ملک بھر کی پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلرز کی تقرری: درخواست مفاد عامہ کے تحت قابل سماعت قرار

ملک بھر کی پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلرز کی تقرری: درخواست مفاد عامہ کے تحت قابل سماعت قرار

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں ملک بھر کی پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلرز کی تقرری نہ کرنے کا معاملہ پر دائر درخواست مفاد عامہ کے تحت قابل سماعت قرار دیتے ہوئے تمام صوبائی حکومتوں سے مکمل تفصیلات طلب کرلی۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی، عدالت نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات ختم کردیئے ۔عدالت نے تمام صوبائی حکومتوں سے مکمل تفصیلات طلب کر لیں 


 چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی  نے استفسار کیا کہ درخواست کس کی طرف سے دائر کی گئی ہے جس پر وکیل عمر گیلانی  نے عدالت مین بتایا کہ پندرہ ہزار اساتذہ پر مشتمل تنظیم نے دائر کی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا وکیل سے مکالمہ  پوچھا کہ کتنی یونیورسٹیز ہیں،  وکیل عمر گیلانی  نے جواب دیا کہ 66 پبلک سیکٹر اور کل 147 یونیورسٹیاں ہیں،کئی یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر نہیں ہیں۔

چیف جسٹس  نے استفسار کیا کہ وائس چانسلر کی تقرری نہ کرنے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے، جس پر وکیل عمر گیلانی نے کہا کہ حکومتیں اثرانداز ہونے کیلئے مستقل وائس چانسلر نہیں لگارہی ہیں، یونیورسٹیوں کا ایک مکمل اسٹریکچر ہے سنڈیکیٹ تک کی میٹنگ نہیں ہوتی ہیں۔


چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بات درست ہے تین سال تک اجلاس نہیں بلائے جاتے ہیں۔ ، جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ  بلوچستان کی حد تک آپ کی فراہم کردہ معلومات درست نہیں، بلوچستان کی تمام یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلر موجود ہیں،اس تمام تفصیلات کو دوبارہ درست کریں۔

سماعت کے بعد عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ درخواست گزار نے بتایا پبلک سیکٹر میں 60 سے زیادہ یونیورسٹیز کے وائس چانسلر نہیں ہیں، درخواست گزار کے مطابق متعلقہ یونیورسٹیوں میں فیصلہ ساز باڈیز اور اکیڈمک کونسل نہیں ہے۔


بعد ازاں عدالت نے تمام صوبائی حکومتوں سے یونیورسٹیوں سے متعلق مکمل تفصیلات طلب کر تے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔

مصنف کے بارے میں