یہ نہیں کہا عمران ریاض ایجنسیوں کے پاس ہیں، آئی جی پنجاب چیمبر میں ملیں اس کے بعد حکم جاری کروں گا: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ 

یہ نہیں کہا عمران ریاض ایجنسیوں کے پاس ہیں، آئی جی پنجاب چیمبر میں ملیں اس کے بعد حکم جاری کروں گا: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ 
سورس: file

اسلام آباد : سیکرٹری دفاع اور آئی جی پنجاب نے لاہور ہائیکورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ ٹی وی اینکر اور یو ٹیوبر عمران ریاض کا اب تک کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔

عمران ریاض لاپتا کیس کی لاہور ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی۔  چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے آئی جی پنجاب سے استفسار کیا کہ ‏بتائیے اب تک عمران ریاض مِسنگ پرسن کیوں ہیں؟ انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ کیا اس ضمن میں وزارت دفاع اور وزارت داخلہ سے کوئی رپورٹ آئی ہے؟

اس پر آئی جی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے جیو فینسنگ کی تیکنیک استعمال کی ہے مگر اب تک کوئی نمبر لوکیٹ نہیں ہو سکا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تشویشناک بات یہ ہے کہ عمران ریاض کے معاملے میں کچھ غیرملکی نمبرز بھی استعمال ہوئے جو نمبرز استعمال ہوئے وہ افغانستان کے ہیں اور پنجاب پولیس کے پاس افغانستان کے نمبرز ٹریس کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔

اس موقع پر سیکرٹری دفاع کے نمائندے نے بھی عدالت کو بتایا کہ ابھی تک عمران ریاض کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے واضح کیا کہ انہوں نے اس کیس میں جاری کردہ اپنے آرڈر میں یہ نہیں کہا تھا کہ عمران ریاض ایجنسیوں کے پاس ہیں۔‏ہم نے تو یہ کہا ہے کہ ایجنسیوں سے مدد لیں،‏ایجنسیوں کے علاوہ کون ڈھونڈ سکتا ہے؟

یہ دلائل سننے کے بعد چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کو حکم جاری کیا کہ وہ ان سے چیمبر میں آ کر ملاقات کریں جس کے بعد ہی اس کیس میں کوئی حکم جاری کریں گے۔

گذشتہ سماعت کے دوران آئی جی پنجاب عثمان انور نے عدالت کو بتایا تھا کہ ہم نے تمام ایجنسیوں سے میٹنگ کی، پورے پاکستان کی پولیس سے پوچھا، کسی کے پاس عمران ریاض نہیں ہے جبکہ عمران کے وکیل شاہزیب مسعود نے عدالتی کارروائی کے بعد میڈیا کو بتایا تھا کہ عدالت میں سی سی ٹی وی فوٹیج چلوائی گئی جس میں دکھایا گیا ہے ان کو زبردستی کھینچ کے گاڑی میں بٹھایا جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ عمران ریاض کو رواں ماہ 11 مئی کو سیالکوٹ کے ایئر پورٹ سے اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ بیرون ملک روانہ ہونے کے لیے یہاں پہنچے تھے۔ تاہم بعدازاں پولیس نے دعویٰ کیا کہ اُن کو رہا کر دیا گیا تھا تاہم وہ کبھی گھر نہیں پہنچ سکے اور اس کے بعد سے لاپتہ ہیں۔

مصنف کے بارے میں