اے ڈی سی نے جنرل باجوہ کے کہنے پر سائفر چوری کیا، میرے خلاف سازش کا آغاز جنرل فیض کو تبدیل کرنے سے ہوا : عمران خان

 اے ڈی سی نے جنرل باجوہ کے کہنے پر سائفر چوری کیا، میرے خلاف سازش کا آغاز جنرل فیض کو تبدیل کرنے سے ہوا : عمران خان

 راولپنڈی: بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ سائفر کی حفاظت کی ذمہ داری مجھ پر عائد نہیں ہوتی، میرے اے ڈی سی میں سے ایک نے باجوہ کے ایما پر سائفر چوری کیا، اصل سائفر میرے پاس تھا ہی نہیں جو لہرایا تھا وہ سائفر کی پیرا فریزڈ کاپی تھی۔

عدالت میں دیے گئے 342 کے بیان میں عمران خان نے کہا کہ سائفر وزیراعظم آفس میں تھا اور سیکیورٹی کی ذمہ داری ملٹری سیکٹری، پرنسپل سیکرٹری اور سیکرٹری پروٹوکول پر عائد ہوتی ہے جو وزیراعظم ہاؤس کی سیکیورٹی کو دیکھتے ہیں، میرے ساڑھے تین سال کے دوران یہ واحد ڈاکیومنٹ ہے جو وزیراعظم آفس سے مسنگ ہوا، سائفر مسنگ ہونے پر ملٹری سیکریٹری سے کہا جائے کہ انکوائری کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ یہ وہ واحد موقع تھا جب میں ملٹری سیکٹری سے ناراض بھی ہوا، میرے اے ڈی سی میں سے ایک نے جنرل باجوہ کے ایما پر سائفر چوری کیا ملٹری سیکٹری نے انکوائری کے بعد بتایا کہ سائفر کے حوالے سے کوئی کلیو نہیں ملا۔

 
 عمران خان نے کہا کہ منتخب وزیراعظم کو سازش کے ذریعے ہٹایا گیا، جنرل باجوہ اور امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ ڈونلڈ لو سازش میں شامل تھے، میری حکومت گرانے کے لیے سازش اکتوبر 2021ء میں ہوئی جب جنرل باجوہ نے آئی ایس آئی چیف جنرل فیض کو تبدیل کیا۔

  

بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ نواز شریف اور شہباز شریف کی ملی بھگت سے یہ سب ہوا کیونکہ انہوں نے جنرل باجوہ کو مدت ملازمت میں توسیع کا وعدہ کیا تھا، حسین حقانی کو امریکا میں جنرل باجوہ کی لابنگ کے لیے ہائر کیا گیا جس کے لیے حسین حقانی کو 35 ہزار ڈالر کی ادائیگی کی گئی، اپریل میں حسین حقانی نے ٹویٹ کیا کہ عمران خان اینٹی امریکا جبکہ جنرل باجوہ پرو امریکا ہے۔

 
عمران خان نے کہا کہ ہمارے اتحادی ہمیں چھوڑ جائیں اس کے لیے جنرل باجوہ نے آئی ایس آئی کو استعمال کیا آئی ایس آئی نے ہمارے لوگوں کو پی ٹی آئی چھوڑنے پر مجبور کیا اور کہا کہ ان کا مستقبل نون لیگ کے ساتھ ہے، میں نے جنرل باجوہ سے مل کر اس سازش کے بارے میں بات کی تو انہوں نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں، جنرل باجوہ سے ملاقاتوں کے باوجود آئی ایس آئی ہماری حکومت کے خلاف کام کرتی رہی۔

 
انہوں نے بتایا کہ مارچ کے پہلے ہفتے میں میرا روس کا دورہ تھا جس میں دفتر خارجہ کی مرضی بھی شامل تھی روس جانے سے قبل جنرل باجوہ سے بھی بات ہوئی جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ روس جانا چاہیے، روس سے واپس آنے کے کچھ دنوں بعد شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ واشنگٹن سے اسد مجید نے سائفر میسج بھیجا ہے یہ حیران کن سائفر تھا جو وزیر خارجہ اور وزیراعظم کو دکھانے کے لیے نہیں تھا، شاہ محمود قریشی نے اسد مجید کو ٹیلی فون کر کے سائفر سے متعلق معلومات حاصل کیں میں سائفر کو پڑھ کر حیران اور ششدر رہ گیا۔

 
عمران خان نے کہا کہ امریکی آفیشل کے ساتھ میٹنگ میں کسی سفیر کو دھمکایا گیا ہو اس کی مثال نہیں ملتی جس میں کہا گیا ہو کہ اگر وزیراعظم کو نہ ہٹایا تو اس کے نتائج برآمد ہوں گے اسد مجید نے ڈونلڈ لو کو بتایا تھا کہ دورہ روس پر تمام اسٹیک ہولڈر آن بورڈ تھے اسد مجید نے امریکا کو ڈی مارش کرنے کا کہا تھا ہمارے اتحادی پیغام بھیج رہے تھے کہ ان پر اتحاد چھوڑنے کے لیے آئی ایس آئی کا دباؤ ہے۔

بیان میں عمران خان نے کہا کہ اس دوران امریکی سفارت خانہ بھی پاکستان میں متحرک تھا ہمارے لوگوں کو امریکی سفارت خانے ملاقاتوں کے لیے بلایا جا رہا تھا عاطف خان کو امریکی کونسل خانے بلا کر کہا گیا کہ وزیراعلی خیبر پختون خوا کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ دیں اس دوران جنرل باجوہ سے متعدد ملاقاتیں ہوئیں اور ملاقاتوں میں کہا گیا تھا کہ اگر حکومت گرائی جاتی ہے تو معیشت تباہ ہو جائے گی کہا گیا کہ شہباز شریف کی حکومت جو پلان کی جا رہی ہے وہ معاشی صورتحال سنبھال نہیں پائے گی۔

عمران خان نے بیان میں کہا ہے کہ جنرل باجوہ مسلسل جھوٹ بولتا رہا کہ وہ حکومت کو چلنے دینا چاہتے ہیں پریڈ گراؤنڈ جلسے میں پیپر لہرایا اور صرف خطرے کا ذکر کیا ملک کا نام نہیں لیا اور الفاظ کا بھی محتاط چناؤ کیا گیا جو پیپر لہرایا گیا وہ اصل نہیں بلکہ سائفر کی پیرا فریزڈ کاپی تھی پلان جنرل باجوہ کو پیغام دینا تھا کہ اگر سازش ہوئی تو تمام پلان ایکسپوز کر دیا جائے گا۔

بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ ڈونلڈ لو کی جانب سے سائفر جنرل باجوہ کے نام تھا کیونکہ جنرل باجوہ کے پاس ہی ہماری حکومت گرانے کی طاقت تھی اس کے بعد سندھ ہاؤس میں بولیاں لگیں ایک ایک ایم این اے کی قیمت 20 کروڑ فکس کی گئی اٹارنی جنرل نے سائفر پر بات کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ آئی ایس آئی نے انہیں اپروچ کیا تھا حکومت گرائی گئی، میں عوام میں گیا عوام کا ردعمل تاریخی تھاا ور کچھ ماہ بعد ہونے والے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی 37 میں سے 30 نشستیں جیتی۔
 

مصنف کے بارے میں