افغانستان کے طالبان۔ تصویر کا دوسرا رخ

Khalid Minhas, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

نیوزی لینڈ کی ایک خاتون رپورٹر کی کہانی نے دنیا کو مہذب اور غیر مہذب قوم کے فرق کو سمجھانے میں مدد دی ہے۔ ایک طرف افغانستان ہے اور دوسری طرف نیوزی لینڈ جیسا ملک۔ دونوں میں کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ آپ سے کہا جائے کہ آپ موازنہ کریں کہ ان میں کون مہذب ہے اور کون غیر مہذب تو آپ نیوزی لینڈ کو ایک مہذب ملک قرار دیں گے اور چونکہ دنیا کو طالبان کا چہرہ ایک متشدد گروہ کی صورت میں دکھایا گیا ہے اس لیے آپ انہیں غیر مہذب قرار دینے میں ایک سیکنڈ کی تاخیر نہیں کریں گے۔ یہ وہی طالبان ہیں جنہوں نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ایک طویل جنگ لڑی ہے اور دنیا کی دو سپر پاورز کو شکست سے دوچار کیا۔سوویت یونین اور امریکہ کابل سے دم دبا کر بھاگ لیے۔
آج کابل پر طالبان کی حکومت ہے۔ دنیا اب بھی طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ خود امریکہ جس نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کر کے ملک کو ان کے حوالے کیا وہ بھی طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہا ہے۔ دنیا کی واحد حکومت ہے جسے ابھی تک کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا۔ جنہوں نے مذاکرات کے لیے میز سجائی تھی وہ بھی گومگوں کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ عالمی برادری کے اس رویے کے باوجود طالبان نے بین الاقوامی دنیا سے کیے گئے اپنے وعدوں کی تکمیل کی ہے اور دنیا میں دہشت گردوں کو پناہ دینے سے انکار کیا ہے۔ طالبان کو افغانستان کی تعمیر نو کے لیے جو فنڈز درکار ہیں وہ بھی فراہم نہیں کیے جا رہے۔ بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے شدید تنقید ہو رہی ہے مگر کوئی یہ بات نہیں کر رہا کہ ان کو ملک چلانے کے لیے جو فنڈز درکار ہیں وہ ان کے پاس موجود نہیں ہیں ایسے میں وہ سکول اور ہسپتال کیسے چلائیں گے۔ 
میں نیوزی لینڈ کی خاتون رپورٹر کی کہانی آپ کے ساتھ شئیر کرنا چاہتا ہوں۔ الجزیرہ کے لیے کام کرنے والی خاتون رپورٹر کا نام شارلٹ بلیز ہے۔ وہ امریکی فوج کے انخلا کی کوریج کے لیے افغانستان گئی تھی۔ انہوں نے طالبان کے رہنماؤں سے خواتین کے حقوق پر سوالات کیے تو دنیا نے انہیں بہت سراہا۔ کہانی صرف اتنی نہیں 
ہے۔ اس کوریج کے بعد وہ قطر واپس چلی گئیں اور معلوم ہوا کہ وہ حاملہ ہیں۔ انہوں نے اپنے کالم میں لکھا کہ " جب وہ ستمبر میں قطر گئیں تو انہیں اپنے ساتھی کے ساتھ حاملہ ہونے کا معلوم ہوا جو نیویارک ٹائمز کے ساتھ کام کرنے والے ایک فری لانس فوٹوگرافر ہیں۔حمل کا ٹھہرنا ان کے لیے معجزہ تھا کیونکہ انہیں ڈاکٹرز کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ ان کے بچے نہیں ہوسکتے"۔ خاتون رپورٹر کی چونکہ شادی نہیں ہوئی تھی اس لیے قطر میں ان کے لیے یہ تعلق غیر قانونی تھا اس لیے انہوں نے اپنے ادارے سے استعفی دے دیا اور بلجئیم چلی گئی کیونکہ یہ ان کے پارٹنر کا ملک تھا لیکن وہ وہاں بھی زیادہ دیر تک نہیں رک سکتی تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ وہاں کی مستقل رہائشی نہیں تھیں۔ اب ان کے پاس ایک ہی ملک بچا تھا جہاں وہ جا سکتی تھی اور وہ افغانستان تھا۔ خاتون رپورٹر نے افغانستان میں طالبان کے رہنماؤں سے رابطہ کیا اور انہیں ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔ طالبان نے انہیں اپنے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ وہ یہاں آرام سے رہ سکتی ہیں۔ کوئی پوچھے تو انہیں بتا دیں کہ آپ شادی شدہ ہیں اور کوئی مسئلہ کرے تو فوری طور پر طالبان سے رجوع کریں۔  اب سوال یہ ہے کہ وہ اپنے ملک نیوزی لینڈ کیوں نہیں گئی تو اس کا جواب ہے کہ نیوزی لینڈ میں کورونا سے بچاؤ کے لیے سخت ترین اقدامات کیے گئے ہیں اور ان اقدامات کی وجہ سے کورونا میں وہاں مرنے والوں کی تعداد 52 رہی۔ بیرون ملک سے آنے والے اپنے شہریوں کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ دس دن فوج کے زیر انتظام چلنے والے قرنطینہ مرکز میں گذاریں گے۔ جگہ محدود ہونے کی وجہ سے ہزاروں افراد نے درخواستیں دے رکھی ہیں اور اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس خاتون رپورٹر نے بھی اس کے لیے درخواست دی مگر ابھی تک اس کی باری نہیں آئی۔ اپنی اس صورتحال کے حوالے سے انہوں نے نیوزی لینڈ کے حکام کو 59 دستاویزات ارسال کیں اور ان سے درخواست کی کہ انہیں ہنگامی بنیاد پر ملک واپسی کی اجازت دی جائے اس کے باوجود ان کی حالت کو نہیں سمجھا گیا اور آج جب ان کے کالم نے ساری دنیا میں جگ ہنسائی کی ہے تو ان سے کہا گیا ہے کہ دوبارہ درخواست دیں لیکن اس تمام معاملے میں دنیا نے طالبان کے خواتین کے حوالے سے رویے کو بھی دیکھ لیا ہے۔ قطر، بلجئیم اور نیوزی لینڈ سے زیادہ خیال تو افغانستان نے اس خاتون رپورٹر کا رکھا ہے۔ افغانستان میں پھنسی اس خاتون رپورٹر کے ساتھ طالبان کے سلوک سے شائد دنیا یہ سمجھ سکے کہ وہ بھی انسان ہیں اور صلہ رحمی ان میں بھی ہے۔ 
طالبان کے خواتین کے ساتھ سلوک کی یہ کہانی کوئی نہیں نئی ہے پہلے بھی دنیا اس قسم کی کہانیوں سے واقف ہے لیکن ذرائع ابلاغ نے جان بوجھ کر طالبان کے چہرے کو مسخ کرنے کے لیے طرح طرح کی کہانیوں کو عوام کے سامنے پیش کیا۔ نیوزی لینڈ میں مسجد پر حملہ ہوا تو وہاں کی وزیراعظم نے مسلمانوں سے جس ہمدردی کا اظہار کیا اس کو ساری دنیا اور خاص طور پر مسلمانوں نے بہت سراہا۔ نیوزی لینڈ کا خوبصورت امیج دنیا کے سامنے آیا۔ اسی طرح آج طالبان نے ایک غیر شادی شدہ حاملہ خاتون کا جس طرح خیال رکھا ہے وہ امیج بھی دنیا کے سامنے جانا چاہیے۔  دنیا کو طالبان کی جانب سے صحافیوں کو اغوا کر کے محبوس کرنے کی کہانیوں کی انٹرنیٹ پر بھرمار ہے اس طرح کی کہانی خزاں میں بہار کے جھونکے کی مانند ہے۔ خدا کرے کہ طالبان بھی دنیا کی حقیقتوں کو سمجھ کر دنیا سے قدم سے قدم ملا کر چلنے لگیں تو یہ خطہ امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ افغانستان کی جنگ نے اس خطے کی ترقی کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ کھڑی کی تھی امید کرنی چاہیے کہ اب وہ سب کچھ نہیں دھرایا جائے گا اور یہ خطہ بھی دائمی امن کی جانب بڑھے گا۔ طالبان کس قسم کا نظام لائیں گے اس کے خدو خال بھی سامنے آنے چاہئیں اور اس قسم کی کہانیوں کو بھی سامنے آنا چاہیے کہ یہ لوگ عقل و شعور سے عاری نہیں ہیں۔  
دنیا کو طالبان کی مدد کے لیے آگے آنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ جنگ زدہ افغانستان کی تعمیر و ترقی میں دنیا طالبان کے ساتھ مل کر حصہ لے گی تو وہ دن دور نہیں جب کابل ایک بار پھر تہذیب و تمدن کا ایک نیا مرکز بن کر ابھرے گا۔

مصنف کے بارے میں