یہ ہے پاکستانیوکی آواز…؟؟؟

یہ ہے پاکستانیوکی آواز…؟؟؟

وزیر اعظم عمران خان جب اقتدار میں نہیں آئے تھے ہر وقت میڈیا کی آزادی کی بات کرتے تھے اور اقتدار میں آتے ہی پینترابدل لیا اور میڈیا کا گلا گھونٹنے لگے اور آج تک اسی رو ش پر چل رہے ہیں اور ایک بار پھرروز نامہ نئی بات کے اشتہارات بند کرکے میڈیا کی آزادی کے اپنے ہی دعوے کی نفی کرڈالی جس کیخلاف میڈیا تنظیمیں سراپا احتجاج بن گئیں جبکہ دوسری طرف اے پی این ایس نے بھی پنجاب گورنمنٹ کی طرف سے روزنامہ نئی بات کو اشتہارات کی بندش پر شدید مذمت کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب پر زور دیا ہے کہ وہ متعلقہ اخبار کے اشتہارات کی ترسیل فی الفور بحال کرنے کی ہدایت کریں،اے پی این ایس نے کہا ہے کہ پنجاب حکومت نے اداراتی پالیسی اور مواد کی وجہ سے روزنامہ نئی بات کو صوبائی حکومت کے اشتہارات کی فراہمی روک دی ہے جو آزادی صحافت پر حملہ کے مترادف ہے، اشتہارات کا بطور آلہ استعمال آمرانہ حکومتوں کی پالیسی کا طرہ امتیاز ہے جو جمہوری طور پر منتخب حکومتوں کی طرف سے استعمال نہیں کیا جانا چاہئے ،ہو حکومت نے بھلے بھلے نہ کرنے پرمتعدد بار اخبارات اور چینلز کو بند کروا دیا طریقہ واردات وہی تھا کہ اشتہارات بن کردئیے گئے ، ڈان گروپ اور جنگ گروپ کیلئے وفاقی اور پنجاب و خیبر پختونخوا کی حکومتوں کے اشتہارات کے اجراء پر مستقل پابندی لگائی گئی یہ آزادی صحافت کی صریح خلاف ورزی تھی، میڈیا گروپس پر یہ پابندی نہ صرف آزادی صحافت کو کچلنے اور اخبارات کی ادارتی پالیسی کو کنٹرول کرنے کیلئے اشتہارات کو بطور آلہ استعمال کرنے کے مترادف ہے بلکہ اس کا مقصد اخبارات میں اختلاف رائے کو خاموش کرنا ہے، سرکاری اشتہارات پر پابندی حکومت کے ہاتھ میں ایک ایسا آلہ ہے جسے ہردورمیں استعمال کیا گیا، حکومت کی یہ پالیسی ان دعوئوں کے برعکس ہے کہ پاکستان میں میڈیا آزاد ہے، اشتہارات بند کرنے کا حربہ ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو اور دیگر سیاستدانوں نے بھی اپنایا اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا موڈ بھی یہی رہا تھا، حکمرانوں کو اصل تکلیف یہ ہے کہ میڈیا ملک میں جمہوری اداروں کی بالا دستی کی بات کرتا ہے، میڈیا پارلیمنٹ کی بالا دستی کے حق کی بات کرتا ہے اور پاکستان کے مفاد ات پر سودے بازی کیخلاف احتجاج کرتے ہیں جس پر حکمرانوں کو تکلیف ہوتی ہے،ہر شخص صحافت پر کسی بھی قسم کے دباؤ کیخلاف ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ میڈیا مظلوموں کی آواز ہے،پاکستان میں آتی جاتی حکومتیں سرکاری اشتہارات کو بطور اخبارات و رسائل کیخلاف بطور ہتھیار استعمال کرتی ہے وہ اسے صحافت پر حکومتی دباؤ قرار دیتے ہیں،ماضی میں بھی مختلف اخبارات کے اشتہارات بند کیے جاتے رہے ہیں، یہ پابندی حکمرانوں کی آمرانہ سوچ کا عکاسی کرتی ہے،اس اقدام سے اخبارات، چینلز اور رسائل کو سخت مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کسی بھی انڈسٹری کیلئے معاشی استحکام ضروری ہوتا ہے ، سرکاری اشتہارات میں واضح کمی نے بھی اخباری انڈسٹری کو بڑا دھچکا دیا ہے، سرکاری اشتہارات میڈیا انڈسٹری کیلئے ایندھن کا کام کرتے ہیں اور اخباری معیشت کا اس پر بڑا انحصار ہوتا ہے، اس وقت سرکاری اشتہارات بند ہیں جو عمومی طور پر ساری انڈسٹری کو متاثر کر رہے ہیں جن کا سارا انحصار صرف سرکاری اشتہارات پر ہے،تبدیلی سرکارکے دور میں اخباری صنعت کیلئے انتہائی کڑا وقت ہے ، امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں گراوٹ سے اخباری کاغذ کی قیمت دگنا ہو گئی ہے ، یہ اخباری صنعت کیلئے ایک نازک ترین صورتحال بن چکی ہے ،صحافت کی اصل آزادی کا انحصار پریس کی معاشی آزادی پر ہوتا ہے ، جب اخبارات کو باقاعدگی سے اشتہارات ملیں گے تو وہ اتنے مضبوط ہوں گے کہ موثر طور پر جمہوریت کی حمایت کریں ، نئے پاکستان میں میڈیا انڈسٹری مشکلات کا شکار ہے، اشتہارات پر پابندی لگانا اخباروں کا گلہ گھوٹنے کے مترادف ہے سرکار کے کاسہ لیسوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ میڈیا اتنا ہی ابھرے گا جتنا کہ اسے دباؤ گے، ایسی پابندیاں تو ملک میں فوجی حکمرانوں کے زمانے میں بھی دیکھنے میں نہیں آئیں جو اب لگائی جا رہی ہیں اور پھر کہا جاتا ہے کہ کسی نے اشتہارات بند کرنے کا حکم جار ی نہیں کیا تو پھر کون سے خفیہ ہاتھ ہیں کہ جو اشتہارات بند کرا کر حکومت کیخلاف جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں، ڈکٹیٹر ضیا الحق نے مخالف اخبارات خصوصاً مساوات کو بند کر دیا تھا جب صحافی سڑکوں پر نکل آئے تو جنرل ضیا نے آزادی صحافت کا مطالبہ کرنے والے صحافیوں کو کوڑوں کی سزا کے علاوہ سیکڑوں اخبار نویسوں، ایڈیٹروں، شاعروں اور ادیبوں کو جیلوں میں پھینک دیا تھا لیکن سچ کو پھر بھی نہ دبایا جا سکا ، جب سے پی ٹی آئی کی حکومت اقتدار میں آئی ہے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے خلاف ایک منصوبہ بندی کے تحت جنگ شروع کر دی گئی ہے،اس حکومت کے ساتھ میڈیا مخالف قوتیں بھی شامل ہیں جن کا مقصد صرف یہ ہے کہ آزادی صحافت اور آزادی رائے کو مکمل طور پر سرکار کا پابند بنادیا جائے، عمران خان کی حکومت میں میڈیا کے خلاف اپنی جنگ کا آغاز سب سے پہلے اخبارات اور نجی ٹی وی چینلز کو مالی نقصانات پہنچانے سے کیاگیا، حکومت کو سچ کاآئینہ دکھانے والے اخبارات کے صحافیوں کو سرکاری سطح پر ہراساں کیاجاتا رہا ہے ،حکومت کے یہ اقدامات آئین پاکستان کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہیں جو کہ ہر شہری کو اظہار رائے کی ضمانت دیتا ہے،حکومت نے اخبارات اور نجی ٹیلی چینلز کو پیمرا کے ذریعے کنٹرول کر رکھا ہے اور پیمرا گاہے بگاہے نجی ٹی وی چینلز کو پابندیوں کا نشانہ بناتا رہتا ہے، اس حقیقت سے کوئی شخص بھی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ وفاقی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی اخبارات کو معاشی مار مارنا شروع کر دی تھی، اور وفاقی حکومت میں تمام قابل ذکر اخبارات اور نجی ٹی وی چینلز کو ناصرف سرکاری اشتہارات بند کر دیئے بلکہ نجی کاروباری اداروں کو بھی سرکاری دبائو کے ذریعے مجبور کیا گیا کہ وہ آزاد اخبارات اور ٹی وی چینلز کو اشتہارات نہ دیں، سچ تو یہ ہے کہ سرکار نے ملک بھر میں ذرائع ابلاغ اور صحافیوں کا معاشی اعتبار سے گلا گھونٹ دیا ہے، سرکاری اشتہارات اخبارات کے ذرائع آمدنی کا بڑا ذریعہ ہوتا ہے حکومت اشتہارات کو اخبارات کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے اور جس اخبار یا چینلز سے حکومت کو شکایت ہو تو اور وہ اس کو اپنی شرائط کار پر لانے کیلئے سرکاری اشتہارات کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے، ایسے اخبارات اور صحافیوں کو جو حکومت کی ہدایات کو تسلیم نہیں کرتے اور حکومت کا آلہ کار بننے کیلئے تیار نہیں ہوتے ان پر سرکاری اشتہارات کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں،ہاں میں ہاں نہ ملانے والے میڈیا ہائوسز کو مالی مشکلات کا شکار بنانے کے لیے ہر ہتھکنڈا استعمال کیا جاتا ہے، بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ حکومت جس اخبار کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا فیصلہ کرچکی ہو تو اس کی وہ رقم جو اشتہارات کی مد میں حکومت کے واجب الادا ہوتی ہے اس کو بھی روک لیا جاتا ہے جس کا صاف مقصد اخبار کی اشاعت کو ناممکن بنانا ہوتا ہے،حقیقت یہ ہے ہر محکمہ اور وزارت اپنا اشتہار اپنی مرضی سے اس اخبار میں شائع کرانا چاہتا ہے جس کو وہ مناسب سمجھتا ہے مگر وفاقی حکومت نے اخبارات اور ٹی وی چینلز پر اپنا کنٹرول مضبوط کرنے کیلئے ان تمام محکموں اور وزارتوں کو ایک حکمنامہ کے ذریعے مجبور کر رکھا ہے کہ وہ اپنے اشتہارات اخبارات یا ذرائع ابلاغ میں نشر کرنے کیلئے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کو بھجوائیں، پاکستان کے تمام ذرائع ابلاغ پر وزارت اطلاعات کا کنٹرول ہے اس کے باوجود بھی صدر پاکستان اور وزیراعظم سمیت ہر سرکاری اہلکار اور وزیر کو یہ دعویٰ ہے کہ پاکستان میں صحافت اور صحافیوں کو مکمل آزادی حاصل ہے؟ حکومت نے عملی طور پر اخبارات پر سنسر کی بدترین صورت پیدا کر رکھی ہے اور اخبارات پر پابندیاں لگا دی گئی ہیں مگر عمران خان کی جمہوری حکومت نے صحافت اور صحافیوں کے خلاف ایسی پابندیاں لگائیں کہ اخبارات کو حکماً بند کرنے کے بجائے ایسے حالات پیدا کر دیئے گئے کہ اخبارات کے مالکان کیلئے اخباری کارکنو ں اور صحافیوں کو بیروز گار کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں چھوڑا،وزیر اعظم عمران خان کی جمہوریت میں اخبارات اور نجی ٹی چینلز پر اپنا کنٹرول مزید مضبوط اور موثر بنانے کے لیے کوئی نہ کوئی حربہ ضرور استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس تمام صورتحال میں ریاست مدینہ کے دعویداروں کا یہ خیال ہو گا کہ وہ اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو خاموش کرا دے گی تویہ اس کی بھول ہے سینیٹر سیف الرحمن سے لیکر کئی بازی گر آئے اور چلے گئے مگر میڈیا ہر دور میں عوام کی آواز بنا رہا اور بنا رہے گا نیوٹی وی اورنئی بات پاکستا نیو کی آواز ہے اس کے اشتہارات بند کرنے والو تم سن لو کہ
سچ کہنے سے کٹتی ہے تو کٹ جائے زباں میری
اظہار توکر جائے گا جو ٹپکے گا لہومیرا۔۔۔۔۔

مصنف کے بارے میں