ملک بھر کی بارکونسلز اور بار ایسوسی ایشنز کا جسٹس جیلانی تحقیقاتی کمیشن کا خیرمقدم

ملک بھر کی بارکونسلز اور بار ایسوسی ایشنز کا جسٹس جیلانی تحقیقاتی کمیشن کا خیرمقدم

اسلام آباد:ملک بھر کی بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشنز  نے  اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز  کے خط کے معاملے کی تحقیقات کیلئے جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں کمیشن کے قیام کا خیرمقدم کیا ہے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، پاکستان بار ایسوسی ایشن، پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، خیبر پختونخوا بار کونسل، ایبٹ آباد بار ایسوسی ایشن کا کہنا ہے سیاسی افرادکا سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سے استعفے کا مطالبہ نامناسب ہے۔

 پنجاب بارکونسل، ملتان ہائی کورٹ بار ، بہاولپور ہائی کورٹ بار اور دیگر بار ایسوسی ایشنز نے کہا، جسٹس ریٹائرڈ تصدق جیلانی انتہائی غیر متنازعہ اور دیانتدار جج رہے ہیں ۔امید ہے غیرجانبدارانہ تحقیقات کریں گے۔

پاکستان بار کونسل کا اعلامیہ

پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین ریاضت علی سحر اور پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین فاروق حامد نائیک نے ایک سیاسی جماعت کی جانب سے چیف جسٹس کے مستعفی ہونے کے مطالبے کی شدید مذمت کی اور مطالبہ کو مسترد کر دیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی فوری طور پر اس فورم کی طرف سے تحقیقات کرائی جائے جس پر حال ہی میں معزز چیف جسٹس آف پاکستان کی میٹنگ میں بحث اور فیصلہ کیا گیا تھا، اگر یہ الزامات درست ثابت ہوتے ہیں تو یہ ادارے کے لیے ایک سنگین خطرہ ہیں، جس سے سنجیدہ کارروائی کی ضرورت ہے۔ ججوں کو رازداری اور تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے، جو ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔

 دیگر اداروں کو عدلیہ میں کسی بھی طرح مداخلت کا اختیار نہیں، ان کی بنیادی ذمہ داری عدلیہ کے استحکام میں معاونت کرنا ہے، کسی بھی دھمکی یا سرگرمی کا مقصد عدلیہ کو کمزور کرنا ہے تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔

انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان بار کونسل اور پوری قانونی برادری چیف جسٹس آف پاکستان اور پاکستان کی پوری عدلیہ کے ساتھ مضبوطی سے کھڑی ہے۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ پاکستان بار کونسل اور قانونی برادری کے لیے عدلیہ پر اس طرح کے حملوں پر خاموش رہنا قطعی طور پر ناقابل قبول اور ناقابل برداشت ہے۔ مزید برآں، انہوں نے بطور ادارہ عدلیہ کے لیے اپنی غیر متزلزل حمایت کا اظہار کیا، اس کی سالمیت اور آزادی کو یقینی بنایا۔

پاکستان کے ایک ریٹائرڈ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کو اس طرح کے الزامات کی انکوائری کرنے والے کمیشن کی سربراہی کے لیے مقرر کیا گیا ہے اور اس فیصلے کا وہ خیرمقدم اور حمایت کرتے ہیں۔

انہوں نے اس معاملے پر مزید غور و خوض کے لیے بہت جلد جنرل باڈی کا اجلاس بلانے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔قانونی برادری عدلیہ کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ کھڑی ہے اور ان کا مقصد عدلیہ کے تحفظات کے لیے مناسب حل کی نشاندہی کرنا ہے۔

سپریم کورٹ بار کا اعلامیہ

سپریم کورٹ بار نے جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں ججز کے خط کے معاملے کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے کمیشن کے قیام کا خیر مقدم کیا۔

سپریم کورٹ بار نے کہا کہ جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی اعلٰی کردارکی وجہ سے جانے جاتے ہیں، سیاسی افرادکا سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سے استعفے کا مطالبہ نامناسب ہے۔

سپریم کورٹ بار کے مطابق ایسامطالبہ اہم معاملےکو سیاسی بنانے اور توجہ ہٹانےکا سبب بن سکتا ہے۔ تحقیقاتی کمیشن کی فائنڈنگ کا انتظار اور عدالتی نظام پر اعتماد برقرار رکھا جائے۔

پنجاب بار کونسل کا اعلامیہ

پنجاب بار کونسل کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق وائس چیئر مین کامران بشیر مغل اور پیر عمران اکرم بودلہ چیئر مین ایگزیکٹو کمیٹی پنجاب بار کونسل کی زیر صدارت 30 مارچ کو پنجاب بار کا اجلاس منعقد ہوا جس میں پنجاب بار کونسل کے جنرل ہاؤس کے اجلاس میں مشترکہ طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی طرف سے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے جانے والے خط پر ممبران پنجاب بار کونسل کی طرف سے پیش کی جانے والی قراردادوں پر یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ عدلیہ پر دباؤ کسی صورت قابل قبول نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی خفیہ ایجنسیوں کو یہ اجازت دی جائے گی کہ وہ عدلیہ کے معاملات میں مداخلت کریں پنجاب بار کونسل اس کی مذمت کرتی ہے۔

ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں رہے بار کونسل نے ہمیشہ آئین و قانون کی بالا دستی اور آزاد عدلیہ کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے۔جس کا تقاضا ہے کہ ملک میں موجود تمام اداروں کو اپنے اپنے آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے عدم مداخلت کے اصول پر اپنے فرائض سر انجام دے۔

 اسی طریقہ کار میں ملک و قوم کی بہتری ہے۔ پنجاب بار کونسل سابقہ چیف جسٹس آف پاکستان جناب تصدق حسین جیلانی کی نامزدگی بطور سر براہ تحقیقاتی کمیشن کو خوش آئند قرار دیا ہے کیونکہ وہ انتہائی غیر متنازعہ اور ایک دیانتدار جج کے طور پر جانے جاتے ہیں اور ان سے امید رکھتے ہیں کہ وہ اس معاملہ کی غیر جانبداری سے انکوائری مکمل کریں گے ان کی جانب سے دی جانے والی تجاویز عدلیہ کی آزادی استحکام اور وقار میں اضافہ کریں گی اور وہ اپنی سفارشات مرتب کرے اور اس پر عملدرآمد کر کے آزاد عدلیہ کے معاملات میں ایجنسیوں کی مداخلت کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند کیا جائے۔

پشاور ہائی کورٹ بار کا اعلامیہ

پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے وفاقی کابینہ کی حجز الزامات کی تحقیقات کیلئے انکوائری کمیشن کے قیام کی منظوری اور جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی کو اس کا سر براہ مقرر کرنے پر اطمینان کا اظہار کیا ۔

بار کی جانب سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اس نے اپنے فیصلوں کے ذریعے بحیثیت حج اعلیٰ عدلیہ آئین و قانون کی بالا دستی قائم رکھنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا اور غیر جانبدارانہ فیصلوں کی وجہ سے اپنے اعلیٰ کردار و ایمانداری کی وجہ سے اسے معاشرے میں نہایت احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن یہ توقع رکھتی ہے کہ بحیثیت سربراہ انکوائری کمیشن جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے حجز الزامات کی بابت ایک جامع رپورٹ مرتب کر کے ذمہ داران کا تعین کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے ۔

جہاں تک ایک مخصوص جماعت کا چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے کا تعلق ہے وہ سراسر غلط و غیر آئینی ہے اور قابل مذمت ہے۔

پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن آئین و قانون کی بالا دستی کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے اقدامات کو سراہتی ہے اور ان کو ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کراتی ہے۔

ہائی کورٹ بار ایبٹ آباد کا اعلامیہ

ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ایبٹ آباد کی طرف سے جاری اعلامیہ کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان کی ہدایت پر وفاقی کا بینہ کے منظوری سے بنائے گئے کمیشن سابقہ چیف جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی کی زیرنگرانی کی ہائی کورٹ بار مکمل حمایت کرتی ہے اور کمیشن سے یہ توقع رکھتی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی جانب سے لکھے گئے خط کا جائزہ لے کر صبح طو پر تحقیق کرتے ہوئے رپورٹ 60 دنوں میں مرتب کر کے خط میں لگائے گئے الزامات کی صاف و شفاف انکوائری کریں گے۔

اگر الزامات درست ثابت ہو جاتے ہیں تو ان اشخاص یا اداروں کے خلاف قانونی کاروائی تجویز کرتے ہوئے ان کو عدالتی امور میں دخل اندازی سے باز رکھنے کی ہدایات دیں۔ہم امید کرتے ہیں کہ کمیشن ایسی تجاویز بھی دے گا جس سے آئندہ کوئی شخص یا ادارہ عدالتی امور میں کبھی مداخلت نہیں کر سکتے۔

مزید کہا گیا کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اور چیف جسٹس آف پاکستان سے استعفی کا مطالبہ بالکل غیر آئینی ہے اسکی پرزور مذمت کرتے ہیں ۔

ہائی کورٹ بار ایبٹ آباد ہمیشہ آئین کی بالا دستی پر یقین رکھتی ہے اور ماورائے آئین ہر قدم کی مذمت کرتی ہے۔

ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن بہاولپور کا اعلامیہ

30 مارچ کو ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن بہاولپور کی ایگزیکٹو باڈی کا اجلاس منقعد ہوا جس میں مشترکہ طور پر یہ اعلامیہ جاری کیا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے بجز کی طرف سے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے جانے والے محط پر کسی قسم کا کوئی دباؤ قبول نہیں کیا جائے گا نہ ہی کسی بھی ادارہ یا سیاسی پارٹی کی عدلیہ پر دباؤ یا معاملات میں مداخلت قبول کی جائے گی ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرے وکلاء نے ہمیشہ آئین و قانون کی بالا دستی اور آزاد عدلیہ کے لئے اپنا قردار ادا کیا ہے۔

اعلامیہ کے مطابق موجودہ حالات کا تقاضہ ہے کہ ملک میں موجود تمام اداروں کو اپنے اپنے آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے عدم مداخلت کے اصول پر اپنے فرائض سر انجام دینے چاہیں ۔

 ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن بہاولپور سابقہ چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی کی نامزدگی بطور سر براہ تحقیقاتی کمیشن کو خوش آئمین کرار دیتی ہے اور ان کی دیانتداری اور سابقہ ریکار ڈ کو دیکھتے ہوئے امید رکھتی ہے کہ اس تمام معاملہ کی غیر جانب دار انکوائیری مکمل کریں گے اور ان کی تجاویز بعد از تحقیقات عدلیہ کی آزادی و وقار میں اضافہ کرے گی جس سے ناصرف عدلیہ کی آزادی کا خواب پورہ ہوگا بلکہ کسی بھی قسم کی سیاسی و دیگر اجنسیوں کی طرف سے مداخلت کا راستہ بھی ہمیشہ کے لئے بند ہوگا۔

وکلاء برادری چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس آف اسلام آباد ہائی کورٹ کے ساتھ کھڑی ہے کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے کسی بھی قسم کے استعفیٰ کا مطالبہ قابل مذمت ہے۔

ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان کا اعلامیہ

ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان کی ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس 30 مارچ کو منعقد ہوا جس کی صدارت ملک سجاد حیدر میتلا صدر ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان اور نظامت کے فرائض سیدا نیس جنرل سیکرٹری ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان نے  انجام دیئے ۔

اجلاس میں متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ عدلیہ پر دباؤ کسی صورت قابل قبول نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی خفیہ ایجنسیوں کو یہ اجازت دی جائے گی کہ وہ عدلیہ کے معاملات میں مداخلت کریں ، ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان اس کی مذمت کرتی ہیں۔

ایک سیاسی جماعت کی طرف سے چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس اسلام آباد سے استعفی کا مطالبہ غیر آئینی ہے جس کی ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان پر زور مذمت کرتی ہے۔

تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہیں، ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان نے ہمیشہ قانون کی بالا دستی اور آزاد عدلیہ کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کیا ہیں ، ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ سابقہ چیف جسٹس آف پاکستان جناب تصدق حسین جیلانی جو کہ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان کے ممبر بھی رہ چکے ہیں، کی نامزدگی بطور سر براہ تحقیقاتی کمیشن خوش آئند ہے۔

آپ ایک انتہائی غیر متنازعہ اور دیانت دار جج کے طور جانے جاتے رہے ہیں۔ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان پر امید ہے کہ اس معاملے کی غیر جانبدارانہ انکوائری آپ کی زیر سر پرستی مکمل ہو گی اور آپ کی جانب سے دی جانے والی تجاویز عدلیہ کی آزادی ، آئین و قانون کی حکمرانی اور وقار میں اضافہ کریں گی اور ایجنسیوں کی جانب سے آزاد عدلیہ کے معاملات میں مداخلت کا راستہ ہمیشہ کیلئے بند کر دیا جائے گا۔

واضح رہے کہ 27 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے ججز کے کام میں مبینہ طور پر خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور دباؤ میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا۔

 
خط اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا۔

خط لکھنے کے  ایک دن بعد مختلف حلقوں  کی جانب سے  اس کی تحقیقات کے لیے مطالبات سامنے آئے جس کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان  قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے ججز کا فل کورٹ اجلاس طلب کیا۔

 وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات کی جہاں دونوں نے کابینہ کی منظوری کے بعد عدالتی امور میں مداخلت کے خدشات کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا۔

30 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے الزامات پر ایک رکنی انکوائری کمیشن بنانے کی منظوری دے دی گئی۔ جسٹس (ر) تصدق جیلانی کو کمیشن کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔

وفاقی کابینہ نے انکوائری کمیشن کی شرائط کار (ٹی اوآرز) کی بھی منظوری دی۔  ٹی او آرز کے مطابق انکوائری کمیشن معزز جج صاحبان کے خط میں عائد کردہ الزامات کی مکمل چھان بین کرے گا اور تعین کرے گا کہ یہ الزامات درست ہیں یا نہیں۔ انکوائری کمیشن تعین کرے گا کہ کوئی اہلکار براہ راست مداخلت میں ملوث تھا؟

کمیشن اپنی تحقیق میں سامنے آنے والے حقائق کی بنیاد پر کسی ایجنسی، محکمے یا حکومتی ادارے کے خلاف کارروائی تجویز کرے گا۔ کمیشن کو یہ بھی اختیار ہوگا کہ وہ انکوائری کے دوران ضروری سمجھے تو کسی اور معاملے کی بھی جانچ کرسکے گا۔