مسلمانوں کے صفایا کیلئے ایک بڑے بھارتی منصوبے پر عمل درآمد کرنا چاہتے ہیں جو مقبوضہ کشمیر سے مسلمانوں کے خاتمہ کیلئے دہشت گردی کر رہے ہیں۔

آئی ایس کے پی گزشتہ کئی سالوں سے بھارتی افراد کو بھرتی کرنے کی کوششیں کر رہی ہے اور افغانستان،شام ، عراق اور افریقہ سے تعلق رکھنے والے اپنے ارکان کے ساتھ باقاعدہ رابطے میں ہے ،تنظیم نے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم اور ہوپ اور ٹیلیگرام جیسی اپنی ایپلی کیشنز کے ذ ریعے پیغام رسانی اور پوسٹ کی۔

مغربی انسداد دہشتگردی کے ماہرین کے مطابق کئی بھارتی افراد نے اس وقت آئی ایس کے پی میں شمولیت اختیار کی جب 2015میں افغانستان صوبہ ننگر ہار میں اس کا باقاعدہ قیام ہوا جو نئے ارکان بھرتی اور فنڈز بھی جمع کرتی ہے، جب امریکہ نے اپریل 2017میں افغانستان کے ننگر ہار صوبہ کے ضلع آچن میں مدد آف آل بمبرز (ایم او اے بی) کے ذریعے حملہ کیا تو آئی ایس کے پی میں شامل 13بھارتی دہشت گرد اور 2بھارتی کمانڈرز ہلاک ہوئے ۔

ایک کارگو طیارہ کے ذریعے بھاری مقدار میں گولہ بارود گرایاگیا جس کا مقصد غار اور سرنگ میں گروپ کے افراسٹرکچر کو تباہ کرنا تھا ۔ افغان پجحوک نیوز ایجنسی کے مطابق جی بی یو ۔ 43/bحملہ میں 96دہشت گرد ہلاک ہوئے جن میں سے 13بھارتی تھے ۔

صوبہ خراسان میں اسلامی ریاست میں آئی ایس کے پی جو داعش کے نام سے جانی جاتی ہے نے 25مارچ 2020کو کابل میں ایک گوردوارہ پر حملہ کیا جو ایک بھارتی محمد مہاسن نے کیا تھا، جس کا تعلق کیرالہ سے ہے جسے افغان سیکیورٹی فورسز نے حملے کے دوران ہلاک کیا ۔کابل پر طالبان کے قبضہ کے وقت اشرف غنی کی ختم ہوتی ہوئی حکومت نے بگرام جیل سے قیدی رہا کئے جن میں 14کا تعلق بھارتی ریاست کیرالہ سے تھا ،جنہیں آئی ایس کے پی کے ساتھ کام کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا ، یہ افراد کابل ایئرپورٹ پر ایک خطرناک حملہ کی سازش میں ملوث تھے ۔

طالبان کے مطابق رہائی پانے والے کیرالہ کے 14افراد میں سے ایک نے اپنے گھر رابطہ کیا اور کہا جاتا ہے کہ حملہ میں ملوث یہ بڑے گروپ کا حصہ تھا۔ مالاپورم ،کاسا راگود اور کنہڑ کے اضلاع میں رہنے والے کیرالہ کے افراد مشرق وسطی میں داعش میں شمولیت کے لئے بھارت سے منتقل ہوئے ، ان دہشتگردوں میں سے بعض کے خاندان آئی ایس کے پی کے تحت رہائش پذیر ہونے کے لئے افغان صوبہ ننگر ہار بھی آئے ۔

اگست 2020میں کیرالہ کے ایک اور جہادی ابوروہا المہاجر نے صوبہ ننگر ہار میں جلال آباد جیل پر ایک خودکش گاڑی کے ذریعے حملہ کیا جس کے بعد آئی ایس کے پی کے دہشتگردوں نے حملہ کیا ۔آئی ایس کے پی کے ترجمان سلطان عزیز اعظم کے مطابق حملے میں 3بھارتیوں نے حصہ لیا ،آئی ایس کے پی نے 3بھارتی شہریوں کی تصویر جاری کیں جنہوں نے اگست 2020میں ننگر ہار جیل پر حملہ کیا ، امریکی خارجہ پالیسی کے میگزین کے مطابق ایشائی اور وسطی ایشیائی اور بھارتی افراد کی موجودگی ایک نیا مظہر ہے جو داعش سے منسلک جہاد ی عزم کے پہلو میں تبدیلی ہے ۔

میگزین نے2019میں سری لنکاکے ایسٹر حملہ اور کابل میں ایک گوردوارے پر حملہ میں بھارت کے ملوث ہونے کی نشاندہی کی ۔ کابل ایئرپورٹ حملے کے دو دن بعد ننگر ہار میں ایک امریکی ڈرون کارروائی میں آئی ایس کے پی کے دو خطرناک دہشتگرد ہلاک ہوئے ، امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ افغانستان میں آئی ایس کے پی کو نشانہ بنانے کے لئے امریکی ڈرون کارروائی آخری نہیں ہوگی ۔

انہوں نے انتہا پسند گروپ کی جانب سے ایک اور حملے کے خطرہ سے خبردار کیا ۔ انہوں نے کہاکہ ہم کابل میں اپنے فوجیوں اور شہریوں پر حملہ کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کریں گے ۔ پینٹاگان میںایک مشترکہ پریس کانفرنس میں امریکی فوج کے اعلیٰ افسر میجرجنرل ویلیم ٹیلر نے کہا کہ امریکی کارروائی میں داعش کے دو بڑے اہداف کو ہلاک کیا گیا ۔پینٹا گان کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ امریکی انٹیلی جنس معلومات کی بنا پر کارروائی کی گئی ۔

ویلیم ٹیلر نے کہا کہ امریکی فورسز نے داعش کے منصوبہ ساز اور سہولت کار کے خلاف آپریشن کیا ۔ انہوں نے دو دہشتگردوں کے ہلاک اور ایک کے زخمی ہونے کی تصدیق کی اور کہا کہ اس کارروائی میں کوئی شہری زخمی نہیں ہوا ۔