جنگل کا آدمی

جنگل کا آدمی

ایسا لگتا ہے جنگل کے مرد اور عورت پھر سے ملاقات کر رہے ہیں۔ صدیاں، زمانے، مذہب، معاشرت، تربیت کے تمام ادارے درمیان سے نکل گئے۔ تہذیب نے جتنے دل توڑنے تھے توڑ لئے جتنی ڈولیاں اٹھنی تھیں اٹھ گئیں۔ اب مادر پدر آزاد معاشرہ پوری طرح عریاں سامنے ہے۔آئینے میں اپنی شکل دیکھو اور اقوال زریں بولنے بند کرو… درحقیقت تم ایسے ہو ہم ایسے ہیں ہم پر جتنی کاٹھیاں معاشرت نے ڈالنی تھیں ڈال چکی ماں کا ادارہ بھی ’’رل‘‘ چکابچے ماں سے ڈانٹ نہیں کھا سکتے بے عزتی ہو جاتی ہے حقیقی بے عزتی کا انہیں علم نہیں …
انسان اپنی اصلی حالت میں واپس آ چکا فطری جبلتوں کا منہ کھل چکا تہذیب ثقافت ادب آداب کا ڈھکن خواہشات کے غلیظ گٹر سے اٹھ چکا ہے۔ یہ ناصح یہ پیسے لیکر واعظ کرنے والے سکالر ہر پبلک سپیکر پر پروموشن سپیکر یہ قاسم علی شاہ جیسے ناصحین کی تیار کردہ فورس قمیض اتار کر بے بس ہو چکی ہے ناصحین کی ڈگری شدہ اعزازیہ لیکر دنیا کو انسانیت سکھانے والی ٹیمیں بھی بیکار ہو چکی ہیں ۔ بین المذہب اور بین المسالک تو جو ’’رولئے‘‘ ہیں ان کا ذکر ہی کیا… وقت کا پہیہ پھر جنگل میں لے آیا کہ عاشق بھی جھوٹے محبوب بھی جھوٹے ناصح بھی جھوٹے رقیب بھی نقلی چھینا جھپٹی ہی سچ ’’کھویا موئی‘‘ ہی صحیح کرنی معتبر کہ دوسروں کو نیچا دکھایا جا سکے …
انسان لباس میں ضرورت، تربیت اور تہذیب کے باعث آیا مذاہب نے حقوق و فرائض جینے کا قرینہ سکھایا فطرت نے اسے آزاد پیداکیا۔ جیسے ہی مینار پاکستان پر ایک جوڑے نے گندم کا اشارہ دیاہجوم کا ہجوم ٹوٹ پڑا لوگ تبصروں پر تبصرے کرتے رہے اپنی اپنی آواز لیکر دوڑتے رہے کسی نے تربیت کو دوش دیا کسی نے قانون کی بالادستی پر کسی نے سخت سزائوں پر تو کسی نے تعلیم کے فقدان پر…
واقعات کے تسلسل نے بتایا کہ فطرت ساری کاٹھیاں توڑ کر منہ زور گھوڑے کی مانند دندنا رہی ہے۔ تہذیب کے مدفون سے کھل کر ننگے وجود ناچ رہے ہیں چار سو لوگوں کا وجود مٹھائی کے ’’دونے‘‘ پر ٹوٹ پڑا۔…
سربراہ مملکت نے لباس کو وجہ تسلسل عصمت دری سمجھا تو اس کے بھی کئی معنی سامنے آئے…اگر یہ واقعی محض لباس کا معاملہ ہے تو صبح ایک لڑکی کو میں نے موٹر سائیکل پر دیکھا ٹائٹ جینز فراک سر پر کس کر بندھا ہوا سکاف اور شانوں پر سیاہ باریک چادر … میں سوچتی رہ گئی مندرجہ بالا معاشرہ اسے کس انداز میں ہضم کرے گا آٹھ طرح کی تہذیبوں کا یہ مکسچر کس سوچ کو اکسائے گا یعنی پہلے ’’بے ہدایتے لڑکے‘‘ ٹائٹ جینزدیکھ کر چھیڑیں گے پھر سر پر بندھا منڈھا سر دیکھ کر کہیں گے سوری باجی پرشانوں پر پڑے باریک مہین آنچل سے جھانکیں گے بعد ازاں چادر سے مماثلت پر معذرت کریں گے… اندازہ کریں کیا تماشہ ہے یعنی جنگل محض لباس کے مختلف تہذیبوں سے بھڑک پڑتا ہے اور شناسا تہذیبوں سے ٹھنڈا پڑ جاتا ہے ۔دنیا بھر میں یہ سب ہوتا ہے مغرب میں مردوں نے اپنے ہاں سے زیادہ عورتوں کا تمائشہ لگا رکھا ہے خود تو پورا سوٹ ویسٹ کوٹ شرٹ بنیان ٹائی بو ٹرائزر جرابیں بند بوٹ پہن کر شرم و حیا اور عصمت و عزت کے تمام تقاضے نبھاتے ہیں جبکہ سخت سردی میں خواتین عریاں پنڈلیوں ایک آسمین عریان شانوں ننگے بازوئوں اور انتہائی تکلیف دہ ایڑی والے جوتے کے ساتھ کیٹ واک کرتی تماشہ بنی ہوئی ہے پھر بھی اس صنف نارک کو برابر کا دعوے ہے اپنے ہاں بھی ناک کان چھدوا چوڑیاں پہن میدان میں آنا چاہتی ہے جبکہ مرد بات بات پر کہتے ہیں ہم نے چوڑیاں نہیں پہن رکھیں…
خاتون(مینار پاکستان والی) کے حق میں کم اور مخالفت میں زیادہ بیانات زمینی حقائق کو بیان کر رہے ہیں ۔ انسان ہونے کاحق عورت ہونے کے مشروط حق کا منہ چڑا رہا ہے اس حقیقت کو مقامی خواتین جتنی جلدی سمجھ لیں اتنا ہی اچھا ہے… کہ جس خطہ ارضی پر ہم پیدا ہو جاتے ہیں ہماری ستر فیصد قسمت کا فیصلہ وہیں ہو جاتا ہے۔ جس سرزمین پر ہمارا جنم ہوا ہے وہاں خواتین کو بہت عزت ملتی ہے مگر رشتوں کے ٹائٹل کے ساتھ فقط اگر کوئی اکیلی خاتون معاشرے میں کھڑی ہو جائے اور اپنا حق انسانی سمجھ کر کرائے کا گھر ہی لینا چاہے کوئی اس کو نہیں دے گا ۔ مذہب معاشرت اسے رشتوں کے تقدس میں تو بڑی عزت دیتا ہے مگر تن تنہا کوئی مقام حاصل کرنا اور معاشرے میں کھڑے ہونا ہر عورت کے بس کی بات نہیں اسی لئے تو طاقتور خواتین کو مرد بطور بیوی پسند نہیں کرتا۔کمزور عورت ان کی ترجیح ہوتی ہے کہ خوف کے سائے تلے زندگی گزارے بھلے کمزور نسلوں کو جنم دے مگر مرد کو ہر لمحہ اس کی مردانگی کی گواہی ملتی رہے… جبھی یہاں مذہبی احکامات کے برعکس عورت کی غلطی پر پورا معاشرہ سزا دیتا ہے اور مرد اپنے پرانے عشق گھروں میں بیٹھ کر ببانگ دہل مسکراتے ہوئے دہراتے ہیں جبکہ چوکوں چوراہوں میں تو خود عورت کے ساتھ خود کو جوڑ کر مشہور کرواتے ہیں ان عورتوں نے ساتھ بھی خود کو منسلک کرتے ہیں جو ان کی شکل نہیں دیکھنا چاہتیں…
ایسے معاشرے میں کیا توقع کی جا سکتی ہے کہ عورت مینار پاکستان پر چڑھ کر وڈیو بنائے گی اور پورے کا پورا انسانی نفسیاتی خواہشات کا جنگل اس پر ٹوٹ نہیں پڑے گا۔ دینی احکامات بھولے ہوئے لوگوں کو خبر ہو کہ رب تو معاف کر دیتا ہے مگر اس کے بندے نہیں سوسائٹی کے رولز کو فالو کرنا پڑے گا۔ (جنہیں اردو نہیں آتی ان کے لئے یہ انگریزی جملہ لکھا ہے) معاشرے سے ایک انچ ہٹنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ تمام سمندری مخلوق سے اچھال کر ساحل پر ٹپک دے گا سوسائٹی بہت مضبوط ہے اور بندہ بہت کمزور معاشرے کو کروٹ لینے میں بھی صدیاں لگتی ہیں… کبھی غور کریں لومیرج کیوں کامیاب نہیں ہوتی کہ اس میں سے معاشرے کا پائوں کھسکا دیا جاتا ہے پھر معاشرہ پوری طاقت سے اس ارینج ہونے والے لو LOVE کو طلاق تک پہنچاتا ہے کبھی نند کی شکل میں کبھی دیور کی صورت…