نرسنگ یونیورسٹی کا قیام اور گورداسپور سے کرتارپور تک

نرسنگ یونیورسٹی کا قیام اور گورداسپور سے کرتارپور تک

کووڈ نے تمام ممالک کے صحت کے شعبے کو بہت بری طرح متاثر کیا ہے ۔ ترقی پذیر ممالک کا صحت کا نظام تو پہلے ہی بہت خراب ہے لیکن اس عالمی وبا نے ترقی یافتہ ممالک کے صحت کے شعبے کی حالت کو دگرگو ں کر دیا۔ سب قوموں کو یہ احساس ہوا کہ اگر قوم کو بچانا ہے تو صحت کے شعبے پر توجہ دینا ضروری ہے۔ اس وقت دنیا کے تمام ممالک کے صحت کے شعبے میں ڈاکٹروں اور نرسوں کی شدید قلت موجود ہے اور وہ دوسرے ممالک سے ڈاکٹرز اور نرسز کو بھرتی کر رہے ہیں۔اگرپاکستان میں نرسنگ کے شعبے کو جدید خطوط پر استوار کیا جاتا تو اس بحران میں بہت زیادہ تعداد میں نرسوں کو بیرون ملک ملازمت ملنے کے چانسز موجود تھے اور ڈاکٹرز ، نرسز اورپیرا میڈیکل سٹاف کے شعبے تمام ترقی یافتہ ممالک اور امیر خلیجی ممالک میں سب سے زیادہ تنخواہ لینے والے شعبے تصور کیے جاتے ہیں۔ برطانیہ کا ذکر کرتے ہیں, ایک رپورٹ کے مطابق اگر برطانیہ کووڈ کے مسئلہ سے نکلنے چاہتا ہے تو اسے2024-25  تک اپنے نظام میں مزید پچاس ہزار نرسوں کو بھرتی کرنا ہے۔ ا س وقت بھی برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروسز کو پچاس ہزار نرسوں کی ضرورت ہے اور یہ بات تسلیم کی جارہی ہے کہ کووڈ کی اس وبا میں مریضوں کو ہسپتالوں اور کلینکس کے اندر وہ کیئر نہیں ملی جو ملنا چاہیے تھی۔ اس صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئی برطانیہ میں مزید نرسوں کو تربیت دینے اور اور شارٹ فال کو کور کرنے کے لیے نرسوں کو باہر سے بھرتی کرنے کی مہم بھی چل رہی ہے۔ دستیاب اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ پانچ برسوں میں ایک لاکھ پنتیس ہزار نرسوں اور دولاکھ ساٹھ ہزار افراد کو ریگولیٹری باڈی نے پریکٹس کرنے کے لائسنس جاری کیے ۔ بیرون ملک سے نرسوں کو لانے کے لیے برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروسز نے ایک نعرہ دیا ہے اور وہ ہے " Earn, Learn and Return"۔ یعنی بھرتی ہو کر یہاں کے نظام کا حصہ بنو، یہاں سے کمائو اور سیکھو اور اپنے ممالک کو واپس چلے جائو۔ برطانیہ کی نئی امیگریشن پالیسی میں ڈاکٹروں، نرسوں اور الائیڈ ہیلتھ کے شعبوں کو ان شعبوں میں قرار دیا گیا ہے جس کی برطانیہ کو فوری ضرورت ہے اور وہ اس شعبے میں بڑی تعداد میں لوگوں کو امیگریشن دینے کا اعلان کر چکے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے ہیلتھ کے شعبے میں 18فیصد نرسوں کا تعلق برطانیہ سے نہیں ہے۔ امریکہ کے اعدادوشمار بھی ہمارے سامنے موجود ہیں اور 2030تک امریکہ کو 12لاکھ مزید نرسوں کی ضرورت ہے اور امریکہ جیسا ملک بھی نرسوں کی قلت کا بری طرح شکا رہے۔ امریکہ میں 65برس سے زائد عمر کے لوگوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا اور اس کی وجہ سے صحت کے نظام پر بوجھ بڑھ رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ مسئلہ بھی درپیش ہے کہ ان افراد کے نگہداشت کے لیے تربیت یافتہ سٹاف اور نرسوں کی ضرورت کو پورا کرنا ضرور ی ہے اور آنے والے برسو ںمیں امریکہ بھی دوسری دنیا سے بڑی تعداد میں نرسوں کو بھرتی کرے گا اور انہیں امیگریشن دے گا۔ امریکہ میں ایک سٹذی میں یہ بات ثابت ہوئی کہ آپریشن کے بعد مناسب نگہداشت اور کیئر نہ ہونے کی وجہ سے 15فیصد مریض کسی نہ کسی انفیکشن کا شکار ہو گئے۔ یہی حال کینڈا کا بھی ہے اور کینڈا کو بھی نرسوں کی شدید قلت کا سامنا ہے اور دوسرے ممالک سے نرسوں کی ایک بڑی تعداد کینڈا کی امیگریشن کے لیے اپلائی کر رہی ہے۔ حالیہ مہینوں میں کویت اور سعودی عرب نے بھی اپنے صحت کے نظام کو موثر بنانے کے لیے دوسرے ممالک سے ڈاکٹروں اور نرسوں کو بھرتی کیا ہے اور آنے والے برسوںمیں یہ ضرورت پہلے سے زیادہ بڑھ جائے گی۔ ان ممالک میں اس بات پر بھی بحث ہو رہی ہے کہ ریگولیٹرز کی سخت پالیسیوں کی وجہ سے بھی لوگ اس نظام کا حصہ نہیں بن رہے اس لیے اس میں بھی نرمی کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں نرسوںکی تعداد آبادی کے تناسب سے بہت کم ہے۔ پاکستان ایک بڑی آبادی کا ملک ہے اور 22 کروڑ عوام کی مناسب کیئر کرنے کے لیے اس وقت بھی دس لاکھ  نرسوںکی ضرورت ہے اور پورے ملک میں صحت کے شعبے میں ایک لاکھ سے کم یا زیادہ نرسوں کی تعداد موجود ہے۔ ہر سال پاکستان میں ڈاکٹروں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ہزاروں افراد کو ایم بی بی ایس میں داخلہ ملتا ہے مگر نرسنگ کی تعلیم میں آنے والے طالب علموں کی تعداد اس کے نصف سے بھی کم ہوتی ہے ۔پاکستان میں نرسز کی تعلیم اور لائسنسنگ کے لیے نرسنگ کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا اور کئی سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں نرسنگ کی تعلیم کے لیے بی ایس کورسز کا آغاز ہوا ہے مگر اب بھی بہت کم لوگ اپنے بچوں کو اس شعبے کی طرف بھیجتے ہیں اور اس کی وجہ ہمارے معاشرے میںموجود دقیانوسی خیالات کی پروجیکشن ہے۔گذشتہ چند برسوںمیں نرسوں کی سروس سٹرکچر کو بہتر کیا گیا ہے اور ان کی تنخواہوں میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود لوگ اس شعبے کی طرف راغب نہیں ہو رہے۔ اگر ہم باہر کی ضرورت کو ایک طرف رکھیں تو پاکستان کے اندر بھی نرسوں کی تعداد کو پورا کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ میرے علم میں یہ بات آئی ہے کہ وفاقی حکومت نرسنگ یونیورسٹی کے قیام کے حوالے سے غوروخوض کر رہی ہے تاہم ابھی تک اس کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا۔ عمران خان کو اس شعبے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے نرسنگ یونیورسٹی کے قیام کو عملی جامہ پہنانے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ اگر ہم نرسنگ کے شعبے کو جدید خطوط پر استوار کر لیں تو پاکستان کے ساتھ ساتھ بیرون ملک کی ضرورت کو پورا کرنے کے قابل ہو جائیں تو پاکستان مشکل معاشی صورتحال سے باہر نکل سکتا ہے۔